آزادکشمیر جنت نظیر خوبصورت وادیوں اور دلکش مناظر کی وجہ
سے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کامرکز ہے انہی نظاروں سے لطف اندوز
ہونے کے لیے تقریبا 40 خواتین پر مشتمل ایک گروپ بیگم پروین سرور کی
سربراہی میں ہفتہ 2 اکتوبر کی صج گورنر ہاوس سے روانہ ہوا۔ گورنر غلام سرور
نے ایک چھوٹی سی تقریب میں سب کو الوداع کیا۔ میری طرح بہت سی خواتین کا یہ
بچوں کے بغیر اور خاص طور پر آزاد کشمیر کا بھی پہلا سفر تھا جو کہ بہت
مشکل بات تھی تین گھنٹے بعد کلر کہار کے مقام پر دوپہر کا پرتکلف کھانا
کھایا کلر کہار سے اسلام آباد تقریبا 1 سے ڈیڑھ گھنٹہ کا سفر ہے رات کے
گیارہ بجے ہم مظفرآباد نیچے پہنچے تو وہاں تیز بارش ہورہی تھی تیز بارش کی
وجہ سے سفر لمبا تھا۔ مظفر آباد جو کہ آزاد کشمیر کا دارلخلافہ ہے ایک بڑا
شہر ہونے کے ساتھ بہت خوبصورت وادی بھی ہے صبح ناشتے کے بعد وادی نیلم کی
طرف سفر کا آغاز کیا گیا راستے میں دریا کے دوسری طرف جموں کا ایک گاؤں بھی
دیکھا اس پر انڈیا کا جھنڈا لہرا رہا تھا ڈرائیو ر کے مطابق آزاد کشمیر اور
جموں کے گاؤں کے لوگ پہلے آپس میں ملتے تھے مگر اب گاؤں آمنے سامنے ہونے کے
باوجود بھی نہیں مل سکتے۔
چونکہ سفر میں تمام خؤاتین تھیں اس لیے گپ شپ کرتے سفر کی تھکاوٹ کم ہوئی
تھی۔ مظفرآباد سے کیرن تک کا سفر سڑک چوڑی نہ ہونے کی وجہ سے یہ 3 گھنٹے کا
ہے ورنہ یہ کم بھی ہوسکتا ہے۔ ایک مقام پر کچھ گاڑیوں کی لائن ہماری مخالف
سمت میں آگئی۔ ڈرائیور نے مہارت سے گاڑی پیچھے کر کے سائیڈ پر لگائی اس طرح
بھاری پتھروں سے بھرے ٹرک اور گاڑیوں کوجانے کاراستہ دیا گیا ورنہ دو
گاڑیاں ایک وقت میں سڑک پر نہیں گزر سکتی۔کیرن میں دریائے نیلم کے کنارے
دوپہر کے کھانے کا انتظام تھا سب نے تصویریں اور وڈیو بنائیں یہاں پر نیٹ
ورک نہیں چلتا صرف وہاں کا ایس کام لوکل چلتا ہے۔ کیرن سے 15 منٹ کے فاصلے
پر اپر نیلم ہے جو کہ خوبصورت وادی ہے۔
اپرنیلم میں رنگ برنگے لکڑی کے گھر اور بلند و بالا پہاڑ اس کی خوبصورتی
میں اضافہ کرتے ہیں۔ پہاڑ کے دوسری طرف جموں کشمیر ہے مقامی لوگوں کے مطابق
اکثر یہاں سے فائرنگ کی آواز بھی آتی ہے سامان ہوٹل میں رکھ کر وادی میں
گھومنے نکلے تو سامنے ہی ایک گھر میں کچھ بچے کھیل رہے تھے قریب گئے تو ایک
لڑکی عروج نے ہمارا پر جوش استقبال کیا اور چائے پیئے بغیر نہ جانے کی
فرمائش کی جو کہ ہم نہ ٹال سکے۔ ہلکی بارش میں باہر برآمدے میں بیٹھ کر
چائے سے لطف اندوز ہوئے اسکی والدہ جو کہ بہت ہی خوش اخلاق تھی ان سے باتیں
بھی ہوئیں ٹھیک 8 دن بعد افسوس ناک خبر ملی کہ عروج کی والدہ کی برین سٹروک
کی وجہ سے وفات پاگئی ہیں۔ اس کے بعد مجھے وہاں ایک بڑے ہسپتال کی شدید کمی
محسوس ہورہی ہے۔ وادی نیلم 144 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ اپر نیلم سے
ناشتے کے بعد شاردا کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ سفر بھی 2 گھنٹے کا ہے۔ لیکن سڑک
کی تنگی کی وجہ سے 3 گھنٹے کا ہوگیا۔
راستے میں بہت سی بھیڑ بکریاں ، گھوڑے خچر کے بہت بڑے ریوڑ دیکھے جو کہ کئی
مقامات پر نظر آتے ہی۔ یہاں کے مقامی لوگوں کا زریعہ معاش بھی یہی جانور
ہیں۔ ان کو پال کر قربانی پر فروخت کیا جاتا ہے۔ تقریبا تین گھنٹے بعد دریا
کے کنارے گرم گرم آلو کے پراٹھے پیش کیے گئے کشتی کی سیر بھی کئی اور موسم
کو خوب انجوائے کیا۔ شاردا یونیورسٹی جو کہ 200 سال پرانی بدھ مت کے دور کی
ہے صرف دس منٹ کے فاصلے پر تھی۔کچھ لوگ پیدل چلے گئے لیکن پہاڑ کی اونچ نیچ
کی وجہ سے اور پل کے اوپر سے گزر کر جانے کی وجہ سے ہم نے جیپ میں جانا
مناسب سمجھا جو کہ اچھا فیصلہ تھا ساتھ میں چھوٹا سا بازار ہے جہاں سے
روایتی خریداری بھی کی گئی یونیورسٹی کافی اونچائی پر ہے۔ واپسی بھی جیپ کے
زریعے 10 منٹ کے دشوار سفر سے ہوٹل پہنچے ہوٹل کے اردگرد کا حسین منظر تھا
ایک طرف لکڑ ی کے رنگ برنگے گھر اور دوسری طرف دریائے نیلم کا نیلا پانی جس
کی وجہ سے شاید اس کا نام دریائے نیلم بھی رکھا گیا۔ رات کو ہوٹل کے احاطے
میں بون فائر کا انتظام تھا جس میں کشمیری چائے بھی پیش کی گئی۔
اگلی صج ناشتے کے بعد واپس اسی مقام دریائے کنارے پر آئے جہاں سے یونیورسٹی
گئے تھے۔ کچھ لوگوں نے دوبارہ کشتی کی سیر کی۔ اچانک سے بادل آگئے اور بارش
شروع ہوگی ہمارا آدھا گروپ دوسرے ہوٹل میں تھا کیونکہ ایک ہوٹل میں 25
لوگوں کی گنجائش تھی۔ حسین وادی میں خوبصورت موسم کو انجوائے کرتے ہم یہاں
سے واپس مظفرآباد کی طرف روانہ ہوئے۔
سب لوگوں کی خو اہش پر اخروٹ خریدئے گئے اور ایک ہوٹل میں آکر چائے پئی شام
کو 6 بجے مظفرآباد ہوٹل میں کھانا کھا یا جس میں کڑی اور سبزی شامل تھے۔ خو
اتین ہوں اور شاپنگ نہ ہوں تمام خواتین کے اصرار پر بازار گئے اور سب نے
شاپنگ کی۔ رات کو گیارہ بجے مچھلی کے ساتھ کھانا کھایا مسز سرور کے ساتھ
باتیں ہوئیں تصویریں بنائیں گئی۔ اگلے دن صج پیر چنا سی جو کہ تقریبا 16
ہزار کی بلندی پر ایک مقام ہے جانے کا پروگرام طے ہوا وہاں موجود دربار پر
دعا کی لیکن بہت کم وقت کے لیے رکے کیونکہ واپسی پر صدر آزاد کشمیر سلطان
محمود صاحب نے چائے پر مدعو کیا تھا۔ پریذیڈنٹ ہاؤس میں چائے کا پر تکلف
انتظام تھا میری ملاقات کچھ دن پہلے غلام محی الدین دیوان کے گھر ان سے
ہوچکی تھی جس میں انکو آزاد کشمیر آنے کا بتایا تو انہوں نے پر جوش طریقے
سے خوش آمدید کہا اور ملاقات کا وعدہ بھی کیا۔ اس سفر میں حکومت کی خاص
توجہ چند باتوں کی طرف دلانا چاہوں گی۔ سیاحت کے فروغ کے لیے سڑکیں کشادہ
اور آرام دہ کی جائیں تاکہ ملکی اور غیر ملکی سیاح بلا جھجک یہاں کے حسین
نظاروں سے لطف اندوز ہوسکیں ابھی ہمارا ارادہ کیل جانے کا تھا جو کہ راستے
اور موسم کی خرابی کی وجہ سے ملتوی ہوگیا۔ مظفرآباد سے آگے نیٹ ورک نہیں
چلتا صرف وہاں کی ایس کام سم لوکل کا نیٹ ورک چلتا ہے۔ یہاں قابل ذکر بات
یہ بھی ہے۔ کہ مقامی لوگوں کا زریعہ معاش صرف بھیڑ بکریاں اور لکڑی ہے جس
کو ضائع نہ کیا جائے یہاں کے لوگوں کے حالات کو بہتر کر نے کے لیے تعلیم
اور ہنر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ یہ لوگ اچھے روزگار کے مواقع حاصل
کر کے ترقی کی طرف گامزن ہوں آئیے مل کر کشمیر ی بھائیو ں کا ساتھ دیں وہاں
پھیلی ہوئی غربت کو مل کر دور کریں تاکہ یہ وادی اور بھی خوبصورت اور حسین
ہوجائے۔
|