دھماکوں کی سیاست اور معیشت کے دھماکے

ممبئی شہر ایک مرتبہ پھر ۳۱ ماہ کے بعد بم دھماکوں سے دہل گیا لیکن اس بار حکومت نےاپنی گوں نا گوں سیاسی مجبوریوں کے سبب بلا کے تحمل کا مظاہرہ کیا۔انتظامیہ نے ماضی کی روایات کے برخلاف جلد بازی اوربے احتیاطی سے گریز کیا اورذرائع ابلاغ کو تلقین کردی گئی ہے کہ اس معاملے کو بیجا طول دینے کے بجائے ایک بھیانک خواب سمجھ کر جلد از جلد بھلادیا جائے۔حکومت کی مجبوری اتر پردیش کے انتخابات ہیں جس میں کانگریس کی توجہ خاص طور پر مسلمانوں کی جانب ہے ۔ وہ کوئی ایسا اقدام نہیں کرنا چاہتی جس سے مسلمانوں پر بے سروپاالزام تراشی کرکےانہیں ناراض کیا جائے ۔اتر پر دیش کے انتخابات کانگریس کیلئے اس زاویے سے بھی اہم ہیں کہ اس میں حاصل ہونے والی کامیابی کا سہرہ راہل گاندھی کے سر باندھ کر ان کیلئے وزارت عظمیٰ کا راستہ ہموار کرنا مقصود ہے ۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جب بھی اتر پر دیش میں کانگریس کمزور ہوئی ہے گاندھی ۔نہروخاندان کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا ہے گویا اس خاندان کے اقتدار کا راستہ رائے بریلی۔امیٹھی اور الہ باد سے ہوتا ہوا جاتا ہے ۔وزیر داخلہ پی چدمبرم کے نہایت سلجھے ہوئے بیان کی کوئی اور وجہ بظاہرنظر نہیں آتی ۔

یہ دھماکے کس نے کئے اس کے بارے سوائے کرنے اور کروانے والے کہ کوئی بھی وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا۔لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں اسکی بنیاد یا تو قیاس آرائی ہے یا سیاسی ابن الوقتی اور اس کا مظاہرہ سب سے زیادہ مقامی سطح پر ہورہا ہے مثلاً شیوسینا کاراہل گاندھی بیان پر پیچ وتاب کھاناجس میں انہوں نے کہا اس طرح کے دھماکے افغانستان،عراق اور امریکہ میں ہوتے رہتے ہیں ۔سچ تو یہ کہ راہل گاندھی کا یہ بیان ہنوز سیاست کے میدان میں ان کے طفل مکتب ہونے کا ثبوت ہے اگر یہ بات حقیقت بھی ہو تب بھی اس موقع پر اس کا اظہار غیر مناسب ہے ۔راج ٹھاکرے نے اپنی سیاسی روٹی سینکتے ہوئے دیگر ریاستوں سے آنے والے شہریوں کو بلاجواز موردِ الزام ٹھہرا دیااس کے جواب میں بی ایس پی نے خود راج کو دہشت گرد قرار دے کر اپنی دوکان چمکانے کی کوشش کی۔سب سے زیادہ غیر ذمہ داری کا ثبوت وزیراعلیٰ چوہان نے اپنے اس نا عاقبت اندیش بیان سے دیا کہ این سی پی کو وزارتِ داخلہ کا قلمدان دینا ایک غلط فیصلہ تھا جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔چوہان صاحب شاید یہ بھول گئے کہ سب سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے باعث وزارتِ اعلیٰ کی کرسی کی اصل حقدار این سی پی ہے ۔ اگر وہ خود اسے این سی پی کیلئے خالی کر دیں تو راژتروادی بخوشی انہیں وزارتِ داخلہ کے قلمدان سے نواز دیں گے تاکہ ان کا دم خم دیکھ سکیں ۔ جو وزیراعلیٰ دھماکوں کے بعد ۱۵ منٹ تک اپنے پولس کمشنر سے رابطہ تک نہ قائم کر سکا ہو اسے اس طرح کی ابن الوقتی زیب نہیں دیتی وہ بھی کیا کرے ایسا یہی کانگریس کا کلچرہے ۔

ان دھماکوں کے حوالے سےمقامی سیاست کے علاوہ ایک معاشی پہلو بھی روشنی میں آیا ہے ۔ممبئی میں اوپیرا ہاؤس اوردادر کے علاوہ تیسرا دھماکہ زویری بازار میں ہوا جہاں ہیروں کے تقریباً۵۰۰۰ تا ۶۰۰۰ دوکانیں اورکارخانے ہیں حکومت نے ان کیلئے باندرا کرلا کامپلکس میں بھارت ڈائمنڈ بورس تعمیر کیا ہے لیکن ابھی تک صرف ۵۔۶ لوگوں نے ہی اس نئی سہولت کا رخ کیا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ اس طرح کے دھماکوں سے بیوپاریوں میں خوف و دہشت پیداکرکے انہیں قلبِ شہر سے نکال کر مضافات میں بھیجنا مقصود ہو اس لئے کہ زویری بازار کی زمین فی الحال بلڈر لابی کیلئے سونے کے انڈے دینے والی مرغی بن گئی ہے اور قانوناً وہاں پر بسنے والوں کا انخلا ممکن نہیں ہے ویسے مقامی بیوپاری اب بھی وہاں سے نکلنےکے بجائے پولس چوکی کا قیام اور غیر قانونی پارکنگ کی ممانعت کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔

۱۳ جولائی کے دن جبکہ یہ دھماکے رونما ہوئے پڑوس کی ریاست گجرات میں فسادات کے حوالے ایک اہم ترین فیصلہ عدالت میں سنایا گیا۔ ویرمگام میں عمران بھٹی،جمعہ بھٹی اور حیدر بھٹی کو ۲۸ فروری ۲۰۰۲ کے دن فسادات کے دوران ہلاک کر دیا گیا تھا ۔نوسال بعد اس مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے احمدآباد کے ٹرائیل کورٹ نے ۶ ملزمین کو سزا سنائی اور ۴ کو رہا کر دیا ۔ان میں سے دو بھوپا بھارواڈ اور باچوجی رنچھوڑ جی کو عمر قید کی سزا سنائی گئی جبکہ وٹھل عرف کچھو کو ۱۰ سال قید اوروہالا گھیلا و مولا گھیلا کو پانچ سال کی سزاسنائی گئی ۔ یہ فیصلہ اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے قبل گودھرا ٹرین حادثے میں ۳۶ لوگوں کو موردِ الزام ٹھہرایا جا چکا ہے اوردس کو پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ٹریں حادثے میں صرف ۵۹ کارسیوک مارے گئے تھے جبکہ اس کے بعد ہونے والے فسادات میں تقریباً ۲۰۰۰ معصوموں نے اپنی جان گنوائی تھی لیکن کسی مجرم کو ابھی تک کوئی سزا نہیں ہوئی تھی اور اسکی واحد وجہ نریندر مودی حکومت کا عدلیہ پر دباؤ رہا ہے ۔ مودی کے اس رویہ پر سپریم کورٹ پھٹکار سنا چکا ہے ۔بسٹ بیکری کا معاملہ گجرات سے ممبئی کی عدالت میں منتقل کیا جا چکا ہے۔

مودی کی دہشت اس قدر ہے کہ اوڈے گاؤں مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کی جج محترمہ تریویدی کو استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئیں۔ گزشتہ سال اسی مقدمے کے سرکاری وکیل سی ایچ دیسائی کو بھی بھگایا گیا۔ اوڈے گاوں میں یکم مارچ کو۲۰۰۲ ۲۳ بدقسمت مسلمانوں کو ہلاک کردیا گیا تھا ۔گجرات فسادات کی پیروی کرنے والے چار سرکاری وکلاء کو اب تک سبکدوش ہونے پر مجبور کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے ۷۲ سالہ معمر وکیل پی آر اگروال نے اپنے استعفیٰ میں الزام لگایا کہ جج سری واستو ان کی دلائل کو سنتے ہی نہیں ہیں اس لئے وہ اپنی ذمہ داری سے کنارہ کش ہو رہے ہیں ۔اگروال صاحب کو مقدمے کے آخری مراحل میں یہ اقدام کرنا پڑا جبکہ ۲۰۰ گواہ ۸۵ ملزمین جن میں سابق بی جے پی ایم ایل اے پرہلاد گوسا بھی شامل ہیں کے خلاف پیش ہو چکے ہیں ۔ اس سے قبل گلبرگ سوسائٹی اور نروڈا پاٹیہ مقدمات کے سرکاری وکلاء آرکے شاہ اور نگم شکلا کو بھی مودی کے دباؤ نے چلتا کر دیا ۔ہر کوئی اس قدر دہشت زدہ کردیا جاتا ہے کہ ذاتی مجبوریوں کا بہانہ بنا کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے ۔گجرات میں سپریم کورٹ کی قائم کردہ خصوصی عدالت میں ۸ مقدمات زیرِ سماعت ہیں جس نے سنگھ پریوار کے ۳۳۰ ملزمین کی نیند اڑا رکھی ہے ایسے میں ویرم گام کے مقدمے کا فیصلہ یقیناً ذرائع ابلاغ پر چھا جاتا اور مودی کی دہشت گردی کو بےنقاب کر دیتا مجرمین اور مہلوکین کے افراد خانہ کو ٹیلی ویژن کے پردے پر دیکھ کر فسادات کی یاد تازہ ہو جاتی مگراسی دن ہونے والےدن دھماکے مقدمے کی خبر پر گہن بن کرنہیں چھا گئے ۔ اور دھماکوں کے شور میں اس مقدمہ کی آواز گھٹ کر مر گئی۔نریندر مودی اپنی جانب سے توجہ ہٹانے خاطر اس طرح کے دھماکے کروانے میں ماہر ہے۔

قومی سطح پر اس کی وجوہات اور اثرات کو جاننے کیلئے وزیر داخلہ کا بیان نہایت معاون و مددگارہے ۔پی چندمبرم نے ممبئی حملے پراظہارِ تاسف کے ساتھ یہ بھی کہا کہ دھماکےہندوستان کی معاشی راجدھانی پر حملہ نہیں ہے شاید وہ کہنا چاہتے تھے کہ اس کا کوئی خاص اثر معیشت پر نہیں پڑے گا۔ ان کے مطابق یہ کسی چھوٹے گروہ کا کام ہو سکتا ہے لیکن وہ کوئی قیاس آرائی کرنا نہیں چاہتےانہوں نے پولس کو کسی روایتی مفروضہ کی بنیاد پر تحقیق کرنے کے بجائے ان تمام امکانی گروہوں کی چھان بین کا حکم دیا جو اس طرح کی کاروائی میں ملوث ہو سکتے ہیں۔انہوں نے جہاں اس بات کا اعتراف کیا کہ انڈین مجاہدین کے دو افراد کو پچھلے دنوں گرفتار کیا گیا وہیں یہ اعلان بھی کیا کہ ابھی حال میں نکسلوادیوں کو بھی ممبئی اور پونا سے گرفتار کیا جاچکا ہے گویا شک کی سوئی کسی ایک فرقہ یا گروہ کی جانب مرکوز کر دینا درست نہیں اس کے باوجودمیڈیا میں انڈین مجاہدین کی دھوم ہے لوگ اس طرح سے بیان کر رہے ہیں کہ چندمبرم نے انڈین مجاہدین کا تک نام نہیں لیا اور پھر یہ کہنے سے بھی نہیں چوکتے اس سے پہلے کئے جانے والے سارے حملے ۱۳ یا ۲۶ تاریخوں کو ہوئے اور ان سب میں انڈین مجاہدین ملوث رہےہیں حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انڈین مجاہدین صرف اور صرف ممبئی پولس کےذہن کی افتراپردازی ہے جسے ان لوگوں نے اے ٹی ایس مہاراشٹر کی حریفائی میں ایجاد کیا تھا ۔

ان دونوں اداروں کے درمیان پائی جانے والی مخاصمت اظہر من الشمس ہے ۔ دہلی پولس جب جامع مسجد کے معاملے میں انڈین مجاہدین کی تحقیق کرنے کی غرض سے ممبئی آئی تو کرائم برانچ نے ساری تفصیلات ذرائع ابلاغ میں لیک کر کے اسے رسوا کیا ۔۲۰۰۸ کے دھماکوں میں اے ٹی ایس سے پہلے افضل عثمانی کو گرفتار کرکے اے ٹی ایس پر اپنی بر تری ثابت کرنے کی کوشش کی جبکہ ۲۶ نومبر حملے کی تحقیقات کا اصل حقدار اے ٹی ایس تھی لیکن ریاستی حکومت نے یہ ذمہ داری بلاوجہ ممبئی پولس کو سونپی اس سے پہلے ۲۰۰۶کےلوکل ٹرین دھماکوں میں انڈین مجاہدین کے ملوث ہونے کا اعلان کرکے ممبئی پولس نے اے ٹی ایس کی جانب سے گرفتار کئے جانے والے لوگوں کو غیر متعلق ثابت کردیا۔ہماری خفیہ ایجنسیوں کے درمیان کس قدر بے ربطگی پائی جاتی ہے اس کاثبوت اس وقت سامنے آیا جبکہ وجہہ القمر خان کو سی بی آئی نے ۵۰ خطرناک ترین مطلوبہ افراد کی فہرست میں شامل کر کے اس کے خلاف انٹر پول سے ریڈ کارنر وارنٹ جاری کروا دیا جبکہ بعد میں پتہ چلا کہ اسے اے ٹی ایس اور پھر ممبئی کرائم برانچ پہلے ہی گرفتار کر چکے ہیں اور وہ حراست میں ہے لیکن ان دونوں اداروں نے سی بی آئی کو اطلاع فراہم کرنے کی زحمت نہیں کی۔

ممبئی بم دھماکوں کے بین الاقوامی محرکات کو جاننے کیلئے مستقبلِ قریب میں ہونے والی ہندپاک بات چیت اورامریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے دورۂ ہند کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے ۔یہ ایک نہایت خوش آئند بات ہے پاکستان کے صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی دونوں نے ( جنہیں آئے دن کراچی میں ہونے والی اموات پر کوئی غم و افسوس نہیں ہے) ممبئی بم بلاسٹ کی پرزور مذمت کی گویا بلاواسطہ یہ کہہ رہے ہوں کہ ہم گناہ گاروں کا اس حملے سے کوئی واسطہ نہیں ہے اس کے جواب میں ہندوستان کے خارجہ سکریٹری آر کے سنگھ نے کہا ان دھماکوں سے ہند پاک بات چیت متاثر نہیں ہوں گی گویا ہندوستان نے بھی بلاواسطہ یہ تسلیم کر لیا کہ ہم آپ کو اس کیلئے ذمہ دار نہیں سمجھتے ورنہ یہ گفتگو اگر منسوخ نہیں تو کم از کم معطل تو ضرور ہی ہو جاتی۔ لیکن ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کی بہتری کو اگر امریکہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ پیش رفت اس کیلئے مفید نہیں بلکہ مضر ہے ۔ ان دونوں ہم سایوں کے درمیان اپنا سائبان ڈال کر امریکہ بہادرجو سیاسی ومعاشی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے ان پرہندو پاک کےبہتر تعلقات سے اسی طرح پانی پھر جاتا ہے جس طرح بارش نے ممبئی دھماکوں کے شواہدکو ملیا میٹ کر دیا۔اگریہ دونوں ازخود دوست بن جائیں ہیلری کلنٹن کو آخر ثالث کون بنائےگا ؟اس لئے ہند پاک تعلقات اور امریکی خارجہ سکریٹری کے دورے سے قبل دھماکوں کی اپنی اہمیت ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس بار ہیلری کلنٹن کی آمد کی خبر کو ذرائع ابلاغ نے اہمیت ہی دھماکوں کے بعد دی ورنہ کون جانتا تھا کہ موصوفہ ہندوستان کی سرزمین پر قدم رنجا فرمانے والی ہیں۔پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اوسامہ اور ریمنڈ ڈیوس کے واقعات کے بعد خاصے بگڑ چکے ہیں امریکہ نے اپنی ۳۰ ملین ڈالرکی مجوزہ مدد کو بند کر کے اسے اپنے گرگوں کے ویزا سے مشروط کر دیا ہے اور پاکستانی حکمرانوں نے اس کے دباؤ میں آنے انکار کردیا ہے ایسے میں پاکستان کو گھیرنے اور اس پر بلاواسطہ دباؤ ڈالنے کیلئے اس طرح کے دھماکے نہایت مفید حربہ ثابت ہوسکتے ہیں ۔

اگر ممبئی میں یہ دھماکے نہ ہوئے ہوتے تو بھلا اوبامہ کو ہندوستان سے اظہاریکجہتی کرتے ہوئے یہ کہنے کا موقع کیسے ملتا کہ امریکی عوام ہر مشکل کی گھڑی میں ہندوستان کی عوام کے شانہ بشانہ کھڑےہوئے ہیں ۔ہم اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دلوانے میں ہندوستان کا تعاون کریں گے جیسا کہ ۲۰۰۸ میں کر چکے ہیں بظا ہر یہ بیان کافی خوشنما معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ سزا دلوانا تو درکنارممبئی بلاسٹ کے ملزم ڈیوڈ ہیڈلی سے ہندوستانی افسران کوملاقات کرنے کا موقع بھی امریکی انتظامیہ نے نہیں دیا۔مسز ہیلری کلنٹن نے اپنے بیان میں کہا کہ میں منصوبے کے مطابق آئندہ ہفتہ اپنادورہ کروں گی ۔ میرا ایمان ہے کہ اس وقت ہندوستان کا ساتھ دینا پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے ۔ہم ہندوستان کے ہمراہ دہشت گردی کے خلاف اپنی مشترکہ جدوجہد کا عزم کرتے ہیں ۔ تصور کریں کہ اگران بیانات کے پس منظر سے دھماکوں کو ہٹا دیا جائے تو یہ سب کس قدر بے محل معلوم ہوتے ہیں؟

ہیلری کلنٹن کے دورے کا مقصد نائب سکریٹری رابرٹ لیک نے ایک ویب کانفرنس یوں واضح کیا:صدر اوبامہ اور سکریٹری کلنٹن دونوں ممالک کی عوام اوراکیسویں صدی میں عالمی تحفظ اور خوشحالی کے پیش نظر ہند امریکی تعلقات کو وسیع کرنا چاہتے ہیں ۔اس جملے میں ایک پوشیدہ اشارہ چین کے بڑھتے ہوئے عالمی اثرات پر لگام لگانے کی جانب ہے جو ہندوستان اور امریکہ کا مشترکہ رقیب ہے ۔اس مقصدکیلئے سب سے پہلے تو ہندوستان پر اسلحہ سے متعلق لگائی گئی پابندیوں کو امریکہ نے ختم کردیا ہے اور پھر جوہری تکنیک کی فراہمی کا دروازہ کھولا گیا ۔رابرٹ بلیک کے مطابق۲۰۱۰ میں امریکہ اور ہندوستان کے درمیان تجارت میں پچھلے سال کی بنسبت ۳۰ فی صد اضافہ ہوا ہے اور فوجی لین دین دوگنا ہوگیا ہے۔ اب توانائی کے علاوہ داخلی تحفظ ،دفاعی و دیگر امور پر گفتگو ہوگی ۔ ایسے میں اگر پاکستان سے ہندوستان کےتعلقات استوار ہو جائیں اور دھماکے نہ ہوں تو داخلی تحفظ اور دفاعی امور کی ہوا اپنے آپ نکل جاتی ہے ۔

بلیک کے مطابق ہند امریکی تعلقات میں سب سے اہم مدعا دہشت گردی کیخلاف چلائی جانے والی مہم میں میں اشتراک ِعمل ہے اس کیلئے امریکی داخلی تحفظ کی سکریٹری جانیٹ ناپولیٹانو مئی میں دہلی کا نہایت کامیاب دورہ کرکے وزیر داخلہ چدمبرم سے ملاقات کر چکی ہیں اور اب ہم ہندوستان سے افغانستان اور دیگر وسط ایشیائی ممالک میں تعاون پر گفتگو کرنے جارہے ہیں۔ ایک طرف تو امریکہ خود افغانستان سے بے آبرو ہو کر بھاگ رہا ہے اور جاتے جاتے اپنی بلا ہندوستان کے گلے میں ڈال کر جانا چاہتا ہے ۔امر اجالا کے صحافی سنجے ابھیگیان نے اندیشے کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا چونکہ ہندوستا ن کو اپنے غیرجانبدار ہونے پر فخر ہے اس لئےکیاوہ کبھی امریکہ کا دوست بمعنی ٰ ہوسکتا ہے اس کا چونکا دینے والا جواب بلیک کی جانب سے سامنے آیا اس نے کہا ہم ہندوستان کو غیرجانبدار ملک نہیں سمجھتے۔ ۱۱ستمبر کے بعد ہندوستان نے واقعی یہ محسوس کیا کہ ہنداور امریکہ کے درمیان بہت سارے مشترکہ مفادات اور اقدار ہیں ۔رابرٹ بلیک نے بڑی صفائی سے اعتراف کیا کہ آئندہ چند سالوں میں ہندوستان اپنے دفاعی بجٹ پر ۳۰ بلین ڈالر صرف کرنے والا ہے اس لئے امریکہ کیلئے وہ کافی اہمیت کا حامل(گاہک) ہے ۔فی الحال امریکہ کی معیشت جس طرح چرمرا رہی ہے ایسے میں ہندوستانی عوام کے خون پسینے کی کمائی اس کیلئے ایک نعمتِ غیر مرتقبہ ثابت ہوگی لیکن اس سے ہندوستان کی عوام کو کیا ملے گا ؟دھماکے ،قتل وغارتگری اور گرفتاریاں نیزرہنماؤ ں کو حاصل ہوں گےووٹ ،اقتدار اور بے شمار بدعنوانی کی دولت جس کے بوجھ سے سوئزرلینڈ کے بنک بوجھل ہوئے جارہے ہیں اور ہزارے و رام دیو جیسے لوگ چلا رہے ہیں لیکن دھماکوں کے اس شور شرابے میں ان کی سننے والا کون ہے ؟
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451069 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.