ہر سال 27ستمبر کو دنیا بھر میں سیاحت کا دن منایا جاتا
ہے اس تاریخ کو 1970میں ہی منتخب کر لیا گیا تھا اس دن کو منانے کا مقصد یہ
ہے کہ بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کے لوگوں میں سیاحت کو فروغ حاصل ہو
تا کہ لوگ ایک دوسرے کے معاشرتی،ثقافتی اور سیاسی اقدار کوجان سکیں جب سے
سیاحت کو انڈسٹری کا درجہ ملا ہے بہت سے ممالک صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ
سیاحت کی ترقی کے لئے بھی کوشاں ہیں سیاحت کسی بھی ملک کے لئے ریڑھ کی ہڈی
کلا مقام رکھتی ہے کرونا سے پہلے ورلڈ ٹورزم تنظیم کا کہنا تھا کہ دنیا بھر
میں سیاح کے شوقین اور دلدادہ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے پوری دنیا
میں یہ دن عالمہی سطح پر منایا جاتا ہے بد قسمتی سے پاکستان میں سیاحت کو
دہشت گردی کی وجہ سے بہت نقصان پہنچا ہے آج بھی لوگ پاکستان آنے سے ڈرتے
ہیں اب پاکستان میں مکمل سکون ہے لیکن کچھ دشمن ممالک پراپیگنڈہ کے ذریعے
ہمیں معاشی طور پر کمزور کرنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ہمیں ہر پل نقصان
پہنچانے کے در پر رہتے ہیں پاکستان میں دنیا بھر سے زیادہ خوبصورت مقامات
ہیں تاریخی عمارات ہیں لیکن ہم ابھی تک سیاحت کو فروغ دینے میں ناکام ہیں
ہمارے مقامی لوگ بھی سیاحت کے لئے نہیں نکلتے جب تک ہم خود نہیں نکلیں گے
دوسرے لوگ کیسے ہمارے ملک میں آئیں گے۔
سفر نامہ ہر دورکی مقبول صنف رہی ہے کیونکہ جب بھی کوئی شخص سفر کرتا ہے تو
وہ سفر کے دوران پیش آنے والے واقعات اور تجربات کو دوسروں کے ساتھ شیئر
کرتا ہے تا کہ لوگ اس جگہ کے بارے میں معلومات حاصل کر سکیں آج میں بھی آپ
کو ایک اسیے ہی سفر کی روداد سنانے جا رہا ہوں لیکن پہلے میں اس جگہ کے
بارے میں آپ کو کچھ معلومات فراہم کرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ اس جگہ کے بارے
میں اچھی طرح جان سکیں ۔
نندنا قلعہ ضلع جہلم میں واقع ہے جبکہ اس کے سامنے بالکل ضلع چکوال کا
علاقہ ہے یہ قلعہ چوا سیدن شاہ سے بارہ میل مشرق کی جانب ایک گاؤں
باغوانوالہ میں ہے یہ قلعہ دوسویں صدی میں تعمیر کیا گیا اس کا رقبہ
45کنال16مرلہ ہے یہ ایک پتھریلا علاقہ ہے یہ نندنا قلعہ زمین سے 1500فٹ
بلند ہے یہاں پہلے اوپر جانے کے لئے کوئی خاص راستہ نہیں تھا لیکن وزیر
اعظم کے افتتاح کے بعد پتھروں سے اوپر جانے کا راستہ بنا دیا گیا ہے اس
قلعہ کے اوپر ایک مندر ،مسجد اور شہر کے آثار موجود ہیں اس مسجد کا صحن اور
نماز کی جگہ بھی موجود ہے ایک کتبہ بھی ہے جسے پڑھنا ممکن نہیں ہے اس مسجد
کو سلطان محمود غزنوی نے تعمیر کروایا تھاالبیرونی نے سلطان سے قلعہ میں
قیام کے لئے اجازت مانگی تو سلطان نے اجازت دے دی یوں البیرونی نے یہاں ایک
مقام پر اپنی ایک لیب تعمیر کی اس وقت کے حساب سے اپنے آلات نصب کیے اس
مقام سے ذرا ہٹ کے مسلمانوں کی قبریں بھی ہیں جن پر قطبے نہیں ہیں گیارویں
صدی تک یہاں ہندو شاہی حکمران رہے جنہیں بعد میں محمود نے مار بگھایا ہندو
شاہی انندپال کے بیٹے جے پال نے شیو کا مندر تعمیر کروایا اتنی صدیاں گزرنے
کے باوجود اس مندر کے آثار اب بھی موجود ہیں نندنا کے لفظی معنی بیٹا کے
ہیں اس قلعہ کا نام اندر دیوتا کے دیو مالائی باغ کے نام سے منسوب کیا گیا
ہے ۔
اسی مقام پر ابو الریحان البیرونی نے کھڑے ہو کر ایک چھڑی سے اس کرہ ارض کا
قطر ناپا تھا آج موجودہ قطر سے 43فٹ کا فرق ہے 1014ء میں اس قلعہ کے مقام
پر جنگ ہوئی جس میں محمود غزنوی کو فتح حاصل ہوئی اس مقام سے تھوڑی دور ایک
جھیل بھی موجود ہے جسے قلعہ کے اوپر سے بآسانی دیکھا جا سکتا ہے اسے ابو
ریحانی جھیل کا نام دیا گیا ہے کیونکہ یہاں پانی بہت دور سے لایا جاتا تھا
اس مقام پر پانی موجود نہ تھا البیرونی نے ایک چٹان کو کھودوایا تو یہاں سے
پانی نکل آیا یہ چشمہ آج بھی موجود ہے اس قلعے میں سرخ پتھر کا استعمال کیا
گیا جو انہوں پہاڑوں سے حاصل کیا گیا ہے یہاں کئی قسم کے پتھر ہیں ۔
جہاں یہ قلعہ موجود ہے اس گاؤں کا نام باغانوالہ ہے بتایا جاتا ہے کہ یہاں
مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے شکار کھیلا اور ایک باغ لگوایا تھا جس کی
وجہ سے اس گاؤں کو باغانوالہ کہا جاتا ہے اس باغ کے اب آثار موجود نہیں ہیں
لیکن اسے دوبارہ آباد کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ ایک برساتی ندی شیو
گنگا گزرتی ہے اس کے پانی سے اسے سیراب کیا جا سکتا ہے ۔
ہمارے اس سفر کو یادگار بنانے کے لئے Ride to anywhere Motorcycle and
Traveling Club of Pakistanنے ارینج کیا تھا اس میں سلمان حمید کھوکھر
سینئر انٹرنیشنل بائیکر،چیئرمین رائیڈر ٹو اینی وئیر موٹر سائیکل اینڈ
ٹریولنگ کلب آف پاکستان ،ڈاکٹر شمطاء صوفیہ سینئر انٹر نیشنل ٹورسٹ
سائیکلسٹ ،چیف ڈینٹل سرجن پنجاب،شاہد اقبال سینئر بائیکر صدر کلب اور اس کے
علاوہ کچھ صحافی اور کالم نگار بھی موجود تھے ان میں افتخار عالم ،عقیل
انجم ،مقصود چغتائی،صبا ممتاز بانو،امتیاز صاحب ،انعام الحق ،عاصم
لطیف،عظمی عاصم ،شاہ میر چوہدری اور میں راقم ڈاکٹر چوہدری تنویر سرور شامل
تھے اور بھی کچھ لوگ شامل تھے جن کے ناموں سے میں واقف نہیں ہوں اس لئے
معذرت خواہ ہوں ۔
مجھے ایک روز پہلے معروف شاعرہ اور افسانہ و ناول نگار صبا ممتاز بانو
صاحبہ نے فون کیا کہ نندنا قلعہ کی سیر کے لئے جانا ہے میں نے فوری ہاں کر
دی کیونکہ سیاحت کا مجھے بہت شوق ہے جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ قلعہ بھی ضلع
جہلم میں واقع ہے تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ میرا تعلق ضلع جہلم
سے بہت گہرا ہے میرے آباؤ اجداد تحصیل سرائے عالمگیر کے ایک قصبہ کھمبی میں
مقیم ہیں اور میں جہلم کے ایک ڈگری کالج میں پڑھتا رہا ہوں اور جہلم کے ایک
اخبارروزنامہ آواز میں مضامین لکھا کرتا تھا یہ طالب علمی کا زمانہ تھا
قلعہ روہتاس تو کافی مشہور ہے اور اکثر سیاح بیرون اور اندرون ملک سے یہاں
آتے ہیں لیکن نندنا قلعہ کے بارے میں مجھے بالکل پتا نہیں تھا اس لئے بھی
میں یہاں جانا چاہتا تھا خیرہمیں انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا آپ ملتان
چونگی ملتان روڈ لاہور کے ایک مقام پر صبح پانچ بجے تک پہنچنے کا کہا گیا
میں نے رات کو چار بجے کا الارم لگا دیا صبح اٹھا اور تیار ہو کر ٹھیک پونے
پانچ بجے وہاں پہنچ گیا لیکن وہاں صرف ایک فیملی موجود تھی لیکن پھر تھوڑی
دیر بعد کچھ لوگ آنا شروع ہو گئے یوں جب کوسٹر تمام دوستوں سے بھر گئی تو
چھ بج کر بیس منٹ پر کوسٹر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئی راستے سے بھی کچھ
لوگوں کو لیا گیا صبا ممتاز بانو صاحبہ بھی شاہدرہ سے سوار ہوئیں ہمارے
ساتھ عام لوگوں کے ساتھ ساتھ صحافی دوست بھی تھے کچھ رائیٹر حضرات اور
خواتین بھی تھیں خواتین کے ساتھ ان کے بچے بھی تھے مقصود چغتائی صاحب اس
قافلے کی ترجمانی کر رہے تھے مقصود صاحب نے کوسٹر میں سفر کے دوران کہا کہ
ہر دوست اپنا اپنا تعارف کروائے اگر کوئی اپنی غزل یا کوئی لطیفہ سنانا
چاہے تو سنا سکتا ہے باری باری تمام دوستوں نے اپنا اپنا تعارف کروایا تمام
دوست کسی نہ کسی ادارے سے منسلک تھے جان کر خوشی ہوئی کیونکہ ایسے سفر میں
آپ کی جان پہچان نئے لوگوں سے ہوتی ہے مقصود صاحب نے ایک حیران کن بات
بتائی کہ انہوں نے کچھ سال پہلے صرف ایک ہزار ڈالر جو اس وقت کے چالیس ہزار
روپے بنتے تھے ان چالیس ہزار رپوں سے چالیس سے زائد ممالک کی سیر کی یہ سن
کر ہم سب حیران رہ گئے سیاحتی ادارے پاکستان ٹورزم کی جانب سے تمام دوستوں
کے لئے فری سفر تھا اس کے ساتھ صبح کا ناشتہ اور لنچ بھی فری تھا ناشتہ تو
تمام دوستوں کو کروایا گیا جو کہ ایک عام سا ہوٹل تھا اس نے پڑاٹھا کی جگہ
روٹی تندور سے پکا کر ایک طرف گھی لگا کر اسے پراٹھے کا نام دے دیا بہرحال
ایسا پراٹھا میں نے کبھی نہیں دیکھا ساتھ میں دال چنا تھی اور ایک کپ چائے
سب نارمل تھا لیکن کیونکہ ہمیں سخت بھوک لگی ہوئی تھی اس لئے یہ بھی ہمارے
لئے غنیمت تھا دوبار سفر شروع کیا گیا میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ہم جی ٹی
روڈ سے جا رہے تھے میرے ساتھ میگزین ایڈیٹر محترم عقیل انجم صاحب بیٹھے
ہوئے تھے ان سے پہلے بھی سلام دعا ہے اس لئے ان کے ساتھ خوب باتیں ہوئیں
اور وقت کا پتا بھی نہیں چلا لاہور سے جہلم تین گھنٹے کا سفر ہے اور پھر
قلعہ تک کا مزید دو گھنٹے کا سفر ہے لیکن ہم منڈی بہاول الدین کی طرف سے اس
قلعہ میں داخل ہوئے ہمیں سات گھنٹے لگے ایسا لگ رہا تھا کہ قلعہ بھی ہمارے
ساتھ ساتھ آگے چلتا جا رہا ہے خیر جب ہم وہاں پہنچے تو چند گز کے فاصلے پر
کوسٹر کھڑی کر دی گئی اب یہاں سے پیدل ہی قلعہ تک جانا تھا ایک بات میں
بتانا بھول گیا کہ ہمارے ساتھ سلمان صاحب کی قیادت میں بائیکر کا ایک دستہ
بھی لاہور سے روانہ ہوا تھا جو ہم سے پہلے یہاں پہنچ گیا تھا اس جگہ سے
جہاں کوسٹر کھڑی کی گئی تھی درمیان میں ایک ندی آتی ہے اس ندی سے گزرتے
ہوئے ہم قلعہ تک پہنچتے ہیں جب میں قلعہ کی جانب جانے لگا تو میری نظر
معروف بائیکر سلمان صاحب پر پڑی انہوں نے بھی پہچان لیا وہ بڑی گرم جوشی کے
ساتھ مجھے ملے انہوں نے اپنی مسسز ،بیٹے اور بہو کا تعارف بھی کرویا جو ان
کے ساتھ سیر کے لئے آئے تھے اب میں ان سے اجازت لے کر آگے بڑھا اور ارادہ
پختہ تھا کہ قلعہ کے اوپر جانا ہے میں کچھ منڈی بہاول الدین کے دوستوں کے
ساتھ اوپر کی طرف چڑھنے لگا تو معلوم ہوا کہ یہ بہت مشکل کام ہے لیکن میں
نے ارادہ کیا ہوا تھا اور ہمت نہیں ہاری ان دوستوں کے پیچھے پیچھے چلنے لگا
کچھ دن پہلے وزیر اعظم عمران خان نے اس روڈ کا افتتاح کیا جس میں یہ قلعہ
بھی شامل ہے یقیناً یہ قلعہ ہمیں تاریخ کی ایک یاد دلاتا ہے جس کا ذکر میں
اوپر کر چکا ہوں اففتاح کے بعد قلعہ کے راستے پر پتھر لگا دیے گئے جن پر چل
کر اوپر قلعہ تک پہنچا جا سکتا ہے میں تھوڑے فاصلے تک پہنچ کر رک جاتا اور
اپنا سانس بحال کرتا اور پھر چل پڑتا یوں چالیس منٹ چلنے کے بعد ہم ایک جگہ
پہنچے جہاں ایک درخت لگا ہوا تھا ہم اسے کے سائے میں بیٹھ گئے یہاں میرے
ساتھ جناب امتیاز صاحب بھی موجود تھے جو پیشے کے لحاظ سے ایک صحافی ہیں ان
سے میری پہلی ملاقات تھی ان کے ساتھ ہی ایک سیاح اشرف صاحب بھی موجود تھے
ہمارے علاوہ افتخار خان اور ان کا بیٹا قلعہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے
باقی کچھ بائیکر نوجوان بھی قلعہ تک پہچ چکے تھے لیکن زیادہ تر لوگ ہمت نہ
کر سکے اور واپسی کو ترجیح دی خیر ہم ایک گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد اس
قلعہ تک پہنچ گئے اوپر ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اس قلعہ کے ارد گرد بلند پہاڑ
ہیں جو انتہائی خوبصورت منظر پیش کر رہے تھے اور خدا کی کبریائی بیان کر
رہے تھے ایسے مقامات پر جانے سے خدا کی قدرت پر کامل اور پختہ یقین ہوتا ہے
قلعہ کے اوپر سے ہی ہمیں ابو ریحانی جیل بھی واضح نظر آتی ہے ایک بات بتاتا
چلوں کہ جب بھی آپ پہاڑی علاقے کا سفر کریں تو اپنے ساتھ پانی اور کھانے
پینے کا بندوبست ضرور کریں کیونکہ قلعہ پر پانی کا کوئی بندوبست نہیں ہے
اگر حکومت چاہے تو وہاں تک پانی پہنچا سکتی ہے لیکن یہ ایک مشکل کام ہوگا
کیونکہ یہ قلعہ 1500فٹ کی بلندی پر واقع ہے یہاں جب بھی آئیں گروپ کی شکل
میں آئیں اکیلے ہر گز نہ آئیں کیونکہ ایک دوست بتا رہے تھے کھبی یہاں آنے
والوں کو لوٹ بھی لیا جاتا تھا لیکن اب حکومت کا فرض ہے کہ اس کی اشتہارات
کے ذریعے پبلسٹی کی جائے اور لوگوں کو اس قلعہ کی سیر کے لئے راغب کیا جائے
لیکن ابھی یہاں سیاح کے لئے کو ئی خاطر خواہ سہولتیں نہیں ہیں یہاں گاؤں کے
ساتھ یا ندی کے قریب دکانیں بنائی جائیں ہوٹل تعمیر کئے جائیں صاف پانی کا
بندوبست کیا جائے لوگوں کو گائیڈ کرنے کا بندوبست بھی ہونا ضروری ہے کیونکہ
یہ ایک پہاڑی سلسلہ ہے شہری لوگوں کے لئے اوپر چڑھنا مشکل کام ہے اگر یہاں
لفٹ لگائی جائے تو بہتر رہے گا کیونکہ اس کے ذریعے بچے ،خواتین اور کمزور
حضرات بھی قلعہ پر جا سکیں گے یا پھر دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جہاں
پتھر لگائے گئے ہیں یہاں سڑک بنا دی جائے تا کہ ہیوی موٹر بائیک اس راستے
کے ذریعے اوپر قلعہ تک جا سکے اس طرح ایسے لوگ جو زیادہ چل نہیں سکتے وہ
موٹر بائیک سے سفر کر کے اوپر قلعہ تک پہنچ جائیں خیر جب سیاح بڑھیں گے تو
ریاست کو ان کے لئے بہتر سہولیات دینی ہوں گی اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر
سیاح کی تعداد کو بڑھانا مشکل ہو جائے گی اگر مقامی لوگ یہاں آئیں گے تو
پھر ہی بیرون دنیا سے بھی لوگ پاکستان آئیں گے پاکستانیوں اور غیر ممالک سے
آنے والے سیاحوں کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔
دوستو آپ جب بھی آئیں گرمی کے موسم کی بجائے سردیوں میں آئیں اور یہاں کیمپ
لگائیں ایک دو دن رکیں اپنے ساتھ پانی ضرور لے کر آئیں کھانے پینے کی اشیا
ء بھی ساتھ رکھیں کیونکہ یہاں نزدیک ابھی کوئی ہوٹل نہیں ہے لیکن یہاں کے
مقامی لوگ جو کہ ایک چھوٹی سے بستی ہے بہت بڑے دل کے مالک ہیں انہوں نے
اپنے پلے سے چائے بنا کر سب لوگوں کو پلائی ویسے بھی یہاں کے لوگ بہت پیار
کرنے والے ہیں دوستو اوپر قلعہ پر پہنچ کر میں نے کچھ ویڈیوز بنائی تاکہ
انہیں سوشل میڈیا پر شیئر کر سکوں اور کچھ تصاویر بنائیں جو آپ کے ساتھ
شیئر کروں گا اوپر ایک گھنٹہ رہنے کے بعد میں نے نیچے آنے کا ارادہ کیا اور
پھر نیچے کی جانب چل پڑا چڑھائی کی نسبت نیچے آنا بہت آسان ہے میں لگاتار
چلتا رہا اور بیس منٹ کے بعد نیچے اترنے میں کامیاب ہو گیا راستے میں کہیں
بھی نہ ٹھہرا جب نیچے پہنچا تو کچھ دوست ندی میں نہا رہے تھے کیونکہ سخت
گرمی تھی میں نے کچھ سانس لینے کے بعد اپنے منہ پر پانی ڈالا اور پاؤں ندی
میں کر کے بیٹھ گیا اس ندی میں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی ہیں جو پاؤں پر آ
جاتی ہیں اس طرح وہ آپ کے پاؤں کا مساج کرتی ہیں جس سے آپ کو سکون ملتا ہے
اور تھکن کا احساس جاتا رہتا ہے کچھ دیر یہاں بیٹھنے کے بعد میں آگے منزل
کی طرف چل پڑا جہاں ہماری کوسٹر کھڑی تھی لیکن تھوڑا سا چلنے کے بعد میں نے
دیکھا کہ ایک ہجوم ہے اور وہاں ایک ڈرامہ البیرونی کے حوالے سے پیش کیا جا
رہا ہے میں بھی اس ڈرامے کو دیکھنے کے لئے رک گیا اور اس ڈرامے کی ویڈیو
بھی بنائی اس ڈرامے سے بھی کچھ معلومات حاصل ہوئیں ان نوجوانوں کو داد دیتا
ہوں جنہوں نے یہ ڈرامہ پیش کیا جب ڈرامہ ختم ہوا تو ایک گروپ فوٹو ان
اداکاروں کے ساتھ بنایا گیا یہاں میری طبیعت کچھ خراب ہونے لگی تو میں زمین
پر لیٹ گیا میرا بلڈ پریشر بڑھ گیا تھا کیونکہ کافی عرصہ کے بعد میں نے
ایسی مشقت کی پہاڑ پر چڑھنا بہت مشکل کام ہے لیکن میں نے کیا دوسرہ وجہ
بھوک کی تھی کیونکہ وہاں کھانے پینے کا کوئی بندوبست بھی نہ تھا اور ہمیں
بھی معلوم نہ تھا کہ ہم ایک ویرانے میں جا رہے ہیں جہاں کوئی بازار نہیں ہے
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہاں بہتری آ جائے گی جیسے جیسے سیاح بڑھیں گے تو
دکانیں بھی بن جائیں گی ٹھہرنے کے لئے ہوٹل بھی بن جائے گا اور سہولیات بھی
سیاح کو میسر آئیں گی ہمیں آنے والے دنوں میں اپنے ملک کی سیاحت کو بڑھانا
ہے کیونکہ ہمارا ملک سوئیٹرز لینڈ سے بھی خوبصورت ہے یہاں کسی بھی چیز کی
کمی نہیں ہے اﷲ تعالی نے اسے بہت بلند و بالا کوہساروں ،آبشاروں ،ندی نالوں
،سرسبز میدانوں اور بہتے چشموں سے نوازا ہے ہمیں ان جگہہوں کی تشہیر کرنی
ہے تا کہ دنیا بھر کے تمام سیاحوں کا رخ پاکستان کی جانب ہو سکے اور یہ
سیاحت باقاعدہ ایک انڈسٹری کا درجہ حاصل کر لے سیاحوں کے آنے سے ملک میں
ترقی ہو گی اور پاکستان کا دنیا بھر میں امیج بہتر ہو گا جب میری طبیعت
خراب ہوئی تو مقامی لوگوں نے میری مدد کی میں ان کی اس خدمت سے بہت خوش ہوا
اﷲ تعالی ان کے لئے آسانیاں پیدا کرے وہ دونوں دوست مبارک صاحب اور دوسرے
نوجوان کا نام میں بھول گیا ہوں وہ میرے ساتھ اوپر قلعہ تک بھی گیا تھا اس
نے مجھے پکڑ کر کوسٹر تک لایا اس کی اس محبت کو میں کھبی بھی فراموش نہیں
کر سکتا اور یاد رکھوں گا خیر کوسٹر میں بیٹھنے کے بعد طبیعت مزید بہتر
ہوگئی یہاں اے سی چل رہا تھا جس کی وجہ سے میں جلد ہی سنبھل گیا اب تمام
دوستوں نے فیصلہ کیا کہ کو اب لاہور بذریعہ موٹر وے جائیں گے جب گاڑی ایک
گھنٹہ کے بعد موٹروے للا انٹر چینج پرپہنچی تو خدا کا شکر ادا کیاتمام
دوستوں کو بھوک لگ رہی تھی تو راستے میں گاڑی کھڑی کرنے کو کہا گیا کیونکہ
رات ہو چکی تھی پھر ایک مقام پر کھانے پینے کے لئے گاڑی کو روکا گیا سب نے
اپنی اپنی خریداری کی جس نے جو کچھ کھانا تھا لیا ہم تین دوستوں نے چائے
اور کیک کے ساتھ گذارا کیا پھر واپس کوسٹر کی جانب روانہ ہوئے تمام دوستوں
نے مقصود صاحب سے کہا کہ آپ کھانا کھلائیں کیونکہ دوپہر کے کھانے کا وعدہ
کیا گیا تھا لیکن وہاں کچھ بھی موجود نہ تھا جس کی وجہ وہ نہ ہوسکا تو آپ
رات کا کھانا ہی کھلا دیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ اب بجٹ نہیں ہے اس لئے
معذرت چاہتا ہوں اس طرح نیم بھوک کو ساتھ لئے ہم سب دوست اپنی منزل کی جانب
روانہ ہوئے لاہور پہنچ کر ہم نے خدا کا شکر ادا کیا جب ہم لاہور پہنچے تو
رات کے ساڑھے گیارہ بج چکے تھے بھوک بہت لگ رہی تھی تو میں نے راستے میں
دیکھا کہ ایک بیکری کھلی ہے میں نے اس سے ایک بڑا پیزا لیا اور ساتھ کولڈ
ڈرنک لے لی تا کہ گھر جا کر پیٹ پوجا کر سکوں جب گھر پہنچا تو بیوی اور بچے
ابھی جاگ رہے تھے وہ بھی میرا انتظار کر رہے تھے سب نے مل کر پیزا کھایا
اور پھر کچھ دیر گپ شپ کے بعد میں سو گیا صبح پھر جلدی اٹھنا تھا یوں میرا
یہ سفر اور اس کی داستان اختتام ہوتی ہے ۔
|