وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں سینٹرل سلیکشن بورڈ
(سی ایس بی) کے سیکڑوں کی تعداد میں افسران کو گریڈ 20 اور 21 میں ترقی
دینے کے معاملات پر گزشتہ تین روز سے غور و فکرجاری ہے۔توقع ہے کہ ملک
کے450سے زیادہ سرکاری اہلکاروں کو میرٹ پر ترقی دی جائے گی۔ ملک کے اہم
عہدوں پر کام کرنے والے مخلص اور دیانتدار ملازمین کسی بھی معاشرے کا قیمتی
سرمایہ ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ جس کی سفارش نہ ہو، اسے ترقی نہیں دی جاتی۔
ملازمین کئی سال تک ایک ہی گریڈ میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اداروں کا
اپنا نظام بنا ہوتا ہے۔ اپنے مقصد اور مفاد میں ایچ آر پالیسیاں بنائی جاتی
ہیں۔ اعلیٰ ملازمین وزیروں مشیروں کو رام کر کے یا چکما دے کر اپنا الو
سیدھا کر لیتے ہیں مگر اس مشینری کے اہم پرزیزنگ آلود رہتے ہیں۔ اب تو ستم
یہ ہے کہ جو آپ کی جی بھر کے چاپلوسی کرے ، آپ کو تحائف دے، آپ کے کرپشن
میں ساتھ دء یا اسے چھپائے، یا کرپشن کے مواقع فراہم کرے، سرکاری خرچ پر
کھانے پینے، سیر سپاٹے کرائے، وہ افسر، اہلکار اچھا ہے۔ اسے ترقی سے نوازا
جاتا ہے۔ جسے ترقی نہ دینا ہو، وہ اپوزیشن پارٹی کا ہمدردیا کارکن بنا دیا
جاتا ہے۔ جو آپ کے حضورحاضر رہے، اپنا وقت بھی ضائع کرے اور آپ کا بھی ،
خوشامدی ہو، بلاشک اس کی پیشہ ورانہ صلاحیت صفر ہو تو وہ کامیاب ہے، اسے
ترقی بھی ملتی ہے، اس کی تنخواہ بھی بڑھتی ہے۔ میرٹ کی پامالی، صلاحیتوں
میں بھی بہانے سے کیڑے نکالنا کس قدر رسوا کن اور رذالت والی سرگرمی ہے کہ
جس کا شکار ہمیشہ مظلوم لوگ بنتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ جب اﷲ تعالیٰ چاہے
گا ان کی بھی ترقی ہو گی ،انہیں بھی دیگر کی طرح ضابطے کے تحت متعلقہ
مراعات دستیاب ہوں گی۔ لیکن حق دار کو اس کا حق نہ دینے والے کمینہ صفت اور
گھٹیا عناصر ان کے ساتھ بھی ناانصافی کر گزرتے ہیں اور اس کے حق میں من
پسند تاویلات بھی دیتے ہیں۔ ان کا بس چلے تو وہ میرٹ پر ترقی دینے کے بجائے
اپنے ناپسندیدہ ملازم کو فوری نوکری سے ہی برطرف کرا دیں۔ اس طرح کے
معاملات تقریباً ہر سرکاری، نیم سرکاری اور نجی اداروں میں ہوتے ہیں۔
کنٹریکٹ تو آج کے دور کا ایک اور ناسور ہے جس میں تلوار بے چارے اہلکار پر
لٹکا کر اسے بے بس اور لاچار کر دیا جاتا ہے۔ وہ اپنا حق بھی نہیں مانگ
سکتا۔
وزیر اعظم کی قیادت میں 28ستمبرسے اجلاس جاری ہے جس میں مختلف محکموں میں
سرکاری افسران کی ترقی کے کیسز پر غور ہو رہا ہے۔
ان محکموں میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (پی اے ایس)، سیکریٹریٹ گروپ،
پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس، پوسٹل گروپ، فارن سروس آف پاکستان، پاکستان
کسٹمز سروس، ان لینڈ ریونیو سروس، انفارمیشن گروپ، کامرس اینڈ ٹریڈ گروپ،
پاکستان پولیس سروس، ریلویز اور ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ شامل ہیں۔یہ
بورڈ، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے 20 گریڈ کے چار ڈپٹی
ڈائریکٹرز جنرل کی گریڈ 21 میں ڈائریکٹرز جنرل کے عہدے پر ترقی اور 12
ڈائریکٹرز کے ڈپٹی ڈائریکٹرز جنرل کی خالی آسامیوں پر تقرر کے کیسز پر بھی
غور کررہا ہے۔سلیکشن بورڈ، انٹیلی جنس بیورو کے 7 افسران کی جوائنٹ
ڈائریکٹرز جنرل کے عہدوں اور 18 افسران کی ڈپٹی ڈائریکٹرز جنرل کے عہدوں پر
ترقی کے کیسز کی بھی جانچ پڑتال کررہا ہے۔ وزیر اعظم کی سربراہی میں اعلیٰ
اختیاراتی سلیکشن بورڈ (ایچ پی سی بی) نے گریڈ 21 کے افسران کی گریڈ 22 میں
ترقی کے کیسز پر غور کرنے میں تاخیر کی اہم وجہ بیان کی ہے مگر گریڈ 21 اور
پھر 20 میں خالی آسامیاں کم رہ گئی ہیں۔ وزیر اعظم نے ٹوئٹر کے ذریعے ایچ
پی ایس بی کا اجلاس بلانے میں تاخیر کے معاملے پرکہا تھا ــ’’وزیر اعظم کی
سربراہی میں اعلیٰ اختیاراتی سلیکشن بورڈ کا اجلاس ہوتا ہے تاکہ بیوروکریٹس
کو گریڈ 21 سے 22 پر ترقی دی جائے، بورڈ کا اجلاس کچھ ماہ کے لیے ملتوی
کردیا گیا ہے کیونکہ میں معمول کی کارکردگی کے جائزے سے آگے بڑھ کر ان
افسران کی حقیقی کارکردگی کی جانچ پڑتال کر رہا ہوں‘‘۔اس سے پہلے بی ایس 18
سے بی ایس 20 کے افسران کے عہدوں میں ترقی کے لیے سینٹرل سلیکشن بورڈ (سی
ایس بی) کے ایک اجلاس سے قبل ایک سابق بیوروکریٹ نے تحریک انصاف (پی ٹی
آئی) حکومت کی جانب سے متعارف کروائے گئے پروموشن رولز اسلام آباد ہائی
کورٹ میں چیلنج کردیئے تھے۔درخواست گزار سکندر حیات میکن کا کہنا تھا کہ
سول سرونٹس پروموشن (بی پی ایس-18 سے بی پی ایس-21) رولز برائے 2019 اعلیٰ
عدالتوں کے احکامات سے متصادم ہیں۔ 2019 کو پی ٹی آئی حکومت نے یہ اصول
نافذ کئے تھے جس کے تحت سی ایس بی اراکین کو پسندیدہ امیدوار کی ترقی کے
لیے 30 صوابدی مارکس کی اجازت دی گئی تھی۔ سالانہ خفیہ رپورٹس(اے سی آر) کے
50 مارکس جبکہ پروفیشنل کورسز کے 35 مارکس ہوتے تھے اور اگر کوئی امیدوار
80 فیصد مارکس حاصل کر لے تو اس کی ترقی کا امکان ہوتا تھا چاہے سی ایس بی
اسے کوئی مارک نہ دے۔تاہم نئے اصول کے تحت ایک افسر اے سی آر میں 90 فیصد
مارکس حاصل کرنے کے بعد بھی اس وقت تک ترقی نہیں پا سکتا جب تک سی ایس بی
سے 70 سے 80 فیصد مارکس نہ حاصل کرلے۔
توقع ہے کہ حکومت کی اعلیٰ بیوروکریسی کے جائز مفادات کا خیال رکھتے ہوئے
چھوٹے گریڈ کے ملازمین کے حقوق بھی مدنظر رہیں گے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ
اعلیٰ افسران اپنے ماتحت ملازمین کی قیمت پر ترقی اور مراعات حاصل کرنے کی
تراکیب تلاش کر لیتے ہیں۔ امید ہے کہ وزیراعظم پارٹی، سیاست اور کسی مسقتبل
کے مفادسے بالا تر ہو کر پالیسی سازوں کی میرٹ پر ترقی یقینی بنانے میں
کامیاب ہو جائیں گے۔ کسی کے ساتھ امتیازی سلوک سفارش کے بغیر ترقی کے رحجان
کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔
|