پاکستان میں حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ہر
پندرہ دن بعد اضافہ کرنا شروع کیا ہے ۔آج ایک بار پھر پیٹرول مزید 10.49
روپے، ڈیزل 12.44 روپے مہنگا کردیا گیا۔مٹی کے تیل کی قیمت میں 10 روپے 95
پیسے فی لیٹر اور لائٹ ڈیزل آئل قیمت میں 8 روپے 84 پیسے فی لیٹر کا اضافہ
بھی کیا گیا ہے۔عمران خان حکومت نے غربت ، بے روزگاری اورمہنگائی کی ستائی
عوام کے لئے عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھنے کی آڑ میں پھر سے ایک اور
مشکل کھڑی کرکے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔پٹرولیم مصنوعات
کی قیمتوں میں اضافے کے وقت ملک میں ڈالر 171.20روپے اور 24کریٹ سونا ایک
لاکھ18ہزار روپے تولہ پر پہنچ گیا تھا۔ اب ظاہر ہے کہ روپے کی قدر میں مزید
گراوٹ آئے گی اور سونے کی قیمت مزید اوپر جائے گی۔
ملک کی زارت خزانہ کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن میں عالمی مارکیٹ میں تیل کی
قیمت 85 ڈالر فی بیرل تک پہنچنے کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے
کی وجہ بتایا گیا ہے۔نوٹی فکیشن کے مطابق آئیندہ 16 روز یعنی یکم نومبرتک
پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 10 روپے 49 پیسے اور ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں
12 روپے 44 پیسے کا اضافہ کردیا گیا ۔قیمتوں میں اضافے کے بعد اب پیٹرول
137 روپے 79 پیسے فی لیٹر، ہائی اسپیڈ ڈیزل 134 روپے 48 پیسے فی لیٹر میں
دستیاب ہو گا۔مٹی کا تیل 110 روپے 26 پیسے فی لیٹر جبکہ لائٹ ڈیزل آئل 108
روپے 35 پیسے فی لیٹر ہوگیا ہے۔اس سے پہلے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی
(اوگرا) کی سمری میں حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 9
روپے تک اضافے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ اوگرا کو قیمتوں کی تجاویز خفیہ
رکھنے کی سختی سے ہدایت کوئی اثر نہ ہوا تھا۔ قیمتوں میں اضافے سے قبل ہی
پٹرول کی قلت پیدا کی گئی تھی تا کہ ذخیرہ اندوزوں کو کافی منافع حاصل ہو
سکے۔ ملک میں تقریباً سبھی تیل کمپنیاں اور پٹرول پمپ سرمایہ داروں کے ہیں
یا ان کی سرپرستی میں کام کر رہے ہیں۔ حکومت دعوؤں کے برعکس پیٹرولیم لیوی
کو کم کرنے کی وجہ سے ہوئے آمدنی کے نقصان کو بتدریج پورا کرنے میں کامیاب
نہیں ہو سکی ہے۔مہنگائی کا سارا بوجھ غریب لوگ برداشت کرتے ہیں۔ عوام کے
ٹیکسوں پر اشرافیہ اور سرمایہ دار عیش کرتے ہیں۔ بڑے سرکاری اور نیم سرکاری
اداروں کے افسران لاکھوں میں تنخواہیں اور مراعات سے استفادہ کرتے ہیں مگر
بے چارء چھوٹے ملازمین ایک طرح کے بیگاری بنا دیئے گئے ہیں۔ غریبوں سے
بیگار لینے میں یہ افسران سکون محسوس کرتے ہیں۔ اپنے چھوٹے ملازمین کو جیسے
کے اپنے زرخرید کے طور پر برتاؤ کیا جاتا ہے۔
ٹیکس کی موجودہ شرح، درآمدی قیمت اور روپے کی قدر میں کمی کی بنیاد پر
اوگرا نے تیل کی قیمتوں کے جو اندازے لگائے تھے، وہ سب کے سب غلط ثابت
ہوئے۔عمران خان حکومت کے پاس قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ ایکسچینج ریٹ
کا نقصان اور تیل کی بین الاقوامی قیمتوں کے اثرات ہیں۔مگر یہ سچ ہے کہ
عمران خان کے وعدے کے برعکس حکومت عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے سامنے لیٹ
چکی ہے۔ لگتا ہے یہ ملک اب یہی عالمی ادارے چلا رہے ہیں۔ موجودہ حکومت تین
سال گزرنے کے باوجود اپنی ناتجربہ کاری کا رونا رو رہی ہے۔ حکومت چھٹے
جائزے کی کامیابی سے تکمیل چاہتی ہے اور تقریباً ایک ارب ڈالر کے حصول کے
لیے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کو یقینی بنانے کے لیے ٹیکس کی شرح میں
اضافہ کرکے صارفین کیلئے قیمتوں میں زیادہ اضافہ کررہی ہے۔یہ عالمی ادارے
چاہتے ہیں کہ حکومت عوام پر زیادہ ٹیکس لگا کر اس کے قرضے ادا کرے۔ عمران
خان نے کہا تھا کہ وہ بھیک مانگیں گے مگر قرضہ نہیں لیں گے۔ اب وہ اپنی
پیداوار اور برآمدات بڑھانے کے بجائے صرف ان قرضوں پر حکومت چلا رہے ہیں۔
ڈالر ایک روپے مہنگا ہو تو قرضوں کا بوجھ بھی مزید بڑھ جاتا ہے۔ کیوں کہ
ادائیگیاں ڈالرز میں کی جاتی ہیں۔ اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ملکی تاریخ
کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ یکم اکتوبر کو پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے
تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پاکستان میں ایک لیٹر پٹرول کی قیمت 127.30
روپے اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 122.04 روپے اور مٹی کے تیل کی
قیمت 99.31 فی لیٹر ہو چکی تھی۔پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل ہونے
والے اضافے اور بڑھنے والی مہنگائی پر عوامی ہاہاکار کے ردعمل میں خود ملک
کا وزیر اعظم پاکستان میں قیمتوں کا موازنہ دنیا کے ممالک سے کر رہا ہے۔
حکومت بار بار یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ پاکستان میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمت
ابھی بھی دنیا کے بہت سے ممالک اور خاص کر خطے کے ممالک سے کم ہے۔ انڈیا
اور بنگلہ دیش کے حوالے دیئے جا رہے ہیں ۔پاکستان میں پٹرول اور ڈیزل کی
قیمتوں میں اضافے کے بعد وزیر توانائی حماد اظہرپیٹرول کی قیمت دنیا کے
دیگر ترقی پذیر ممالک خاص کر خطے کے ممالک کے مقابلے میں ابھی بھی کم قرار
دیتے رہتے ہیں۔حکومت اعتراف کرتی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافہ
ایک مشکل فیصلہ ہے لیکن اس کی وجہ عالمی منڈی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں قرار دے
کر جان چھڑا لیتی ہے۔ یہ بھی احسان کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں اضافہ عالمی
منڈی کے مقابلے میں کم کیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حکومت پٹرولیم
مصنوعات پر ٹیکس کی شرح کو بتدریج کم کر رہی ہے اور آج بھی اکثر ممالک سے
پاکستان میں تیل کی قیمت کم ہے۔
ملک کے وزیر خزانہ شوکت ترین کہتے ہیں کہ برطانیہ میں پاکستان سے بھی زیادہ
مہنگائی ہے۔یعنی وہ پاکستان کا مقابلہ برطانیہ سے کر رہے ہیں۔
ملک میں جب بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں تو ان کا موازنہ
دنیا سے کیا جاتا ہے۔ مگر ملک میں عوام کامعیار زندگی کیسے ہے اس کا مقابلہ
کسی ملک سے نہیں کیا جاتا ۔ عوام کی قوت خرید کا تقابلی جائزہ پیش نہیں کیا
جاتا۔ترین صاحب نے ایک بار کہا کہ پاکستان کے مقابلے میں برطانیہ میں
قیمتیں 31 فیصد بڑھی ہیں جب کہ خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں پٹرول کی
قیمت یہاں کم ہے۔پاکستان میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی بھی
خام تیل کی درآمد کو مہنگا بنا رہی ہے۔اتنی مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے
کے باوجود حکومت کہتی ہے کہ اس نے ابھی تک خام تیل کی عالمی قیمتوں میں
اضافے کو پوری طرح عوام تک منتقل نہیں کیا اور سیلز ٹیکس کی شرح کو کم کر
کے وہ زیادہ قیمت نہیں بڑھا رہی۔ اسی طرح پٹرولیم ڈویلمپنٹ لیوی کی مد میں
بھی حکومت نے زیادہ پیسے وصول نہیں کئے۔حکومتی ناتجربہ کاری اور غیر پیشہ
ورانہ رویئے کی وجہ سے رواں مالی سال میں پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی مد میں
600 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف مقرر کیا گیاہے۔یعنی 30 روپے فی لیٹر۔
حکومت کسٹم ڈیوٹی اور ایڈوانس ٹیکس کی مد میں جو بھاری ٹیکس جمع کرتی ہے،
اس کا کوئی حساب کتاب نہیں۔
پاکستان میں مہنگائی کی شرح8 فیصد،ہندوستان میں یہ شرح 4.6 فیصد، بنگلہ دیش
میں 5.9 فیصد، سری لنکا میں 4.6 فیصد اور نیپال میں 4 فیصد ہے۔ ڈالر میں
ہندوستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور دنیا کے دوسرے خطوں میں پٹرول کی قیمت
کو پاکستانی روپے میں تبدیل کر کے یہ دعویٰ کیا جانا عوام کو گمراہ کرنا ہے
کہ پاکستان میں اس کی قیمت ابھی بھی کم ہے جب کہ پاکستان اپنی ضرورت کا
زیادہ تر تیل درآمد کرتا ہے۔حکومتی وزراء عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ وہ
یہ موازنہ بھی کریں کے بنگلہ دیش میں جی ڈی پی کے لحاظ سے فی کس آمدن 2227
ڈالر ہے اور انڈیا میں 2191 ڈالر ہے۔ پاکستان میں فی کس آمدن 1279 ڈالر ہے
جو خطے میں سب سے کم ہے۔حکومت قیمتوں میں اضافے کا جواز پیدا کر رہی ہے۔وہ
عوام کو یہ بھی بتائے کہ اس وقت چینی اور گندم کی قیمت انڈیا اور بنگلہ دیش
میں کیا ہے اور ہم اس وقت مہنگی گندم اور چینی خریدنے پر کیوں مجبور
ہیں۔حکومت یہ بھی بتائے کہ اس وقت برطانیہ میں عوام کی قوت خرید پاکستانی
عوام کی قوت خرید سے کتنے سو گنا زیادہ ہے۔ پاکستان میں قوت خرید بہت کم
ہوئی ہے۔ملک کی فی کس آمدن بہت کم ہے۔ فی کس آمدن ک ا بھی موازنہ کریں۔
عوام کی قوت خرید میں اس وقت اضافہ ہوتا ہے جب عوام کی آمدنی بڑھ رہی ہوتی
ہے۔ پاکستان اور دوسرے ملکوں کی معیشت میں شرح نمو میں بھی بہت فرق ہے۔ملک
کی خراب معاشی صورتحال بڑھتے ہوئے مالی اور جاری کھاتوں کے خسارے کی وجہ سے
ہے۔ملکی درآمدات بڑھ رہی ہیں اور برآمدات میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ بنگلہ دیش
جیسے ملک کی برآمدات 47 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔عمران خان حکومت بلین ٹری
سونامی کے دعوے کرتی ہے مگر عوام کو یہ بھی بتایا جائے کہ گزشتہ تین سال
میں آپ نے سابق حکومتوں پر الزام تراشی کے سوا کیا کام کیا۔ملکی پیداوار
میں کتنا اضافہ کیا۔ اگر پیداوار میں اضافہ نہیں کیا گیا تو یہ حکومت کی نا
اہلی ہے۔ جس کے وزیر مشیر عمران خان کو خوش کرنے کے لئے سیاسی مخالفین کو
لتاڑنے اورکچلنے کے سوا اور کچھ نہیں کرتے۔ یہی صورتحال رہی تو ملک میں
مہنگائی کا سیلاب آسکتا ہے۔ مخلص اور محب وطن لوگ حکومت کی نا اہلی پر
خاموش رہے اور اصلاح کے لئے غور و فکر نہ کیا تو حالات دگر گوں ہو سکتے ہیں۔
|