گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر!

پروین شاکر سے معذرت مگر تھوڑی سی تبدیلی ضروری،عشق نے سیکھ ہی لی وقت کی تقسیم کہ اب،،،وہ ہمیں یاد تو آتا ہے مگر ،موت کے بعد،زندہ رہے تو جینے کی سزا پاتے رہے مر گئے تو مشہور اور بے مثال شخصیت ہو گئے،گذر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر،ستم ظریف مگر کوفیوں میں گذری ہے،بھوپال سے اسلام آباد ،وہیں سے ہوئی تھی ابتدا محبت کی ،وہیں سے ہوئے تھے کچھ لوگ اپنے ،شرمندگی ہے پس شرمندگی اور ندامت ،کسی ایک پر کیا موقوف جب قوم ہی اجتماعی طور بے حس ہو تو کسی سے گلہ کیاا ور شکوہ کیا ،ارجعی الا ربک قرا دیا ۃ مردیہ ،چل اپنے رب کی طرف ایک نیک پاک روح کہ سب سے بہترین صلہ اسی کے پاس یہی وہ در ہے کہ جہاں ذلت نہیں سوال کے بعد ،زندہ سے تو خدا واسطے کا بیر تھا کچھ نیچ اور پست لوگوں کو جنازے میں بھی شرکت کی توفیق نہ ہوئی ،ثابت ہوا کہ گندوں کے لیے گندے اور اچھوں کے لیے اچھے ،نیکوں کے لیے نیک اور بروں کے لیے برے ،یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا اے چاند یہاں نہ نکلا کر، عجیب ملک کہ جہاں باعزت ہونے کے لیے پہلے مرنا پڑتا ہے آئیے آج اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم نے ہمیشہ اپنے ہیروز سے کیا رویہ رکھا میں بات نہیں کرتا لیاقت علی خان کی ،قائد کی بہن محترہ فاطمہ جناح کی یا ذوالفقار علی بھٹو کی کہ یہ سارے مجھ سے پہلے آئے اور چلے گئے میں بات کروں گا اپنے دور کی کہ جنہیں ہم نے دیکھا اور کسی حد تک جانا،ذکر کرتے ہیں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کہ جو ہالینڈ میں بھرپور زندگی ونوکری انجوائے کر رہے تھے کہ من میں حب الوطنی سمائی بال بچوں کو لیا اور پاکستان آ پہنچے ،یہاں آ کر اس قوم کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کی ٹھانی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایسے کام میں جت گئے جس کا انجام آخر کار تخت یا تختہ تھا کہ دنیا کے تھانیدار کہاں برداشت کرتے کہ تیسری دنیا کا کوئی غریب سا ملک ان کے مدمقابل کھڑا ہو کر انہیں آنکھیں دکھائے،مگر ڈاکٹر عبدالقدیر کے عزم کو دیکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں فری ہینڈ دیا جس کے بعد آنیوالے تمام حکمرانوں چاہے وہ سول تھے یا عامر ڈاکٹر اے کیو خان اور ان کی کمٹمنٹ کے سامنے سر نگوں کیا اور انہیں ان کی ضرورت کے مطابق ہر چیز فراہم کی ،پھر دنیا نے دیکھا کہ جب ہمارے پڑوس میں بیٹھے ایک نفسیاتی مریض نے پوکھران میں تین ایٹمی دھماکے کیے تو ہم نے اس کے جواب میں اس سے دوگنی طاقت پانچ ایٹمی دھماکوں کا مظاہرہ کر کے بھارت سمیت ساری دنیا کہ جارح اقوام کو پیغام دے دیا کہ اس طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی بھی جرات نہ کرنا،بظاہر تو یہ ایک عظیم دن تھا اور قوم مدتوں اس دن پر سرشار ہوتی رہی مگر دو لوگوں کے زوال کی ابتدا بھی یہی دن تھا ایک وہ جس نے ایٹم بم کو تخلیق کیا دوسرا وہ جس نے امریکی صدر کی فون کالز پہ کالز کو رد کر کے ڈاکٹر صاحب کو دھماکے کر دینے کا حکم دیاایک اس ملک کا مایہ ناز سائنسدان اور دوسرا وزیر اعظم ،بعد میں پیش آنے والے واقعات نے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی،وزیر اعظم نہ صرف گرفتار ہوا بلکہ نام نہاد طیارہ سازش کیس کا بڑا ملزم بن کر دہشت گردوں کی لسٹ میں ڈال دیا گیا ،جس کے بعد اسے اٹک قلعے کی کال کوٹھڑیوں سے گھما کر ملک بدر کر دیا گیا جس کے بعد آج تک وہ در بدر ہی ہے اور نہ جانے کب تک مزید یہ سزا بھگتنی ہے ڈاکٹر عبدالقدیر کو عالمی مجرم بنا دیا گیا اس سے پہلے کہ کمانڈو صاحب انکل سام کے حوالے کر دیتے بھلا ہو میر ظفر اﷲ جمالی کا کہ کم از کم ڈاکٹر صاحب کو ملا عبدالسلام ضعیف کی طرح تھرڈ ڈگری ٹریٹمنٹ سے بچا لیا تاہم جنرل مشرف نے امریکی دوستوں کو خوش کرنے کا اتنا اہتمام ضرور کیا کہ ڈاکٹر صاحب سے سرکاری ٹی وی پرکردہ ناکردہ گناہ کی معافی ضرور منگوا لی وہ دن اور آج کا دن اس کے بعد کبھی ڈاکٹر صاحب کو آزاد فضا میں سانس لینا نصیب نہ ہوا ،ڈاکٹر صاحب گھر پر نظر بند کر دیئے گئے جس کے بعد انہوں نے اور ان کی بیٹی نے ہر فورم پر دستک دی میڈیا کا دروازہ کھٹکٹایا مایوس ہو کر کورٹ سے رجوع کیا مگر کورٹ کے آرڈرز کے باوجود ڈاکٹر صاحب کو مکمل آزادی نصیب نہ ہوئی ،ان کی ہر نقل وحرکت نوٹ ہوتی اور مرتے دم تک صورتحال ایسی ہی رہی ،انتہائی عجیب صورتحال کا سامنا رہا ڈاکٹر صاحب کو کہ عوام میں تو وہ ازحد مقبول تھے اور شاید ہی کو ئی پاکستانی ہو جو ان کا احسان مند نہ ہو یا ان کی دل سے قدر نہ کرتا ہو مگر دوسری طرف جب انہوں نے اپنی ایک سیاسی جماعت بنائی تو اسی ملک اور اس کے باسیوں نے ان کو ووٹ تو دور کی بات انہیں پورے پاکستان میں کھڑے کرنے کے لیے امیدوار تک نہ دیئے اس دوہرے رویے کو کیا منافقت کا نام دیا جائے یا بے حسی کہا جائے ،وجہ شاید یہ تھی کہ ہمارے دلوں میں بسے ہمارے بونے لیڈرہیں کہ جن سے ڈاکٹر صاحب کی ہمیشہ سے مخاصمت رہی ،ایک ہی وقت میں عام افراد میں مقبول مگر حکمران طبقے میں غیر مقبول ڈاکٹر صاحب کے بارے میں اکثر حکمران بھی اور سیاستدان گفتگو کرتے ہوئے بھی محتاط رہتے کہ ایسا نہ ہو کہ ان کی عوامی مقبولیت کا ریلا کسی ایک گستاخانہ لفظ کی وجہ سے اسے بہا لے جائے،سواے پرویز مشرف کے جنہوں نے اپنی کتاب میں ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے لکھا، سچ جھوٹ کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا مگر ڈاکٹر صاحب نے کبھی منافقت سے کام نہیں لیا اور لگی لپٹی رکھے بغیر دو ٹوک انداز میں ہر ایک کی اپنی تحریروں میں خوب خبر لی ان کے ساتھ جس جس نے جو رویہ رکھا اور ان سے جو وعدے وعید کیے اس کا انہوں نے کھل کر اظہار کیا ،انہیں مشرف اور نواز شریف سے زبردست گلہ رہا کہ ایک نے ان کی تذلیل کی اور دوسرے نے صدر بنانے کا جھوٹا وعدہ کیا اور وقت آنے پر اپنے غیر ملکی مہربانوں کی وجہ سے دبک گئے اور ڈاکٹر صاحب کو بھول گے،یقیننا اگر وہ ڈاکٹر صاحب کو صدر مملکت کے عہدے پر بٹھاتے تو نہ صرف نواز شریف بلکہ صدر کے عہدے کی توقیر میں بھی اضافہ ہوتا،اور شاید آج نواز شریف کو ان حالات کا بھی سامنا نہ کرنا پڑتا جن سے وہ دوچار ہیں ،ممنون حسین سے ڈاکٹر عبدالقدیر ہر لحاظ سے بہتر انتخاب ہو تے مگر،ڈاکٹر صاحب اب ساری پریشانیوں اور نظر بندیوں سے آزاد ہو کر اپنے ر ب کے حضور پیش ہو چکے ہیں چھوٹے لوگوں نے ان کو تنگ کر کے محض اپنا قد چھوٹا ہی کیا ہے اورجلد یا بدیر وہ بھی وہیں پہنچنے والے ہیں جہاں ڈاکٹر صاحب پہنچ چکے ہیں اور فیصلہ وہاں پر ہو گا اور بہت ہی مبنی برحق، رہی ہماری بات تو پروین شاکر سے معذرت مگر تھوڑی سی تبدیلی ضروری،عشق نے سیکھ ہی لی وقت کی تقسیم کہ اب،،،وہ ہمیں یاد تو آتا ہے مگر موت کے بعد،زندہ رہے تو جینے کی سزا پاتے رہے مر گئے تو مشہور اور بے مثال شخصیت ہو گئے،گذر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر،ستم ظریف مگر کوفیوں میں گذری ہے،بھوپال سے اسلام آباد ،وہیں سے ہوئی تھی ابتدا محبت کی ،وہیں سے ہوئے تھے کچھ لوگ اپنے ،شرمندگی ہے پس شرمندگی اور ندامت ،کسی ایک پر کیا موقوف جب قوم ہی اجتماعی طور بے حس ہو تو کسی سے گلہ کیاا ور شکوہ کیا ،ارجعی الا ربک قرا دیا ۃ مردیہ ،چل اپنے رب کی طرف ایک نیک پاک روح کہ سب سے بہترین صلہ اسی کے پاس یہی وہ در ہے کہ جہاں ذلت نہیں سوال کے بعد ،زندہ سے تو خدا واسطے کا بیر تھا کچھ نیچ اور پست لوگوں کو جنازے میں بھی شرکت کی توفیق نہ ہوئی ،ثابت ہوا کہ گندوں کے لیے گندے اور اچھوں کے لیے اچھے ،نیکوں کے لیے نیک اور بروں کے لیے برے ،یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا اے چاند یہاں نہ نکلا کر،،،،،،،