آج سے 4 سال پہلے ایک مشہورمووی دیکھی تھی ۔۔۔۔کنگ اس کے
بعد 4 بار دیکھی اور ٹھیک 4 سال بعد اسکا 5واں حقیقی ویو آج ہو رہا ہے۔
پچھلے کئ دنوں سے آرٹیکل لکھنا چاہتی تھی اس پہ مگر وقت کی قلت کے باعث عمل
درآمد نہ ہو سکا ۔
میں کسی پولیٹکل ایشو پہ بات بلکل نہیں کرنا چاہتی۔ اصل مزہ عوام کا ہے جو
اس وقت مہنگائی میں پس کر گھبرانا بھی بھول چکے ہیں۔
ایک چھوٹے درجے کی معاشیات دان ہوتے ہوئے میں کچھ فیکٹ اینڈ فگرز آپ کے
سامنے رکھنا چاہوں گی۔
سال 22_2021 کے لئیے آئی ۔ایم ۔ایف نے منگائی نے بنگلہ دیش کے لئیے
مہنگائی(افراط زر) کی شرح ٪5_٪5.5 ، انڈیا میں ٪5 اور پاکستان میں ٪8 کی
تجویز دی ہے ۔ جبکہ اس وقت دی اکانومسٹ کے مطابق پاکستان میں مہنگائی(افراط
زر) کی شرح٪ 12 سے بھی اوپر جا رہی ہے۔
اور اس کی وجہ سال 2018 سے سال 2021 تک بنگلہ دیش نے اپنی کرنسی کی ویلیو
٪3، انڈیا نے ٪16 جبکہ پاکستان نے ٪45 اپنی کرنسی کی قدر گرائی ہے۔ جس کی
وجہ بیلنس آف پیمنٹ پہ خسارہ اور بیرونی قرضہ جات بتائے جاتے ہیں۔ مگر اس
کے حل کے لئیے اپنی کرنسی کی قدر گرانا خود اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مارنے سے
کم نہیں یہ ایک بی۔اے اکنامکس کا طالب ء علم بھی بتا سکتا ہے۔ بجائے اس کے
کہ آپ مجودہ صورتحال میں کوئی پالیسی کے کے آتےآپ مسلسل اپنی کرنسی کی قدر
گراتے رہے ہیں۔جس سے بی۔او۔پی خسارہ تو کم کیا ہونا تھا الٹا ڈالر کی قدر
بڑھتی گئی اور اس وقت ڈالر انٹر بنک میں 174 کا ہوگیا ہے جو کہ آنے والے
ایام میں 200 تک جاتا لگ رہا ہے۔ پیٹرول اور بجلی دو ایسی عاملین (ان پٹس)
ہیں کہ جب ان کی قیمت میں اضافہ ہو تو ہر ملکی پیداوار کی قیمت بڑھ جاتی
ہے۔ اور پاکستان میں ان عاملین کی قیمتیں ہر ہفتے بڑھائی جا رہی ہیں۔
ان تمام فگرز کا جائزہ لینے کے بعد مجھے حیرت موجودہ گورنمنٹ پہ ہوتی ہے۔
کہ آپ اتنی بڑی اکنامی کو کس طرح چل رہے ہیں ۔ کیا آپ کے پاس کوئی بھی
معاشیات دان نہیں رہا یا کوئی بھی پالیسی میکر جو آپ ایسے ڈنگ ٹپاؤ اور عقل
و حقائق کے الٹ ان الٹی پالیسیوں پہ گامزن بلکہ ڈھٹائی سے گامزن ہیں جن کو
معاشیات کا ایک ادنی طالب علم بھی ریجکٹ کر دے۔
افسوس کے ساتھ کہ موجودہ گورنمنٹ کے دور میں دو شعبے انتہائی تباہی ہو کر
رہ گئے اکانومی اور ایجوکیشن۔
اکانومی کی تباہی تو ایک طرف ایجوکیشن کے شعبے میں بھی نہ کوئی واضح پالیسی
ہے نہ رول اینڈ ریگولیشن۔ ہر ادارہ اپنی فیس لے کر مفت میں سندیں اور
ڈگریاں بانٹ رہے ہیں ۔حالیہ سیکنڈری و ہائر سیکنڈری رزلٹس دیکھیں ۔میرٹ کی
دھجیاں اڑا دی گئیں۔ کونسا فومارمولا ہے جو میرٹ کی دھجیاں اڑانے کے لئیے
موجودہ گورنمنٹ استعمال کر رہی ہے۔ اور کیوں؟ وجہ؟؟؟؟
ہر یونیورسٹی بنا پیپر بیک لئیے ماسٹرز لیول کے رزلٹ اے + میں لگا رہی ہے۔
کیا ۔وجودہ اکانومک پالیسی میکرز(اگر کوئی ہے تو) کو نہیں معلوم کہ یہ تمام
لوگ آنے بنا کسی ٹیلنٹ کے ڈگریاں لے کے مارکیٹ میں جاب کے لئیے آجائیں گے ۔
جس سے ایک طرف تو اکانومی پہ بیرزگاری کا اضافی و ناجائز بوجھ بڑھ جائے گا
۔دوسرا یہ لوگ بنا کسی صلاحیت و علم کے زیادہ مارکس کے کر مارکیٹ میں موجود
باصلاحیت افرادی قوت کا حق مارنے کا سبب بن رہے ہیں۔
مقام ء حیرت ہے کہ یہ چیزیں اگر ایک عام اکنامکس پڑھنے والے کی سمجھے میں آ
رہی ہیں تو اکانومی چلانے والے کیا نااہل ہیں یا جان بوجھ کے بندر کے ہاتھ
دانے تھمائے جارہے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ عوام کو تبدیلی کا خواب بہت منگا پڑا ہے۔
مگر یاد رکھیں عوام بے بس ضرور ہے مگر نااہل نہیں۔
آخر میں ،خان صاحب! عوام آپ سے مایوس ہو چکے ہیں ۔ معلوم نہیں آپ کس دنیا
میں رہتے ہیں
یا جان بوجھ کےآپکو رکھا جارہا ہے۔۔۔ مگر میں آپکی سپوٹر ہونے کے باوجود
ابھی سے آپ کو پشین گوئی کر رہی ہوں کہ 24_ 2023 کے الیکشن میں آپ گبھرا
بھی جائیں گے اور مایوس بھی ہو جائیں گے۔ کیونکہ معزرت کے ساتھ نہ تو آپ کی
حکومت نے عوام کو کوئی ریلیف دیا۔نہ آپ کی کوئی پالیسی رہی ، اکانومی،
ایجوکیشن، میرٹ کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔ اور آپ اپنے پرانے ساتھیوں اور
پارٹی ورکرز کو تو بہت پہلے ہی مایوس کر چکے ہیں۔ افسوس کہ اب تبدیلی کے
نام پہ چور ہنسے گے۔
رہبر بنے جمہور میں سب ٹھگ اور کذاب
انگشت بدنداں ہُوں, یہ کیسا نظام ہے ؟
ازقلم ؛
سیدہ سعدیہ عنبرؔ جیلانی
،اکانومسٹ ،کالمنسٹ ،شاعرہ، معاشی تجزیہ کار
|