یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا محترمہ فاطمہ جناح کے بارے میں
ولی خانیوں نے ہرزہ سرائی کی تھی اور گجرانوالہ میں تماشہ لگا تھا اور بعد
میں بے نظیر کی عریاں تصویریں بھی نشر کی گئی تھیں۔اور آج جادو ٹونت سوئیاں
پتلیاں کا ذکر ہوا ہے
مارچ ۲۰۰۱ کی شام تھی قاری شکیل نے کہا کہ چوہدری صاحب چلیں مکہ مکرمہ چلتے
ہیں جہاں آپ کی ملاقات میاں نواز شریف سے کراتے ہیں میاں نواز شریف دسمبر
۲۰۰۰ کی دس تاریخ کو جدہ چلے گئے تھے دس سالہ معاہدے کے تحت انہیں سعودی
فرماں رواں عبداﷲ بن عبدالعزیز کی گارنٹی پر جانے کی اجازت دی گئی ۔
جمعے کا دن تھا وقت مقررہ پر میں حرم شریف میں پہنچ گیا جہاں حجر اسودکے
قریب میاں صاحب تشریف فرماء تھے ۔عصر کی نماز کے بعد ملاقات ہوئی اﷲ جنت
بخشے دلشاد جانی جو اس وقت پیپلز پارٹی کے صدر تھے انہیں بھی شائد قاری
صاحب بلایا ہوا تھا وہ بھی وہاں موجود تھے قاری صاحب مسلم لیگ نون کے ایک
دھڑے کے صدر تھے دوسرے کی قیادت ارشد خان کرتے تھے ۔وہاں سے ہم قصر الضیافہ
چلے گئے راستے میں عبدالرزاق جامی نے میاں صاحب کو میاں محمد کا کلام بھی
سنایا جس میں وہ نیچوں کی ٓشنائی کی داستاں بیان کرتے ہیں جامی صاحب یوں تو
نعت خواں ہیں لیکن میاں محمد کے کلام سے کام چلاتے ہیں سخن فروشی میں کوئی
ان جیسا دیکھا نہیں ۔چلیں چھوڑیں ان لوگوں کی کون سی فیکٹریاں ہیں یہی کچھ
ہنر ہے جو بیچ کر گزارا کرتے ہیں سیرت کانفرنس میں عبدالخبیر آزاد نے بھی
آنکھیں چرائیں جب انہیں بتایا کہ جدہ مہں زہرہ ریسٹورینٹ میں چوہدری شہباز
کی دعوت میں ملاقات ہوئی تھی۔
قصر الضیافہ میں میاں صاحب نے اس ملاقات میں جو باتیں کیں ان کا ذکر پھر
سہی لیکن آج میں نے آپ کو ایک خاص بابے سے ملاقات کرانی ہے جو ہمیں قصر
الضیافہ میں ملا نیلے رنگ کا چالا اور لاچہ اور نیلے رنگ کی ہی پگڑی پہنے
ہمیں ایک بابے سے ملوایا گیا میری کرسی کیپٹن صفدر کے والی میز پر تھی اور
وہیں شہباز شریف سہیل ضیاء بٹ بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔بابا جی کی نمبر بڑے
ہائی تھے سمجھیں ۱۱۰۰ میں سے سوا گیارہ سو ۔ہر کوئی ان کی خوشنودی حاصل
کرنے میں جتا ہوا تھا ۔شہباز شریف نے بابا جی سے کہا آپ تو کہتے تھے کہ تین
مہینوں بعد پاکستان میں ایسا ماحول ہو گا اور ہم چلے جائیں گے مگر اب تو
چوتھا مہینہ ختم ہو رہا ہے ۔با با جی کو غصہ آ گیا کہنے لگے تمہاری تیزیوں
نے مروا دیا ہے کام جب بھی ہونے لگتا ہے تم بول پڑتے ہو چپ ہو جاؤ مجھے کام
کرنے دو ۔میں بڑا حیران ہو رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے کہ ملک کا ایک بڑا
لیڈر اﷲ کے گھر سے جڑے ایک محل میں ایک بندے سے مانگ رہا ہے۔یقین کیجئے
مجھے ایسے لگا کہ ہماری نمازیں سب جھوٹ ہیں ۔ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور
تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں یہ ہم ہر نماز میں پڑھتے ہیں اور تو اور وہ جگہ
کتنی عظیم تھی جس میں پاکستان کا سابق وزیر اعلی نماز پڑھ کر آیا ہے اور
ابھی تھوڑی دیر بعد پھر مغرب پڑھنے جائے گا ۔وہ ایک ان پڑھ بابے سے اقتتدار
مانگ رہا ہے
میں اس بابے کو دیکھے جا رہا تھا مجھے تھوڑی دیر بعد احساس ہوا کہ یہ شخص
میں نے کہیں دیکھا ہے ۔میں نے بابے کو اکیلے میں دیکھ کر اس سے پوچھا کہ
بابا تم دیکھے بھالے لگتے ہو۔کیا تم پنجاب ہوٹل میں تو نہیں کام کرتے تھے
۔یہ ۱۹۷۷ کی بات ہے حرم کے سامنے ایک ہوٹل ہوا کرتا تھا جس کا نام پنجاب
ہوٹل تھا یہ بابا وہاں بیرے کا کام کرتا تھا ۔جب میں نے اسے اس کی اوقات
یاد دلائی تو کہنے لگا جی میں ادھر ہی کام کرتا تھا میں آہستہ سے اس کے کان
میں کہا یہ کیا تم نے ان لوگوں کو بدھو بنا رکھا ہے اس نے بھی آہستہ سے کان
میں کہا اگر میرا لگا ہوا ہے تو تمہیں کیا تکلیف؟ یقینا مجھے کوئی تکلیف تو
نہ تھی لیکن اس سے مجھے علم ہو گایا کہ یہ لوگ بڑے کمزور ایمان والے
ہیں۔پھر ایک بار جدہ جیل ک قیام کے دوران اسی طرح کا واقعہ پیش آیا ۔توہم
پرستی کی انتہا ہے۔قارئین آج کل آپ نے مریم بی بی کے ہاتھوں میں ایک گلاس
دیکھا ہو گا سنا ہے یہ بھی کسی ایک پیر نے ان کے ہاتھ میں دے رکھا ہے جادو
ٹونے پر ایمان رکھنے والوں پر اﷲ کا عذاب نازل ہو گا ۔
آج کلا یک بی بی نے اپنے ایک کالم کی چند سطروں کی وجہ سے شہرت پا لی ہے
۔اس کو کوئی جانتا بھی نہیں لیکن شہباز گل کی ایک پریس کانفرنس نے اسے ٹاک
شوز کی زینت بنا دیا ہے ۔حاجن بی بی کا اپنا ماضی ٰ اس بات کا گواہ ہے کہ
وہ نواز شریف کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہیں ۔انہوں نے خاتون اول پر الزام لگا
دیا ہے کہ وہ جادو ٹونے کرتی ہیں ۔یہاں علی محمد خان کی بات کا حوالہ دوں
گا انہوں نے کہا ہے کہ جو خاتون سیاست میں نہیں ہے اور نہ ہی اس کا سیاست
سے سروکار ہے تو اس پر کیچڑ اچھالنا قابل مذمت ہے انہوں نے مطالبہ کیا ہے
کہ خاتون صحافی معافی مانگے دو سال پہلے جب ریحام خان کی کتاب کے چرچے ہوئے
تو مجھے پوچھا گیا کہ اس کی کتاب کے آنے سے کیا فرق پڑے گا تو ٹاک شو میں
جواب تھا جس قوم پر رحمان کی کتاب کا کوئی اثر نہیں اس پر ریحام کی کتاب
کیا اثر چھوڑے گی۔ ہمارے محلے می ایک دائی تھی جس کا نام دارو تیلن تھا وہ
بات بات پر جھگڑا کر دیتی تھی محلے کے لفنگے اسے چھیڑ کر اس کی گالیوں سے
محظوظ ہوتے تھے
ایسی دارو تیلنیں اس معاشرے کے خوبصورت ماتھے پر ایک داغ ہیں ۔انہیں کوئی
لوفر لفنگا ہی اکستاتا ہے
وہ خواتین جو غیر ملکی سفارت خانوں کی پارٹیوں میں داد عیش دیتی ہیں شائد
انہیں اپنی عزت کا خیال نہ ہو لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے گھروں میں بند با
پردہ خواتین کی عزت اچھالنا کوئی اچھا کام نہیں ہے جس کا سیاست سے کوئی
لینا دینا ہی نہیں اس کے بارے میں الزامات لگانا کہاں کا انصاف ہے چوہدری
اینکر کا خیال تھا کہ عاصمہ نے تو کسی کا نام نہیں لیا تو پھر وہی بتا دیں
کہ کس کا نام لے کر دشنام طرازی کی گئی ۔میں سمجھتا ہوں مسلم لوگ نون کا یہ
وطیرہ رہا ہے کہ وہ سیاست میں ہر وہ اوچھا کام کر جاتی ہے جو مخالفین سوچ
بھی نہیں سکتے کبھی بے نظیر کی عریاں تصویریں لوگوں کے سامنے لاتی ہیں اور
کبھی جمائمہ کے اوپر جھوٹے مقدمے قائم کر کے اپنی چھوٹی سوچ کا مظاہرہ کرتی
ہے
بشری بی بی ایک گھریلو خاتوں ہیں اور ان کا مقام و مرتبہ اس لئے بھی بلند
ہے کہ وہ خاتون اول ہیں ملک کے وزیر اعظم کی بیگم ہیں کیا کبھی بیگم کلثوم
کے بارے میں ہم نے کچھ کہا ہے صد حیف کے ،، ڈبل شفٹ،، کا طعنہ دینے والے آج
نون لیگ کے لیڈر ہیں
لیکن کیا کیا جائے جس پارٹی نے کتیا کے گلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی تصویر
لٹکا کر گجرانوالہ کی گلیوں میں گھمایا ہو وہ خاتون اولا کو کچھ بھی قرار
دے سکتی ہے۔شنید ہے اس پارٹی کے بڑے لوگ نواز شریف کے اوپر جادو ٹونے کا
توڑ ڈھونڈنے ڈھاکہ بھی گئے اور شنید ہے اس بابے سے ملاقات بھی ہو گئی جو
لوگ بابے دھنکے کو منگوا کر چھڑیاں جدہ میں کھاتے ہوں ان سے کچھ بھی توقع
کی جا سکتی ہے ایسا بابا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کی گالیاں بے
نظیر اور نواز شریف نے بھی کھائیں ۔لیکن اس قدر باخبر کہ اس کے نیچے سے میں
نے چھ سات سو روپے نکال لئے اور ثابت کیا کہ عالم الغیب صرف اﷲ کی ذات ہے
۔یہ مانسہرہ سے آگے چند کلو میٹر دور خاکی کے مقام پر رہا کرتا تھا ۔ضعیف
الاعتقادی کی لعنت اس ملک عظیم پع ایک آسیب کا سایہ ہے جو بھی اس میں ملوث
ہے وہ دوزخ کا مال ہے ۔میں سمجھتا ہوں حاجن مفت بھری کو اپنے کئے کی معافی
مانگنی چاہئے چار دیواری کو زرد صحافت سے پہلے بھی نقصان پہنچا اور اب بھی
|