مہنت نریندر گری کے جانشین کے طور پر بلویر پوری کا
انتخاب ہوگیا لیکن کیا اس سے اتر پر دیش کی سیاست پر کوئی فرق پڑے گا؟ اس
کا امکان کم ہے کیونکہ مہنت نریندر گیری کے انتقال کی خبر ملنے پر جہاں اتر
پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے تعزیت کی وہیں سماجوادی پارٹی کے
صدر اکھلیش یادو سمیت متعدد سیاسی و سماجی ہستیوں نے افسوس کا اظہار کیا ۔
مہنت کی موت سے صرف ایک دن قبل ان سے ملاقات کرنے والے اترپردیش کے نائب
وزیر اعلی کیشو پرساد موریہ نے مہنت نریندر گری کے انتقال پر گہرے رنج و غم
کا اظہا کرتے ہوئے کہا کہ اس حادثے کے سلسلے میں کچھ کہنے کو ان کے پاس
الفاظ نہیں ہیں۔ موریہ کو آشیرواد دینے اور ان کے ساتھ اپنی تصویر
کھنچوانے والے مہنت نریندر گری کا دوسرے ہی دن خودکشی کرلینا مختلف شکوک و
شبہات کو جنم دیتا ہے لیکن جب سیاّں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا؟ سادھو سنت
کس طرح سیاستدانوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں اس کی سب واضح مثال مہنت نریندر
گیری کے متنازع بیانات ہیں لیکن یہ معاملہ صرف زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں
ہوتا ۔2012 میں جب اتر پردیش کے اندر سماجوادی پارٹی کی حکومت تھی تو مہنت
نریندر گیری نے 8بیگھا زمین ایس پی کے رکن اسمبلی کو 40کروڈ میں فروخت کردی
تھی ۔ یہ کوئی الزام تراشی نہیں ہے بلکہ اس کا حساب انہوں نے عدالت میں پیش
کیا تھا ۔
مہنت نریندر گیری نے بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے قبل مئی 2016 میں
بابری مسجد کے مدعی ہاشم انصاری سے ان کے گھر پانجی ٹولہ میں واقع گھر پر
جاکر ملاقات کی تھی ۔ اس وقت مہنت نریندر گیری نے ہاشم انصاری کو مٹھائی
کھلا کر یہ کہا تھا کہ وہ ہاشم انصاری کے بیٹے کی طرح ہیں ۔ ایک زمانہ ایسا
تھا کہ مختلف مذاہب کے لوگوں سے ان کے اچھے تعلقات تھے لیکن وقت کے ساتھ سب
کچھ بدل گیا۔اترپردیش میں جب سرکار بدلی ہے تو اس کے ساتھ رشتے بھی تبدیل
ہو گئے ۔مارچ 2017 میں جب یوگی ادیتیہ ناتھ نئے نئے وزیر اعلیٰ بنائے گئے
تو اکھا ڑا پریشد کے سر براہ مہنت نریندر گری نے کہاتھا کہ یو پی میں فرقہ
وارانہ ہم آہنگی قائم رکھنا یوگی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے ۔ انہوں نے
کہا تھا کہ ریاستی حکومت کو تمام مذاہب کے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا
اور تمام مذاہب کا مساوی طور پر احترام کرنا ہوگا ۔ نریندر گری نے یہ بھی
کہا تھا کہ سبھی فرقوں میں اعتماد پیدا کرنے کے لئے یوگی آدتیہ ناتھ کو
اپنی ’’ ہندو تو وادی ‘‘ شبیہ چھوڑنی ہوگی ۔
مہنت کو شاید اس وقت شاید یہ توقع رہی ہوگی کہ آگے چل کریوگی اپنی اصلاح
کریں گےتو اس کا کریڈٹ ان کو ملے گا لیکن وزیر اعلیٰ نےاس نصیحت کو نظر
انداز کر کے خود کو بدلنے سے انکار کیا تو مہنت نے اپنا موقف تبدیل کردیا
گویا سیاست نے دھرم کرم پر سبقت حاصل کرلی ورنہ یہ کیونکر ممکن تھا ایک
معمولی وزیر اعلیٰ اکھل بھارتیہ (کل ہند) اکھاڑا پریشد کا مشورہ ٹھکرا دے
۔مہنت نریندر گیری کے بدلے ہوئے تیور کی کچھ مثالیں دیکھ کر یقین نہیں آتا
کہ یہ وہی شخصیت ہےجو تمام مذاہب کے مساوی احترام ا ور سبھی فرقوں کے باہمی
اعتماد کی تلقین کرتا تھا ۔ پچھلے سال 5؍ اگست کو ایودھیا میں رام مندر کی
تعمیر کے بھومی پوجن میں وزیر اعظم نریندر مودی کی شمولیت پر اعتراض کرنے
والے ایم آئی ایم کے صدر اسدالدین اویسی پر پلٹ وارکرنے کا کام مہنت
نریندر گیری نے ہی کیا تھا۔
اکھاڑا پریشد کے صدر نے کہا تھا کہ اویسی کو سناتن دھرم کے اعتقاد پر سوال
اٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ مہنت نے کہا تھا کہ اویسی ہر چیز پر سیاست کرتے
ہیں حالانکہ پوری رام مندر کی تحریک سیاست کے سوا کچھ اور نہیں تھی۔ مہنت
نریندر گیری نے اویسی پر الزام لگایا تھا کہ ہندوستان میں کوئی بھی کام
اویسی کو پسند نہیں ہے حالانکہ ایسی کوئی بات اسدالدین اویسی نے کبھی نہیں
کہی۔ بی جے پی کے ہر جورو ظلم کی تائید سادھو سنت تو کرسکتے ہیں لیکن کوئی
خوددار مسلم رہنما نہیں کرسکتا اور یہ کیونکر ممکن ہےجبکہ مہنت اویسی کو
مشورہ دیتے ہیں کہ وہ 5؍ اگست کو نہ صرف ٹی وی پر بھومی پوجن کی نشریات کو
براہ راست دیکھیں، بلکہ پورا وقت رام نام کاجاپ کریں ۔ انہیں 5؍ اگست کو
اللہ کا نام لینے کے ساتھ رام رام بھی بولناچاہئے۔ ایسے اوٹ پٹانگ مشورے پر
کوئی عام مسلمان بھی عمل نہیں کرسکتا ۔
اس موقع پر مہنت نریندر گیری نے وزیر اعظم نریندر مودی کی وکالت کرتے ہوئے
کہا تھا کہ وہ پہلے ہندو ہیں، پھر ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ یہی بات اگر کوئی
مسلمان وزیر یا افسر کہہ دے ہندوتواوادی آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ حیرت
کی بات یہ ہے کہ مہنت وزیر اعظم مودی کو پہلے ہندو بتاتے ہیں لیکن انہیں
طالبان کے پہلے مسلمان ہونے سے پریشانی ہوتی ہے۔ اپنے ملک کے بارے میں تو
وہ کہتے تھے بھارت ہندو راشٹر تھا اور ہندو راشٹر رہے گا ۔ اویسی کو
سمجھاتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان مسلم اکثریتی ہونے کے سبب مسلم
راشٹر ہوسکتا تو بھارت ہندو راشٹر کیوں نہیں ؟اس کے باوجود انہوں نے امسال
اگست میں افغانستان کے اقتدار کی تبدیلی کے بعد معروف شاعر منور انا کا نام
لے کر ان کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کیا تھا ۔ ان کے مطابق رانا لگاتار
بھارت کے خلاف زہر اگل رہے تھے ۔ مہنت کو ایسا لگ رہا تھا کہ منور رانا کا
ہندوستان کے آئین پر بھروسہ نہیں رہ گیا اس لیے انہیں ہندوستان چھوڑ کر
طالبان یعنی افغانستان چلے جانا چاہیے۔ مہنت کے مطابق ر انا جیسے لوگ ملک
کے غدار ہیں۔ ان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرکے انھیں فوراً جیل میں ڈال
دینا چاہیے۔ ایسی عدم رواداری کا مظاہرہ تو یوگی نے بھی نہیں کیا ۔
مہنت کی مودی بھکتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے سال
نومبر میں انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے ترقیاتی کاموں کی تعریف کرتے
ہوئے کہا کہ وہ آئین کی حفاظت کرتے ہوئے مذہب کی پیروی کر رہے ہیں۔اس کے
علاوہ گیری نے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے حیدرآباد کا نام بدل کر
بھاگیہ نگر کرنے والے نفرت انگیز بیان کی حمایت بھی کی تھی ۔ انہوں نے کہا
تھا کہ مغلوں نے سینکڑوں سال تک ملک پر حکمرانی کی اور ملک کے بہت سے قدیم
شہروں کا نام بدل کر ان کا اسلامائزیشن کردیا اور اب یہ ملک آزاد ہے ، ایسے
میں جس طرح الٰہ آباد کا نام تبدیل کرکے پریاگ راج رکھ دیا گیا ہے ، اسی
طرح حیدر آباد کا نام بھی بدل کر بھاگیہ نگر کر دیا جانا چاہئے ۔ انہوں نے
کہا تھا کہ ممکن ہے حیدرآباد کا نام بھاگیہ نگر رکھنے سے حیدرآباد کا
بھاگیہ( تقدیر ) بدل جائے اور ساتھ ہی حیدرآباد سے آل انڈیا مجلس اتحاد
المسلمین کے رکن اسد الدین اویسی کا بھاگیہ بھی بدل جائے ۔ یہ سوال قابلِ
غور ہے کہ کیا الہ باد کا نام بدلنے سے خود مہنت نریندر گیری کی قسمت بدل
گئی اگر ہاں تو انہیں خودکشی پرکیوں مجبور ہونا پڑا یا ان کا قتل کیسےگیا؟
اویسی کے ذریعہ حیدرآباد کا نام تبدیل کرنےکی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے اس
کو غیر منصفانہ قرار دے دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھاکہ حیدرآباد کا قدیم نام
بتانے میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ حیدرآباد کا نام بدل کر
بھاگیہ نگر کئے جانے کے بعد ، اس شہر میں بھی ترقی ہوگی۔ انہیں سوچنا چاہیے
تھا کہ اگر الہ باد کا نام بدلنے سے وہ شہر ترقی نہیں کرسکا تو حیدر آباد
کے ساتھ یہ چمتکار کیونکر ممکن ہے۔ اپنے اس بیان کے بعد انہوں نے عوام سے
بلدیاتی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو مضبوط بنانے کے لئے اس کو ووٹ
دینے کی درخواست کرکے اپنے وقار کو ٹھیس پہنچائی تھی اور بی جے پی کی شکست
و ایم آئی ایم کی فتح سے یہ بات سامنے آگئی کہ عوام نے ان کے مشورے کو
مسترد کردیا۔ لو جہاد کے خلاف یوگی کے متنازع قانون کی حمایت میں انہوں نے
کہا تھا کہ ایسا قانون بننا چاہیے کہ آنے والی نسلیں اسے یاد رکھیں۔ وہ لو
جہادیوں کا رام نام ستیہ کرنا چاہتے تھے مگر ۹ ماہ بعد تک وہ قانون تو نہیں
بن سکا یہاں تک کہ وہ خود پرلوک سدھار گئے۔
امسال جون میں جب آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نےیہ اعلان کیا کہ
ریاست میں سرکاری منصوبوں سے صرف وہی خاندان فائدہ اٹھا سکیں گے جن کے دو
سے زائد بچے نہیں ہوں اور اتر پردیش میں بھی ’دو بچوں‘ والے خاندانوں کو
ترجیح دینے کا معاملہ زیر بحث آیا تو مہنت نریندر گیری نے بھی اس کے سُر
میں سُر ملا کر دو سے زیادہ بچوں والی فیملی کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کر
نے کا مشورہ دے کر سرکاری سہولیات سے محروم کرنے کی سفارش کردی ۔ ان کی
سادگی کا یہ عالم تھا کہ وہ آبادی پر قابو پانے کو بہت سارے مسائل کے حل
سمجھتے تھے۔ کاوڈ یاترا سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد انہوں نے
کہا تھا لوگ محفوظ رہیں گے تو یاترا ہوتی رہے گی۔ انہوں نے شیو بھکتوں کو
مشورہ دیا کہ وہ اپنے گاوں میں شیوالیہ بناکر جل ابھیشیک کرتے ہوئے سرکاری
گائیڈ لائن کی اتباع کریں۔ کاوڈ یاترا کو معطل کرنے پر انہوں نے یوگی تعریف
کی تھی۔
مہنت جہاں ایک طرف یوگی کے ہرفیصلے کی آنکھ موند کر تائید کرتے تھے وہیں
آر ایس ایس کو آنکھیں بھی دکھاتے تھے۔ حال میں چتر کوٹ کے اندر آر ایس ا
یس کے ’منتھن شیور‘(غورو خوض کا اجتماع) کے دوران مہنت نریندر گری نےرام
مندر ٹرسٹ میں سادھو سنتوں کی نامناسب نمائندگی کا شکوہ کرتے ہوئے مطالبہ
کیا کہ ٹرسٹ میں اکھاڑہ پریشد کے سربراہ اور جنرل سیکریٹری کو بھی شامل کیا
جائے۔اس کےعلاوہ دو جگت گرو اور تین ا کھاڑوں نرموہی،دگمبر اور نروانی
اکھاڑہ کے مہنتوں کی شمولیت پر بھی اصرار کیا ۔ مہنت کے مطالبات پر آرایس
ایس کے سربراہ نے کہا کہ وہ نہ تو ٹرسٹ کا حصہ ہیں اور نہ کوئی دیگر
عہدیدار ٹرسٹ میں شامل ہے۔سنگھ کے سربراہ نے یہ مطالبات حکومت تک پہنچانے
کی یقین دہانی کروا کر خود کو ڈاکیہ بنادیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں
رہنماوں نےرام مندر ٹرسٹ پر لگنے والے بدعنوانی کےا لزامات پراظہار تشویش
کرنے کے بعد حکومت سے اس معاملے میں ضروری اور مناسب کارروائی کرنے کی امید
کا اظہار کیا لیکن حکومت تو مولانا کلیم صدیقی اور مولانا عمر گوتم کے
پیچھے پڑی ہوئی ہے اور کسان اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اس لیے کسی خیر کی
توقع کرنا خیالِ خام ہے۔
|