ا سلحہ و قوت کے بل بوتے پر کسی
قوم کی زمینیں فتح کی جا سکتی ہیں ان کے جسموں پر حکومت کی جا سکتی ہے لیکن
ان کے عقائد ‘نظریات اور ضمیر کو مفتوح نہیں بنایا جا سکتا۔اور وہ قوم
پابند سلاسل ہونے کے باوجود عروج کی جانب پلٹنے کا دم خم رکھتی ہے۔لیکن
لیکن اگر کسی قوم کے افکار وخیالات ‘تہذیب و تمدن‘نظریات وثقافت پر گرد
جمنے لگے تو وہ لوہے کی کڑیوں کے بغیر ہی طوق غلامی میں کڑی جانے لگتی
ہے۔اور اخلاقی پستی کا آخری کیل جب مخالف اس کے تابوت میں ٹھونکتاہے
توبیشتر اسے محسو س ہی نہیں ہوتااور وہ زندہ درگور ہو جاتی ہے۔اور پھر اس
کی نشاندہی محض تاریخ کے عبرت آموز واقعات کرتے ہیں۔
موجودہ دورسائنسی ترقی کے باوجود اخلاقی بے راہ روی کی جانب تیزی سے گامزن
ہے ۔بے حیائی و عیاشی عروج پر ہے۔لادینیت کے طوفان نے بنی نوع انسان کا
روحانی سکون تہس نہس کر دیا ہے۔اس ضمن میں ڈپٹی نذیر احمد لکھتے ہیں”بے دین
آدمی ایسے ہے جیسے بے لگام کے گھوڑا ‘جیسے بے نکیل کے اونٹ ‘جیسے بے
ڈرائیور کے بس‘جیسے بے ریگولیٹر کے گھڑی ۔۔“۔تمام تر آسائشوں کے باوجو د
انسان روز بروز گھٹن بڑھتی محسوس کر رہا ہے۔قلبی سکون ندارد ہے۔یہ سب بے
دینی کے ثمرات ہیں۔زنا جیسے انسانیت کش فعل میں نمبر لینے کے بعد اب ہم جنس
پرستی کا ایشو عروج پر ہے۔مادر پدر آزاد ممالک آفاقی دین رکھنے کے باوجو د
اس موذی مرض میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔اس سے قبل (اتنے ذور و شور سے )اس
فعل کا ذکر قوم لوط کے حوالے سے تاریخ کے اورق پراگندہ کیئے ہوئے ہے۔جو
ابلیس کے ورغلانے پر اس لعنتی فعل کی مرتکب ہوئی ۔حضرت لوطؑ کی تبلیغ کے
باوجود جب آپ کی قوم باز نہ آئی (اور ایک روایت کے مطابق وہ علی الاعلان
فعل لواطت کرنے لگے) اور رسول اللہ ؑ کی مخالفت میں شدید ہو گئے توآپ نے
اللہ سے مدد طلب کی۔پھر فرشتے آئے اور کہنے لگے ان سب پر آسمانی عذاب آئے
گا۔اور انہیں انکی بدکاری کا نتیجہ دکھا دیا جائے گا۔پھر حضرت جبرئیل ؑ
تشریف لائے ان کی بستیوں کو اٹھایا اور آسمان تک لے گئے پھر وہاں سے الٹ
دیا۔اسکے بعد اُن پر ان کے نام کے نشاندار پتھر برسائے گئے اور اہل تقوٰی
کے سوا سب کچھ ملیا میٹ ہو گیا۔ان کی بستیوں کی جگہ ایک کڑوے ‘گندے اور
بدبو دار پانی کی جھیل رہ گئی ۔جو اہل دانش کے لیئے عبر ت کا ذریعہ بنی۔
آسمانی صحیفے ‘آفاقی کتابوں اور حتیٰکے انسان کے بنائے ہوئے مذہبوں میں بھی
اس فعل کو قابل نفرت قرار دیا گیا۔اور جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اسلام
تو صنف مخالف سے بھی ناجائز تعلقات کی نفی کرتا ہے اور اسکے لیئے رجم اور
کوڑوں کی سزا مقرر کی ہے ۔تاکہ معاشرے کی منفی قوتوں کے پنپنے کے تمام
ذرائع مسدود ہو جائیں۔اور لواطت کے بارے میں حدیث مبارک ہے ”جس کو تم قوم
لوط والا عمل کرتے پاﺅ تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو“(سنن ابی داﺅ
د ۔سنن ترمذی)۔یہ فعل عورت سے ناجائز تعلقات سے بھی زیادہ قبیح ہے اس لیئے
اس کی سزا بھی سخت رکھی گئی ہے۔تاکہ معاشرے کی اس دیمک سے محفوظ رہا جا
سکے۔
26جون کوفاقی دارلحکومت میں موجود امریکی سفارتخانے میں ہم جنس پرستوں کی
تقریب جشن منعقد کی گئی۔26جون کو جاری کیئے گئے پریس ریلیز میں بتایا گیا
کہ اس تقریب میں ناظم لاہور رچرڈ ہوگلینڈ اور(glifaa) کے ارکان نے امریکی
سفارتخانے میں ہونے والی تقریب میں شرکت کی۔اسکے علاوہ تقریب میں مشن آفیسر
‘غیر ملکی سفارتکار اور پاکستان می گے لیسین‘ہائی سیکسوڈل اینڈ ٹرانس
جینڈر(جی ایل بی ٹی)ایڈوکیسی گروپ کے نمائندوں سمیت 75 افراد نے شرکت کی
۔جس میں امریکی سفارتخانے نے ان بد کردار لوگوں کو اپنی حمایت کی یقین
دہانی کرائی۔اول :تو یہ سفارتی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے کیونکہ کوئی
بھی سفارتکار جس ملک میں اپنے فرائض انجام دے رہا ہوتا ہے توسفارتی قانون
کے مطابق وہ اس ملک کے آئین و قانون کا پابند ہوتا ہے۔دوم:جیسے تیسے بھی
لیکن آخر ہم امریکہ کو اپنا حلیف تصور کرتے ہیں ۔اور اتحادی کی جانب سے
اخلاقیات سے مبرا یہ زخم دینا دوہرے معیار کی پالیسی نہیں تو اور کیا
ہے؟؟۔ہمارے امراءنے اس پر احتجاج تو کیا لیکن اسلامی جمہوریہ ہونے کے ناطے
جس قدر توقع کی جارہی تو وہ ممکن نہ ہوا۔ملک میں گرینڈ الائنس بنائے جارہے
ہیں (جن اتحادوں کی زندگی مبادا کم ہو اور شاید ملک کو بھی اس سے قابل قدر
فائدہ نہ ہو)۔لیکن ہماری ثقافتی اقدار دم توڑ رہی ہیں ‘دو قومی نظریہ ناپید
ہوتا جا رہا ہے لیکن کسی کو کان و کان خبر ہی نہیں۔قریبا سب ہی نشہ اقتدار
میں دھت ہیں ۔کب تلک ایسا ہوتا رہے گا آخر کب تلک ؟ تھوڑی مہلت باقی ہے
شاید بہت تھوڑی۔مشرقی روایا ت کے امین ہونے کے دعوید ار ہم ہیں اور عمل
ہمسایہ ملک نے پیش کیا۔کچھ عرصئہ قبل فرانس کے صد ر نکولس سرکوزی اپنی گرل
فرینڈ کارلا برونی کے ساتھ بھارت آنا چاہتے تھے ۔فرانس کی حکومت نے بھارتی
حکومت کو اسکی اطلاع دےدی۔جس پر بھارتی حکومت پریشان ہوگئی ۔کیونکہ بھارتی
تاریخ میں کوئی بھی ملکی سربراہ اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ دورہ کرنے نہیں آیا
تھا۔لہذا اندیشہ تھا کہ عوام کا غیض و غضب قابل دید ہو گا۔اسکی دوسر ی وجہ
یہ تھی کہ سرکوزی کارلا برونی کو اپنی اہلیہ سے بھی زیادہ اہمیت دیتے
تھے۔اگر کارلا برونی کو سرکاری پروٹوکول سے محروم کیا جاتا تو سرکوزی کی
ناراضگی کا خدشہ تھا۔کافی سوچ بچار کہ بعد بھارتی حکومت نے ان تاریخ ساز
الفاظ میں فرانسی حکومت سے معذرت کی ”ہم مشرقی لوگ ہیں اور ہمارے ملک میں
گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کے تعلق کو معیوب سمجھا جاتا ہے چناچہ صدر نکولس
سرکوزی مہربانی فرما کر کارلابرونی کے ہمراہ نہ آئیں“۔لیکن افسوس کے ساتھ
یہ بات کہنا پڑ رہا ہے کہ اس سے قبل سرکوزی اور انکی گرل فرینڈ نے نہ صرف
سعودی عرب‘قطر ‘دوبئی ‘مصر اور اردن کے دورے کیئے بلکہ کارلا برونی کو
”فرسٹ لیڈی“ کا پروٹوکول بھی ملا۔ہم نجانے کب سدھرے گے ۔ہم جنس پرستی کا
حملہ ڈرون حملوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہ دین حق پر کاری ضرب ہے
۔آخر کب ہمیں ہوش آئے گا جب پانی سر پر سے گزر جائے گا؟؟؟ہم نام کے مسلمان
ہیں وگرنہ قریبا نظریاتی طور پر اغیار کی غلامی میں بندھے ہیں۔اگر اب بھی
نہ سنبھلے تو پھر شاید کبھی نہ سنبھل سکیں۔۔۔
اسلحہ و قوت کے بل بوتے پر کسی قوم کی زمینیں فتح کی جا سکتی ہیں ان کے
جسموں پر حکومت کی جا سکتی ہے لیکن ان کے عقائد ‘نظریات اور ضمیر کو مفتوح
نہیں بنایا جا سکتا۔اور وہ قوم پابند سلاسل ہونے کے باوجود عروج کی جانب
پلٹنے کا دم خم رکھتی ہے۔لیکن لیکن اگر کسی قوم کے افکار وخیالات ‘تہذیب و
تمدن‘نظریات وثقافت پر گرد جمنے لگے تو وہ لوہے کی کڑیوں کے بغیر ہی طوق
غلامی میں جکڑی جانے لگتی ہے۔اور اخلاقی پستی کا آخری کیل جب مخالف اس کے
تابوت میں ٹھونکتاہے توبیشتر اسے محسو س ہی نہیں ہوتااور وہ زندہ درگور ہو
جاتی ہے۔اور پھر اس کی نشاندہی محض تاریخ کے عبرت آموز واقعات کرتے ہیں۔ |