بھارت جب بھی موقع ملتا ہے پاکستان کی ترقی کو روکنا اور
اس کی رفتار کم کرنا چاہتا ہے۔، پاک چین اقتصادی راہداری ، گوادر بندرگاہ
منصوبے سمیت بجلی گھروں کو نشانہ بنانا اس کے اہداف میں شامل ہے۔ رواں سال
جولائی میں اپر کوہستان میں14ارب ڈالر کے داسو پن بجلی پلانٹ کے قریب ایک
دہشتگردانہ حملے میں9چینی انجینئرز ، 2ایف سی اہلکار مارے گئے، متعدد زخمی
ہوئے۔کئی ماہ بعد کام دوبارہ شروع ہو ا ہے۔یہ دہشتگردی ٹی ٹی پی یا بی ایل
اے کے کھاتے میں ڈالی گئی۔ بلا شبہ اس سب کے پیچھے بھارت ہو سکتا ہے۔
افغانستان میں طالبان کی واپسی ، چین کا ابھرتی عالمی طاقت بن جانا،ایٹمی
پاکستان نئی دہلی کو کبھی پسند نہیں۔ پاکستان اور اس کے اتحادیوں کا ایک
دائرہ پھیل رہا ہے۔ اس لئے بھارت مزید سازشی منصوبے کر رہا ہے۔ بھارتی آرمی
چیف کا اب اعتراف ہے کہ چین بڑی تعداد میں لداخ کی متنازع سرحد پر فوجی
دستے بھیج رہا ہے جس نے نئی دہلی کو بھی اسی طرح کی تعیناتی پر اکسایا۔
دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان سرحدی جھڑپوں ہوئیں۔ گزشتہ برس جون میں تبت
کے قریب مقبوضہ جموں وکشمیر کے علاقے لداخ میں دریائے گلوان کی وادی میں
جھڑپیں ہوئیں۔جس میں دو درجن کے قریب بھاری کمانڈوز مارے گئے۔ تصادم کے بعد
دنیا کی سب سے زیادہ دو گنجان آباد اقوام نے بلند ترین میدان جنگ ہمالیہ
خطے میں ہزاروں اضافی فوجی دستے تعینات کردیئے۔بھارتی آرمی چیف جنرل منوج
مُکونڈ نروانے کے لداخ کے پے درپے دورے ہو رہے ہیں۔ یہاں ساڑھے 3 ہزار کلو
میٹر طویل چین بھارت سرحد پر چینی فوجی موجود ہیں۔
بھارت نے سب سے پہلے یہاں سڑکوں اور رن ویز کی تعمیر شروع کی۔ جنگی ڈھانچہ
پھیلایا۔ بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیانے جنرل منوج نروانے کے حوالے سے ایک
بڑا اعتراف کیا ہے کہ بھارت سرحد پر جدید جنگی ہتھیار نصب کر چکا
ہے۔مگریہاں بھارت کی پوزیشن بہت کمزور ہے۔ اس کی فوج بزدلی کا شکار ہے۔ فوج
میں افسروں اور جوانوں کی کمی ہے۔ بھارت افسر اور جوں خود کشیاں کر رہے
ہیں۔ چینی دفتر خارجہ کے ترجمان ہوا چونینگ کا کہنا ہے کہ بھارتی فوجی غیر
قانونی طور پر سرحد پار کر کے چین میں داخل ہوگئے۔ بھارت اور چین کے درمیان
1962 میں باقاعدہ جنگ لڑی گئی جس کے بعد سے ایک دوسرے پر غیر سرکاری سرحد
سے متصل علاقوں پر قبضہ کی کوشش کا الزام عائد کر رہے ہیں، اس سرحد کو لائن
آف ایکچوئل کنٹرول کہا جاتا ہے۔اگر چہ بھارتی اور چینی سفارت کاروں نے
مغربی ہمالیہ میں متنازع سرحد کے اس پار ایک دوسرے سے نبردآزما افواج کو
تیزی کو واپس بلانے پر اتفاق بھی کیا۔لداخ کی وادی گلوان میں 15 جون کو
لڑائی کے دوران کوئی گولی نہیں چلی اور بھارتی فوجیوں کو پی ایل اے کے چینی
کمانڈوز نے پتھروں سے مارا ۔ دونوں فریقوں نے وادی میں امن کی بحالی اور
فوجیوں کی تعداد کم کرنے کے لیے متعدد مذاکرات کئے جبک۔مگر فوج کم کرنے کے
بجائے اس میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارتی آرمی چیف کی جانب سے جدید
اسلحہ کی تنصیب کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔
افغانستان میں امریکی جارحیت کا بھارت نے کھل کر ساتھ دیا۔حامد کرزئی اور
اشرف غنی کا اعتماد حاصل کیا۔ مگر امریکہ اور نیٹو کو بدترین شکست
ہوئی۔بھارتی پالیسی سازوں کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ
بھارت نے امریکہ کو اس شکست کا انتقام پاکستان سے لینے کے لئے اکسانے اور
مشتعل کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ امریکی صدر جوزف بائیڈن کی وائٹ ہاؤس میں
نریندر مودی سے بات چیت اور اس میں مذاق کے طور پر رشتہ داری کا تذکرہ ہونا
اسی طرز کے رشتہ کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر کوئی بائیڈن نام کا اہلکار 400سال
پہلے قائم ہونے والی تاج برطانیہ کمپنی کا ملازم تھا ، مگر یہ کمپنی ڈیڑھ
سو سال پہلے اپنے آپریشنز بند کر چکی تھی۔ وائٹ ہاؤس میں اس کا تذکہ ہونا
کچھ اور ہی ظاہر کرتا ہے۔ امریکہ بھی اس خطے میں جنگ سے کامیاب نہ ہو سکا،
شاید وہ بھی اسی طرح کی کمپنی کے قیام کی تمنا کرتا ہو۔ ایسی کمپنی جو
انڈیا جیسی متعصب ریاست کے تعاون سے جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ چین اور دیگر
استعمار مخالف قوتوں پر قابو پا سکے۔ بات چیت اور امن کو قائم کرنے پر
اتفاق کے باوجود اگر بھارت نے خطے میں جنگی اسلحہ نصب کر دیا ہے تو اس کا
مقصد جارحیت کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان دشمن کی جارحیت اور ناپاک منصوبوں سے
بے خبر نہیں رہ سکتا۔ اس لئے یہ بھی جان لینا ہو گا کہ پاکستان کو اندرونی
افراتفری اور عدم استحکام میں الجھانا بھی کوئی ہدف ہی ہو سکتا ہے۔اس لئے
دشمن کا کام آسان نہ کیا جائے۔ اندرونی استحکام او رامن و خوشحالی پر بھی
توجہ د ی جائے۔
|