جاوید ہاشمی ، عمران خان اور
الطاف حُسین کا ملک میں انقلاب ، انقلاب کا فلگ شگاف نعرہ ....
کیا آٹے ،بجلی ، پانی اور زندگیوں سے محروم ہوتے عوام ملک میں انقلاب کے
لئے منتظرہیں....؟
حکمرانوں کی بے حسی اور خوراک ، پانی ، گیس ،بجلی اور صحت معالجہ جیسے
بنیادی حقوق سے محروم ہوتے عوام کے صبروبرداشت کو دیکھتے ہوئے ہم برملاطور
پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج پاکستان کاقومی پھل صبر، قومی لباس کفن،قومی کھیل
خودکشی اور خودکش حملے،قومی فیشن مذاکرات،قومی دعا یااللہ لائٹ آجائے اور
حکمرانوں کے دلوں میں قومی خزانے سے محبت کا جذبہ ختم کرکے عوام سے محبت کا
جذبہ مزین کردے یہ ہوکر رہ گئے ہیں اور پھر بھی قوم ہے کہ باوجود اِس کے کہ
یہ ملک میں انقلاب برپاکرنے کی طاقت رکھتے ہیں مگرپھر بھی یہ اپنے اِن بے
حس وحرکت حکمرانوں سے فلاح کی اُمید لگائے بیٹھی ہے کہ شائد وہ اِن کے حق
میں کچھ بہتر کردیں ۔
جبکہ یہ امر واقع ہے کہ ہمارے ملک میں اناج سے لے کر توانائی تک کے
پیداہونے والے ہربحران اور اِن بحرانوں سے جنم لینے والے ہر مسائل کے ذمہ
داربھی ہمارے یہی موجودہ اور سابقہ سول اور فوجی حکمران ہیں جنہوں نے ہر
دور میںملک اور قوم کے مفادات سے زیادہ اپنے مفادات کو ترجیح دی اور اِنہوں
نے اپنے دورِ اقتدار میں دیدہ اور دانستہ طور پر خود کو کسی نہ کسی دوست
نما دُشمن کا آلہ کار بنائے رکھا اور یہ اِس خوش فہمی میں مبتلارہے کہ اِن
کے یہ آقا اِنہیں ہمیشہ یوں ہی سنبھالادیئے رکھیں گے مگرجوں جوں دنیاکے
حالات اور ہمارے زمینی حقائق تبدیل ہوتے رہے توایک طرف ہمارے
فرینڈزکنڑیزاوردوسری جانب ہمارے وہ اغیار ممالک جن کے لئے ہم اپنے انتہائی
فراخ دلانہ انداز سے کام کرتے رہے وہ بھی ہم سے اَب نظریں چرانے لگے ہیں
اور وہ اَب ہم سے کام لے کر بھی ہماری غیرمشروط طور پر کسی بھی قسم کی
امداد کرنے سے کترارہے ہیںحالانکہ ہمارے تیور تووہی پرانے جیسے ہیں مگر اِن
کے رویوں میں تبدیلی آگئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اِن کی اِس طرح ہماری امداد
بندکردینے والے عملِ خاص وعملِ ناراضگی سے نہ صرف ہمارے ملک کی گاڑی رک
کررہ گئی ہے بلکہ اَب توہمارے حکمرانوں ،سیاستدانوں اور بہت سے اعلی ٰ
عہدوں پر فائز اشخاص کی دال دلیہ پر بھی منفی اثرات پیداہونے شروع ہوگئے
ہیں ۔جسکا سب سے زیادہ بُرااثر عوام الناس پرپڑرہاہے اور عوام اپنے مسائل
کی چکی میں پس کر کسی انقلاب کی صدابلندکررہے ہیں عوامی کی جانب سے
بلندہوتی ہوئی انقلاب کی صداسے متعلق ہماراخیال یہ ہے کہ انقلاب کی صدا اَب
تک تو اِن کے حلق ہی میں پھنس کررہ گئی ہے....مگر ملک میں انقلاب کے لئے
اِن کی بیقراری اور بے چینی کو دیکھ کر یہ اندازہ ضرور کیاجاسکتاہے کہ اگر
حکمرانوں ، سیاستدانوں اور ملک کے اعلیٰ سول اور فوجی عہدوں پرفائز اشخاص
کی جانب سے عوام کے ساتھ یوں ہی ناانصافیوں اور مہنگائی ، بھوک وافلاس ،
کرپشن سمیت اِن کے بنیادی حقوق کی حصولی سے متعلق اِنہیں کسی قسم کے ریلیف
نہ دیئے جانے کا سلسلہ جاری رہاتو عین ممکن ہے کہ ملک میں وہ انقلاب آجائے
جس کی رَٹ جاویدہاشمی،عمران خان اور الطاف حُسین لگارہے ہیںتو وہ انقلاب
ملک میں آکر رہے گا اِس لئے ضروری ہے کہ ہمارے ارباب اقتداراور
اختیاراپنااحتساب کرلیں اور اپنی عیاشیوں کو ملک اور قوم کے بہتر مستقبل کے
لئے ترک کرکے وہی کچھ کریں جنہیں کرنے کا عوام اِن سے مطالبہ کررہے ہیںورنہ
اِن کا حشر عوام وہی کردیں گے جس کی جانب جاویدہاشمی ،عمران خان اور الطاف
حُسین گاہے بگاہے عندیہ دیتے رہتے ہیں۔
بہر حال اِس لحاظ سے ہمیں یہ کہنے دیجئے کہ آج شائدہمارے اِس نقطہ ءنظرسے
کوئی بھی ذی شعور پاکستانی انکار نہ کرسکے کہ ملک اپنی تاریخ کے جس انتہائی
نازک دور سے گزررہاہے اِسے ایسے حالات واقعات کا سامنا کبھی نہیں پڑاتھاجن
حالات سے یہ آج گزررہاہے اِس لئے کہ میراملک جواپنے قیام سے لے کر آج تک
کسی نہ کسی طرح اپنے دوستوں اور دشمنوں کے ہاتھ کھلونابنارہا اور اِن سب نے
اِسے اپنے اپنے مقاصد اور مفادات کے حصول کے خاطر بیدریغ استعمال کیا اور
ہم اِن سے ہمیشہ امداد اور قرضوں کے عوض ملنے والے ڈالروں کی لالچ میں کسی
غلام کے مانندہاتھ باندھے اِن کا ہر حکم بجالاتے رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ
ہمارے دوست ہم پر جو مہربانی کررہے ہیں اِن کی خواہش کی تکمیل کرکے ہی اِن
کے احسانات کا ازالہ کیاجاسکتاہے یوں اِسی جذبہءکاہلی اور فقیرانہ طبیعت کے
باعث ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے مگروقت کا پہیہ تیزی سے آگے اور آگے
بڑھتارہااور آج یہ اپنی رفتار سے دنیا کو اتنے آگے لے جاچکاہے کہ ہم اِس کا
تصور بھی نہیں کرسکتے ہیںیوں ہم اپنی کاہلی اور سست روی اور اپنوں اور
اغیار پر تکیہ کئے رکھنے کے باعث دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں دوسروں کے
دیئے ہوئے بھیک نماٹکڑوں پرگزراکرتے کرتے ہماری عادت میں وہ فقیرآگئی ہے کہ
اَب ہم دنیا سے اپنی استطاعت سے بڑھ کر کچھ مانگتے ہیں تووہ اَب ہم سے
شرائط کرنے لگی ہے اور برملا مطالبہ کرتی ہے کہ پہلے ہمارے کام کو ہمارے
معیار اور مرضی کے مطابق کرو تو تم کو وہ ملے گاجس کی تمہیں ضرورت ہے اور
جب ہم اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے اِن کی شرائط پر پورانہیں اُترتے ہیں
تو یہ ہماری امداد نمابھیک اور قرضے ہمیں دینے سے انکار کردیتے ہیں جیسااِن
دنوں ہمارادوست نمادشمن اور دہشت گردِ اعظم امریکاہماری ہر طرح سے امداد
اور قرضے محض اِس بنا پر نہیں دے رہاہے کہ اَب ہم نے اپنی اُصولی ا
ورجارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے اِس کی شرائط ماننے سے انکارکردیا ہے تو اِس
پر یہ ہم سے ناراض ہوگیاہے اور ہم پر اِدھر اُدھر سے جائز اور ناجائز غر ض
کے ہر قسم کے دباؤ ڈا ل رہاہے کہ ہم اِس کی شرائط مان جائیں تو یہ ہم کو
ہماری مطلوبہ امداد کی شکل میں ڈالر دے گا۔
اگر چہ یہ حقیقت ہے کہ نائن الیون کا وہ المناک واقعہ جِسے دنیا کے دہشت
گردِ اعظم امریکا اور اِس کے ضدی اور ہٹ حرام بچے اسرائیل نے خودتیار
کیاتھا اوراِن دونوں نے اپنی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اِس کا ساراملبہ
مسلمانوں کے سر ڈال دیااوراِس طرح یہ خود کو پوتر ثابت کرنے میں کامیاب رہے
اور یوں اِنہوں نے ساری دنیا میں مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانیوں کو دہشت
گردی کے علامت کے طور پر پیش کیا اور دنیا میں اُمت مسلمہ سے ایک غیر
اعلانیہ صلیبی جنگ شروع کردی جو آج بھی افغانستان کی پہاڑوں اور پاکستان کے
علاقوں میں جاری ہے ۔
اگرچہ یہاں افسوسناک امر یہ رہاکہ اِس جنگ میں امریکا نے ہم کو بھی زبردستی
شامل کرنے کے لئے ہم پر ہر وہ دباؤ ڈالاجو ہماری برداشت سے باہرتھامگر
چونکہ ہم اِسے اپنا سب سے بڑاہمدرد اور دوست سمجھتے ہیں اور اِس سے امداد
لیتے رہتے ہیں اِس لئے اِس کے مشکل وقت میں ہمیں کام آنا پڑا اورہم اِس کے
پریشر میں بھی آچکے تھے اِ س وجہ سے بھی ہمارے لئے اِس کو انکار کرنا نہ
صرف ناممکن رہا بلکہ مشکل ترین بھی ہوگیاتھا ایسے میں ہم کسی زرخریدغلام کی
طرح اِس کے ہر حکم کی تکمیل میں ہاتھ باندھے اِس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ
میں شامل ہوگئے اور آج بھی ہنوز اِس کی جنگ کا ہراول دستہ بن کر اپنا اِس
سے زیادہ نقصان کرنے میں لگے پڑے جس کی تفصیل میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں
اِس کے لئے صرف یہی کہنا دیناکافی ہوگاکہ نائن الیون کے بعد اغیار کی لگائی
ہوئی آگ میں جس طرح ہم خود کو جھونک کر طرح طرح کے مسائل سے دوچار ہوگئے
ہیں وہ بھی آج دنیا سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں مگر اِس کے باوجود بھی کیایہ
ہمارے غلامانہ ذہن کا عکاس نہیں ہے کہ ہم اپناہر قسم کر نقصان برداشت کرکے
بھی امریکا سے ہر معاملے میں جھڑکیاں کھارہے ہیں اور اِس کی جانب سے اپنے
اُوپر طرح طرح کے لگائے جانے والے اُلٹے سیدھے الزامات کے باوجود بھی اِس
کے ہر حکم کو ماننے اور اپنی افواج کے ہاتھوں اپنے ہی لوگوں کو گولیوں اور
گولوں سے بھون ڈالنے میں لگے پڑے ہیں یہ جان کر بھی کہ اِس طرح ہم اپنے ہی
لوگوں کو مارکراپنی ہی قوت کو کمزروکررہے ہیں اور اپنے ہی ملک میں اپنے ہی
خلاف اپنے ہی لوگوں کو باغی کررہے ہیں مگر کیا کریں ہم نے امریکا سے مختلف
حیلے بہانوں سے اتنا کچھ بٹور لیاہے کہ اَب ہم اِس سے انکار کرکے خود کو
معاشی اور عیاشی طور پر کسی مشکل میں بھی نہیں ڈال سکتے اِس وجہ سے ہم نے
سوچ لیاہے کہ بھلے سے ہماری ہاتھوں ہمارے ہی لوگ مریں تو مریں مگر امریکا
ہم سے قطعاََ ناراض نہ ہو اور اگر یہ ہمارے انکار پر ناراض ہوگیاتو ممکن ہے
کہ وہ ہم سے اُن اربوں ڈالر قرضوں کی وصولی اور آئندہ امداد اور قرض نہ
دینے کا مطالبہ کربیٹھے تو ہم کیاکریں گے جیسااِس نے گزشتہ دنوں اپنی مرضی
کے مطابق کام نہ کرنے پر ہماری امداد اور قرض بندکرنے کا منصوبہ بنالیاہے
جس کے لئے اِن دنوں ہمارے حکمران اور فوجی اور سول قیادت اِسے منانے اور
امداد کی صورت میں قرضوں کی وصولی کے لئے پریشان ہیں جبکہ اِس حوالے سے یہ
اطلاعات آرہی ہیں کہ ہمارے حکمرانوں اور اعلیٰ قیادت نے ناراض امریکاکو
منانے سے متعلق یہ اُمید ظاہر کردی ہے کہ اِن کی دن رات کی انتھک محنت رنگ
لے آئی ہے اور امریکا روکی گئی امداد اور قرضوں کی ادائیگی کے لئے راضی
ہوگیاہے جس کے بعد ملک کی رکتی اور عوام کی سسکتی گاڑی کا پہیہ پھر سے تیزی
سے چلنے لگے گا۔
بہر کیف! ملک کی موجودہ د معاشی ، سیاسی اوراخلاقی طور پرد گرگوں ہوتی صورت
حال کے حوالے سے گزشتہ دنوں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنمااور رکن قومی
اسمبلی مخدوم جاویدہاشمی نے لاہور میں ایک سیمنار سے خطاب اور میڈیاسے
گفتگو رکرتے ہوئے کہاکہ لیڈرشب نہ جاگی توملک میں ایساانقلاب آئے گا کہ
عوام ہمارے بے حس وحرکت پڑے حکمرانوں اور امریکی چیلے سیاستدانوں کو بھی
زندہ نہیں چھوڑیں گے جنہوں نے امریکی غلامی اور اِن کی نمک حلالی کا حق
اداکرتے ہوئے قومی خزانے کا ستیاناس کردیاہے اور اُنہوں نے کہاکہ اَب اِن
حالات میں اِن ہاؤس تبدیلی کا وقت نہیں ہے بلکہ اَب تو وقت آگیاہے کہ ملک
میں انتخابات سے ہی تبدیلی لائی جائے جبکہ دوسری جانب ہمارے ملک کے انتہائی
جوان مگر ذراسے جذباتی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی
اپنی پارٹی تحریک انصاف برطانیہ کے زیر اہتمام الفورڈ میں پارٹی کے
فنڈریزنگ ڈنر کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں انقلاب کا عمل
شروع ہوچکاہے (ارے عمران بھائی کہاں شروع ہوچکاہے ہمیں تو بھوک وافلاس ،
کرپشن سمیت اور دیگر مسائل کے دلدل میں دھنسے عوام کی جانب سے کوئی
ایساانقلاب اُٹھتا نظرنہیں آرہاہے آپ کس انقلاب کے شروع ہونے کی بات کررہے
ہیں ...؟) جبکہ یہ حیرت کی بات ہے کہ اُنہوں نے اِس موقع پر یہ کہاکہ اِن
کی پارٹی ملک میں انقلاب کے لئے مکمل طور پر تیار ہے اِن کا کھولا دعویٰ ہے
کہ ملک میں انقلاب کے لئے ملک کے90فیصد نوجوان اِن کے ساتھ ہیں جبکہ حسب
عادت اُنہوں نے اپنی صاف گوئی کا سہارالیتے ہوئے اِس موقع پر اِس بات کا
اعتراف ضرور کیاکہ ملک میں انقلاب اورتبدیلی کے لئے شہید ذوالفقار علی بھٹو
کی کوششیں لائق احترام اور قابل ستائش ضرور تھیں اگرچہ اِن کاکہناتھاکہ
ماضی میں نرم انقلاب کے حوالے سے شہیدذوالفقارعلی بھٹو کا چھوٹاانقلاب تھا
جس نے ملک کی تقدیر بدلنے کی سعی کی مگر ہم اپنے ملک کے نوے فیصد نوجوان کے
ساتھ جو انقلاب لائیں گے وہ ملک میں انقلاب کا سونامی ہوگا جس کی زد میں
آنے والا ہر بڑااور کرپشن زدہ شخص اپنے عبرتناک انجام کو پہنچے گا۔
بلاشبہ ہماراملک آج حکمرانوں کی جانب سے کئے گئے کرپشن کی وجہ سے جن نازک
حالات سے گزررہاہے اِن حالات میں تو ملک میں انقلاب کا آناایک لازمی امر
قرار دیاجاسکتاہے مگر یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ ملک میں انقلاب کون ....ا
ور کیسے لائے گا.؟؟تواِس موقع پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آج ملک میں سوائے ایم
کیو ایم جو ملک کے ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی جماعت ہے اِس کے
علاوہ اور جتنی بھی جماعتیں جہاں کہیں سے بھی ملک میں انقلاب انقلاب کی
باتیں اپنی پوری شدت سے کررہی ہیں وہ اِس میں بڑی حد تک فٹی فٹی ہیں اور
اِن کا انقلاب کے حوالے سے ہربیان سیاسی تو قراردیاجاسکتاہے مگر اندر سے یہ
انقلاب کے ہرگز خواہشمند نہیں ہیں اِس کے باوجود بھی چلو مان لیتے ہیں کہ
ملک کی باتی جماعتیں بھی انقلاب لانے کا ارادہ رکھتی ہیںمگر پہلے وہ یہ تو
فیصلہ کریں کہ اِن کا ملک میں انقلاب لانے کے لائحہ عمل کیاہوگااورکس کا
کونسالائحہ عمل ایساجامع اور منظم ہے کہ عوام اِس کے انقلابی منشور سے متفق
ہوکر انقلاب کے لئے اِس کے ساتھ نکل کھڑے ہوں گے....
ہم سمجھتے ہیں کہ اَب تک جس طرح ملک میں انقلاب کی باتیں کی جارہی ہیں وہ
ایک فریب کے سوااور کچھ نہیں ہے کیوں کہ موجودہ دور حکومت میں تو کم ازکم
کوئی ایک بھی ایسادکھائی نہیں دے رہاہے کہ جو انقلاب لانے کے لئے تیار ہو
اِس کی وجہ ہماری سمجھ میں یہ آئی ہے کہ جو لوگ ملک میں انقلاب کی باتیں
کررہے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح سے خود کسی نہ کسی کرپشن کے پیروکار رہے ہیں
یا ہیں تو یہ ملک میں سوائے زبانی کلامی انقلاب لانے کے خواہشمندتو ہیں مگر
عملی انقلاب آنے کے بعد یہ لوگ اپنے المناک انجام سے بھی ڈرتے ہیں چلو
بالفرض ہم مان بھی لیتے ہیں کہ ملک میں اگر کسی بھی طرح انقلاب آبھی گیاتو
وہ بھی کیاہمارے یہاں اُن برائیوں کا جڑسے خاتمہ کرپائے گا جن میں ہم گزشتہ
64سالوں میں پڑ کراُن برائیوں کے عادی ہوچکے ہیں اور کیا ہم اپنی اُن
برائیوں کے خاتمے کے بعد جن میں لپیٹ کر ہم آج اپنی ایک نسل کو پروان
چڑھاچکے ہیں کیاوہ کسی ایسے نئے نظام کو قبول کرپائے گی جس کے رائج ہوتے ہی
اِسے طرح طرح کی معاشی، سیاسی ، اقتصادی ،مذہبی اور اخلاقی پابندیوں کا
سامناکرناپڑے گااور ہماری نوجوان نسل کو اُن تمام برائیوں سےجس کی وجہ سے
آج اِس کا اسٹنڈرڈ آف لیونگ اَپ ہواہے۔ کیایہ اُن برائیوں سے خود چھٹکارہ
دلاکر ایک پاک صاف نظام کاخود کو حصہ بنانے کے قابل کرپائے گی ۔؟؟اگر اِس
جواب ہماری نوجوان نسل ہاں میں دیتی ہے تو پھر ملک میں انقلاب لانے کے لئے
ایک لمحہ بھی دیر نہیں ہونی چاہئے ۔بہر حال! یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں
حکمرانوں سے لے کرسیاستدانوں اور عوام تک کرپشن کاکلچر جس طرح جڑپکڑچکااِس
سے چھٹکارے کے لئے ملک میں انقلاب کا آنالازم وملزوم ہوگیاہے اور اَب ننگے
بھوکے،بے کس ومجبور عوام کے سامنے اپنی بقاءاور ملکی سا لمیت کے لئے ایک ہی
راستہ رہ گیاہے اور وہ ہے انقلاب .....انقلاب اور بس انقلاب کا ایساانقلاب
جو موجودہ بے حس حکمرانوں،سیاستدانوں،اور اعلیٰ سول اور فوجی عہدوں پر فائز
اشخاص کو بھی بہاکر لے جائے گاجس کے لئے ملک کے آٹے، بجلی، پانی اور اپنے
بینادی حقوق سے محروم اٹھارہ کروڑ عوام بیقراری سے اُس وقت کے منتظر ہیںجب
اِن کی برداشت کی حد ختم ہوجائے گی اور صبر کا دامن اِن کے ہاتھ سے چھٹ
جائے گا تو پھر ملک میں وہ انقلاب آجائے گاجو سب کچھ بہاکر لے جائے گااور
اِس کے بعد ہمارے یہاں ایک ایسانظام پروان چڑھے گا جس کی دنیا تعریف کرے گی۔ |