ڈی جی آئی ایس آئی کا انتخاب حکومت کی غیر سنجیدگی

پاکستان کے موجودہ حالات کے مطابق روزمرہ کے بہت س مسائل ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے مگر عجیب رسم ستم ہے کہ آج کل ہمارے ملک پاکستان میں ایسے نان ایشوز کو بھی اس طرح سے ایشو بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ پوری دنیا اس ایشو کو رپورٹ کرتی ہے

بات در اصل یہ ہے کہ 6 اکتوبر کو پاکستان فوج کے اعلی عہدوں پر معمول کے مطابق تقریریاں اور تبادلے ہوئےجن میں اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید کو ترقی دیکر کو کمانڈر پشاور لگا دیا گیا اور یہ خبر 6 اکتوبر سے پہلے ہی سوشل میڈیا اور انٹرنیشنل میڈیا پر سرعام گردش کر رہی تھی ، مگر سوال یہ کیا جا رہ اتھا کہ اگر انکو پشاور کور کمانڈر لگا دیا گیا تو نیا آئی ایس آئی کا سربراہ کون ہوگا۔۔؟پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے پریس رلیز آنے کے بعد یہ واضع ہوگیا کہ نیا ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹنٹ جنرل ندیم احمد انجم ہونگے۔اس خبر کے آتے ہی ایسے حلقوں میں جو اس طاق میں بیٹھے تھے کہ کوئی بات ہو اور ہم پروپیگنڈہ کریں انہوں نے ایک خاص قسم کا پروپیگنڈہ شروع کر دیا
اور اس پروپیگنڈہ میں وہ لوگ شامل تھے جن لوگوں نے شروع سے ہی جو اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے خلاف تھے اور ان سب کی ایک بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے خلاف شروع سے ہی جب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے تب سے انھوں نے پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے خلاف کچھ نہ کچھ کرنا شروع کر دیا ہے اور یہ چیزیں ساری ہونے کے بعد جب آئی ایس آئی کے چیف کا نام سامنے آیا تو اسکے بعد انہوں نے ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا کہ یہ کیسے نام سامنے آگیا کس طرح ہو سکتا ہے پھر جو سب سے بڑی وجہ یہ ہوئی کہ وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے اس کے اوپر ایک اسٹے جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑگیا نوٹیفکیشن تاحال نہ ہوسکا کہ نیا ڈی جی آئی ایس آئی کون ہوگا ۔۔؟ اس پر حکومت نے انتہائی غیر سنجیدہ عمل کا مظاہرہ کیا اور اس طرح بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا۔

وفاقی وزرا بار ہا کہہ چکے کہ وزیراعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ جنرل فیض حمید کو کچھ ماہ افغانستان کی صورتحال کے پیش نظر ایکسٹینشن دی جائے مگر جب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایک طویل ملاقات ہوئی جس میں کچھ زرائع کیمطابق آرمی چیف نے وزیراعظم کو بآور کروایا کہ یہاں فرد واحد سے فرق نہیں پڑتا یہاں ادارہ ایک لائحہ عمل کے تحت کام کرتا ہے اور مل کر فیصلے کیے جاتے ہیں اور کوئی بھی ہو جو یہاں تک پہنچتا ہے تو وہ اپنی محنت سے ہی یہاں تک پہنچتا ہے۔ اور اس میں یقین کوئی کوالٹی ہوگی تبھی انکو عہدے دہے جاتے ہیں۔ دوسری جانب فوج میں تقرریاں اور تبادلے کور کمانڈرز کی میٹنگ میں سب کی مشاورت سے کی جاتی ہیں۔یہ پہلی بار ہوا تاریخ میں کہ آئی ایس آئی کے چیف کے لیے سیاسی قیادت کی جانب سے اس طرح مداخلت اور لیت ولیل سے کام لیا جا رہا ہے اور خاص طور پر بین القوامی میڈیا اور وہ حلقے جن کو پاکستان کی سکیورٹی ایجنسی سے سخت تکلیف ہے جو اُنکا ہر وار ناکام بنا دیتی ہے ان قوتوں نے پاکستان کے ایسے لوگوں کیساتھ ملکر جو اسٹیبلشمنٹ اور سکیورٹی فورسز کیخلاف کچھ B سائیڈ نظریہ رکھتے ہیں انکی مدد سے اس معاملے کو مزید خراب کر دیا۔اب وزیراعظم نے اس معاملے پر کابینہ مییٹنگز اور پارٹی پارلیمانی میٹنگ میں بھی سب کچھ ڈسکس کر لیا اور ہر ایک کی جانب سے کہا گیا کہ حکومت اور فوج کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اور اتنے دن گزرنے کے بعد بھی ابھی تک DGISI کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہو سکا۔ اس پورے معاملے پر نام نہاد صحافیوں نے بھی خوب ہاتھ صاف کیا جس نے ہمیشہ کہ طرح جلتی پر آگ کا کام کیا۔

وزیراعظم عمران خان اگر اس معاملے پر فیصلہ کر چلے ہیں تو کون سے عوامل ہیں جو انکو ابھی بھی انتظار کرنے کا کہہ رہے ہیں یہ تو نوٹیفیکیشن کے بعد کہانی آہستہ آہستہ کُھل ہی جائے گی مگر خان صاحب کو یہ ضرور دیکھنا چائیے کہ اس معاملے پر پہلے کبھی بات نہیں ہوئی تھی اور آج پوری دنیا بات کر رہی ہے اگر ایسے ہی چلتا رہا تو پھر جن اداروں کا ایک وقار دنیا میں بن چکا ہے وہ وقار انکی چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے مٹی میں مل جائے گا۔نوٹیفکیشن بہرحال ہو ہی جائے گا مگر یہ اثرات بہت بُرے چھوڑ جائےگا ۔

 

Malik Ali Raza
About the Author: Malik Ali Raza Read More Articles by Malik Ali Raza: 5 Articles with 3507 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.