خادم ِ اعلیٰ پنجاب کی کارکردگی
”خدمت کے تین سال“ کے عنوان سے ایک جہازی سائز کے اخباری اشتہار کی صورت
میں منظر عام پر آئی ہے، یہ اندازہ لگانا تو آسان نہیں کہ اس مہم پر کتنے
کروڑ روپے کا خرچہ اٹھا ، کہ حکمرانوں کی اشتہاری ”خدمت “ کی کوئی قیمت
نہیں ہوتی،ایسی مہمات کا وہ اپنے پیش رو سے حساب مانگا کرتے ہیں اور انہیں
خوب لتاڑا کرتے ہیں۔مذکورہ اشتہار میں ’خادم اعلیٰ‘ کی بجائے ’خادم پنجاب‘
کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے،دس کارناموں کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں دانش
سکول،فری ڈائلسز،گرین ٹریکٹر سکیم ، آشیانہ ہاؤسنگ سکیم،جناح آبادی سکیم ،مفت
ادویات ، پنجاب ایجوکیشنل اینڈومنٹ فنڈ ،باصلاحیت طلبہ کو سکالر شپ، تقریری
،مضمون نویسی اورکھیلوں کے مقابلے ، کروڑوں کے انعامات اور ساؤتھ پنجاب کے
انفراسٹرکچر ماڈل ویلیج شامل ہیں۔
اس اشتہار میں عوام کو مطلع کیا گیا ہے کہ اگرچہ خادم پنجاب نے صوبے کے
عوام کے لئے بے شمار خدمات سرانجام دیں مگر ان کا مرکز غریب عوام کوسہولیات
فراہم کرنا تھا، اوراس میں حکومت کو خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہوئی ۔
اشتہار کے آخر میں ان تمام خدمات کی کامیابی کے بعد ”اپنا روز گار پروگرام“
پیش کیاجارہا ہے۔ یہ غریب خاندانوں کو باعزت روزگار مہیا کیا جائے گا ، جس
کا آغاز چار ارب روپے سے کیا جائے گا، ہزاروں نوجوانوں کو یلوکیپ گاڑیاں دی
جارہی ہیں، پاکستانی ساخت کی گاڑیوں کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کو روز گا رملے
گا۔(یلوکیپ گاڑیوں کے ساتھ ایک لڑکی کی بھی تصویر ہے ، گویا اب پڑھی لکھی
لڑکیا ں بھی ان گاڑیوں سے مستفید ہوسکیں گی)میاں نواز شریف نے بھی اپنے
دورمیں ایسی ہی سکیم شروع کی تھی ، جس کا انجام ایسا تو نہ تھا کہ اب اس
سکیم کو دوبارہ شروع کیا جائے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کارہائے نمایاں میں خادم پنجاب کی دو روپے کی روٹی
اور مکینکل تنوروں کا ذکر نہیں کیا گیا ، جو مخالفین کی سخت تنقید کا نشانہ
بھی بنے ، مگر وزیراعلیٰ نے اسے اپنی سب سے بڑی خدمت قراردیئے رکھا۔ اس کے
لئے ٹاسک فورسز بھی سرگرم عمل رہیں، اشتہاری مہم سے بھی مدد لی گئی۔روٹی تو
دو روپے کی ہی تھی مگر اس پر خرچ کروڑوں روپے ہوتے رہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ
اس دو روپے کی روٹی سے صرف غریبوں نے ہی استفادہ نہیں کیا ، بلکہ ایسے تنور
پر جو بھی گیا سستی روٹی کا حقدار قرار پایا۔ شہرو ں میں بیچی جانے والی یہ
سستی روٹی مضافات اور دیہات میں نہیں تھی۔
ساتھ ہی ساتھ صوبائی حکومت نے’ خصوصی رمضان پیکیج ‘کا بھی اعلان کردیا ہے،
جس میں رمضان المبارک کے دوران اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں استحکام اور
معیار برقرار رکھنے کے لئے 1176پرائس کنٹرول مجسٹریٹ تعینات کئے جائیں گے،
جبکہ دو ہزار فیئرپرائس شاپس،325سستے بازاراور پانچ سو دستر خوان قائم کئے
جائیں گے۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے عام آدمی کی زندگی کی مشکلات ، روح
اورجسم کے رشتے کے معاملات اور دیگر پریشانیوں کا بھی ذکر کیا۔اس پیکیج میں
سب سے اہم چیز وہ بارہ سو کے قریب مجسٹریٹ ہیں جو قیمتوں میں استحکام قائم
رکھیں گے اور اشیاءکا معیار برقرار رکھیں گے۔
خادم پنجاب کے زیادہ تر کارنامے انفرادی مفاد کے لئے ہیں، یہ چاہے غریبوں
کے لئے ہی کیوں نہ ہوں لیکن ان کی قلیل تعدادہی ان سے مستفید ہوتی ہے،
وزیراعلیٰ جس طرف رخ کرتے ہیں انتہا کردیتے ہیں، اعتدال کا رستہ کم ہی
اپناتے ہیں، ویسے بھی اس سے قبل پنجاب میں مجسٹریٹ نامی مخلوق کی کمی تھی
جو بارہ سو کے قریب مزید بلائیں خزانے پر چھوڑ دی جائیں تاکہ رہی سہی کسر
نکل جائے۔ پہلے بھی ہزاروں مجسٹریٹ قومی خزانے سے تنخواہ لیتے ، گاڑیوں سے
لطف اندوز ہوتے اور عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہوئے اپنے ”فرائض“ کی انجام
دہی میں مصروف عمل ہیں۔اوپر سے ٹاسک فورسز کا قیام بھی عمل میں لایا جائے
گا، یوں اگر کوئی چیز عوام کو سستی مل بھی گئی تو خزانے کو وہ نہایت مہنگی
پڑے گی، تاہم ان مجسٹریٹوں اور ٹاسک فورسز کے چکر میںن لیگی مقامی رہنماؤں
کے وارے نیا رے ضرور ہو جائیں گے۔ |