جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

لکھیم پور کھیری کی گرد ابھی بیٹھی بھی نہیں تھی کہ ہریانہ کے انبالہ میں اسی طرح کا ایک واقعہ رونما ہوگیا ۔ وہاں پر رکن پارلیمان نائب سنگھ سینی کے بیٹے نے نہیں بلکہ ان قافلے میں شامل ایک گاڑی نے کسان کو ٹکر مار دی ۔ اس حادثہ میں زخمی ہو نے والے کسان کو فوری طور پر اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ اس کے بعد کسانوں کا جائے واردات پر جمع ہونا ایک فطری عمل تھا۔ اس لیے پولیس فورس تعینات کرکے حالات کو قابو میں رکھنے کی سعی کی گئی لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ ناخوشگوار واقعہ کیوں پیش آیا؟ اس کا لکھیم پوری کھیری سانحہ سے کیا تعلق ہے؟ اور آئندہ ایسےواقعات کو رونما ہونے سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟ لکھیم پور میں وزیر مملکت برائے داخلہ کے بیٹے کی گاڑی کا کسانوں پر چڑھانا جگ ظاہر ہے۔ اس کے بعد چار دنوں میں اگر وزیر موصوف سے استعفیٰ لے لیا جاتا اور باپ بیٹوں کو جیل کی سلاخ کے پیچھے بھیج دیا جاتا تو یہ واقعہ ہر گز نہیں ہوتا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ جن لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ان میں سے دو کو تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا اور آشیش مشرا کے خلاف بصد احترام سمن جاری ہوا۔ اس طرح کی نرمی کا مظاہرہ اس پولس کی جانب سے ہورہا ہے جو مولانا کلیم صدیقی تو دور پرینکا گاندھی کو بھی بغیر کاغذات کے حراست میں لینے کےبعد گرفتاری دکھاتی ہے۔ اس طرح کی جانبداری کے نتیجے میں حکمراں پارٹی کا ہر رکن پارلیمان ایسا بہیمانہ ظلم کرتا پھرے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہوگی۔

انبالہ کے سانحہ کی تفصیل اس طرح ہے کہ نارائن گڑھ کے سینی دھرمشالہ میں کروکشیتر سے رکن پارلیمنٹ نائب سنگھ سینی شرکت کی غرض سے پہنچے۔ اس پروگرام کی خبرجب کسانوں کو ملی تو وہ احتجاج کے لیے جمع ہونا شروع ہو گئے۔ ایسے میں ظاہر ہے کسانوں کی مخالفت کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس بھی پہنچ گئی۔ وہ تقریب بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوگئی اور اس کے بعد رکن پارلیمنٹ سینی اپنے قافلے سمیت لوٹنے لگے ۔ اس دوران احتجاج کر نے والا ایک کسان گاڑی کے سامنے آ گیا ۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بریک مار کر کسان کو بچایا جاتا۔ اس کے برخلاف قافلے کی ایک گاڑی نےکسان کو ٹکر مار دی اور وہ زخمی ہو گیا۔ کسانوں کا الزام ہے کہ قتل کے ارادے سے بھون پریت پر گاڑی چڑھانے کی کوشش کی گئی۔ بھارتیہ کسان یونین چڈھونی گروپ نے نارائن گڑھ تھانہ میں اس تعلق سے شکایت درج روکرادی لیکن اس سے کیا ہوتا ہے ؟ انتظامیہ تو الٹا کسان کو موردِ الزام ٹھہرادے گا۔ میڈیا اس کی آڑ میں کسانوں کو بدنام کرنے میں لگ جائے گا اور عدالت بھی کسان کے خلاف ہی فیصلہ کرے گی کیونکہ بقول امیر قزلباش ؎
اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا

لکھیم پور اور ہریانہ کے ہر دو واقعہ میں بی جے پی رہنماوں نے یکساں موقف اختیار کیا۔ لکھیم پور میں اجئے مشرا نے کہہ دیا کہ ان کا بیٹا جائے واردات پر موجود ہی نہیں تھا جبکہ ویڈیو کے علاوہ ان کے ایک حامی کی ویڈیو بھی منظر عام پر آچکی ہے جس میں وہ آشیش بھیا کے موجود ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ رکن پارلیمان نائب سنگھ سینی نے الٹا کسانوں کو حملہ آور قرار دے کر کہا فسادیوں نے میرے ڈرائیور کا گلا پکڑ لیا۔ مجھ پر حملہ کیا گیا۔ سینی کے مطابق کسانوں نے کہا ایم پی کی گاڑی ہے بھاگ کر پیچھے سے حملہ کرو۔ یہاں تک تو جھوٹ چل بھی جاتا مگرآگے فرماتے ہیں جب کسان گاڑی کے نیچے آنے کے لیے زبردستی کرنے لگے تو عملہ نے پیچھے والی کھڑکی کھول کر انہیں دور ڈھکیلا۔ اس طرح گویا پہلے تو وہ حملہ آور فسادی تھے اب گاڑی کے نیچے آنے کی خاطر زبردستی کرنے والے بن گئے ۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کسی بھی کسان کو اس کی گاڑی سے چوٹ نہیں لگی ۔ سوال یہ ہے کہ پھر جو کسان اسپتال میں داخل ہے اس کو کس نے زخمی کیا ؟ اور اگر کسانوں نے ان پر حملہ کیا تو وہ خود زخمی کیوں نہیں ہوئے؟

نائب سنگھ سینی نے ثبوت کے طور پر ویڈیو پیش کرنے کا مطالبہ کیا اور وہ سوشیل میڈیا میں آگئی۔ اس ویڈیو سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ نائب سنگھ سینی کے ڈرائیور راجیو نے ہی کسانوں پر تیزی سے گاڑی چڑھائی اور جس گاڑی نے کسان کو ٹکر ماری ہے وہ رکن پارلیمان کے نام سے رجسٹر ہے یعنی ان کی اپنی ملکیت ہے۔ نائب سنگھ سینی کے ساتھ کسانوں کی ان بن نئی نہیں ہے ۔ ابھی ایک ماہ قبل انہوں نے کہا تھا کہ پورا ملک جانتا ہے دہلی میں جاری کسان تحریک کو کانگریس نے منظم کیا ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن ارمیندر سنگھ کے بیان سے یہ بات بالکل واضح ہوچکی ہے ۔ سینی نے کیپٹن پر الزام لگایا تھاکہ انہوں کسانوں کو ہدایت کی کہ وہ پنجاب کے بجائے ہریانہ اور دہلی میں جاکر احتجاج کریں تاکہ وہاں کا معاشی نقصان ہو۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ کسان تحریک کانگریس کی سازش ہے۔

اس بات کو اگر درست مان لیا جائے تو سینی کو یہ بتانا ہوگا کہ کانگریس نے تو اس ہدایت کے جاری کرنے والے وزیر اعلیٰ کو ہٹا دیا مگر اب امیت شاہ ان کے ساتھ پینگیں بڑھا رہے ہیں تو کیا وہ اب کیپٹن کی مدد سے ہریانہ اور دہلی کی معیشت کوتباہ کرنا چاہتے ہیں ۔ اس بات کا قوی امکان ہے بی جے پی پنجاب کے اندر کیپٹن ارمیندر سنگھ کو رام ولاس پاسوان کی مانند استعمال کرنے کی کوشش کرے تاکہ کانگریس کو کمزور کیا جاسکے لیکن اس حکمت عملی کا اسے نہ تو بہار میں فائدہ ہوا اور نہ پنجاب میں ہوگا ۔ سینی کے بیان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اوٹ پٹانگ الزامات کس طرح لوٹ کر خود اپنے سر پر آجاتے ہیں ۔ بی جے پی والے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ کسانوں کی حوصلہ شکنی کر سکیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے ۔ انبالہ کے کسانوں نے انتظامیہ کو 10؍اکتوبر تک کارروائی کرنے کا الٹی میٹم دیا ہے بصورت دیگر تمام پولس تھانوں کا گھیراو کیا جائے گا ۔ پولس اس وارننگ کا مطلب جانتی ہے کہ کیسے پچھلے دنوں پوری ریاست کی شاہراہوں کو جام کردیا گیا تھا اس لیے اس نے مناسب کارروائی کا یقین دلایا ہے۔

کسانوں کے حوالے سے ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کی ویڈیو پر اپنے لوگوں لاٹھی کے زور سے مظاہرین کو مار بھگا نے کی ترغیب دیتے ہیں جو بی جے پی کی ذہنیت کا پرتو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبالہ یا لکھیم پور کھیری واقعہ پر بی جے پی کا کوئی اہم رہنما تفصیلی بیان نہیں دیتا اور نہ مذمت کرتا ہے۔ اس معاملے میں بی جے پی کے رکن پارلیمان ورون گاندھی استثناء ہیں جو ایک زمانے میں مسلمانوں کو تلوار دکھا کر ڈراتے تھے ۔ انہوں اپنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا یا تو بی جے پی نے والدہ سمیت ان کو 80رکنی مجلس عاملہ میں شامل نہیں کیا ۔ مینکا گاندھی ایک زمانے میں مرکزی وزیر تھیں اورو رون گاندھی کو متوقع وزیر اعلیٰ کے طور پر پیش کیا جاتا تھا اب انہیں کسانوں کے حق میں آواز بلند کرنے کی سزا دی جارہی ہے۔ ورون گاندھی کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے کسانوں پر گاڑی چڑھانے والی ویڈیو شیئر کرکے ٹوئٹ کیا ’’یہ ویڈیو بالکل شیشے کی طرح صاف ہے۔ مظاہرین کا قتل کر کے ان کو خاموش نہیں کرا سکتے ہیں۔ بے قصور کسانوں کا خون بہانے کے واقعہ کے لیے جوابدہی طے کرنی ہوگی۔ اس سے پہلے کہ ہر کسان کےقلب و ذہن میں اشتعال اور بے رحمی کا جذبہ گھر بنائے، انھیں انصاف دلانا ہوگا۔‘‘ ورون گاندھی کی ناقدری اس بات کا اشارہ ہے بی جے پی میں مظلوم کی حمایت جرم عظیم ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1231993 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.