کورونا کے زمانے میں وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ جملہ
خوب چلا تھا کہ ’آپدا میں اوسر‘ ۔ اس کا ترجمہ ہوگا’آفت میں موقع‘۔ وہ
عوام کا حوصلہ بڑھانے کی خاطر بار باراس نعرے کو دوہراتے تھے۔ آفت کے مارے
عوام بھلا کورونا جیسی وباء سے بھلا کیا فائدہ اٹھاتے لیکن وزیر اعظم نے اس
سے خوب استفادہ کیا۔ پہلا فائدہ تو مقبولیت میں اضافہ کا تھا جو جمہوری
سیاستداں کی لائف لائن ہوتی ہے۔ انہوں نے آئےدن ٹیلی ویژن پر وارد ہوکر
لوگوں کو پروچن سنانا شروع کردیا۔ سب سے پہلے لوگوں کو تالی اور تھالی
بجانے کی تلقین فرمائی ۔ بھکتوں نے سوچا کہ شاید یہ کورونا سے مقابلے کا
ٹوٹکا ہے ۔ لوگوں نے تالی اور تھالی کے ساتھ شنکھ بھی بجایا اور گربا ناچ
کر گویا کورونا کا دیس نکالا کردیا۔
مودی جی کے کابینی وزیر رام داس اٹھاولے نے ’گو کورونا گو‘ کی ڈانٹ پلا کر
وباء سے چھٹکارے کی سعی کرڈالی ۔ کچھ لوگ گائے کا پیشاب پی کر یا گوبر اپنے
جسم پر پوت کر خود کو کورونا سے بچانے لگ گئے لیکن بات نہیں بنی تو مودی جی
ایک خاص وقت میں بجلی بند کر کے دیا بتی جلانے کا مشورہ دے دیا۔ آگے چل کر
ڈاکٹروں اور طبی ملازمین پر پھول برسانے کا تماشہ بھی کیا مگر انہیں بونس
تو دور تنخواہ بھی وقت پر نہیں دی گئی۔ مجبوراً مشکل ترین حالات انہیں
ہڑتال پر جانا پڑا تب جاکر سرکار کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ایسی اوٹ پٹانگ
حرکات سے نہ کورونا کا بال بیکا ہوا اور نہ عوام کا کوئی بھلا ہوا مگر وزیر
اعظم کی مقبولیت اچھا خاصہ اضافہ ہوگیا۔ ان کامیابیوں سے خوش ہوکر مودی جی
نے سوچا چلو کچھ ٹھوس کام کیا کیا جائے اور اقدام تھا ’پی ایم کیئر فنڈ ‘
کا قیام ۔ یہ فنڈ اب ایک ارب ڈالر کا ہوچکا مگر اس سے منسلک تنازعات کی
تفصیل پڑھنے کے بعد وزیر اعظم کا سات سال پرانا نعرہ ’ نہ کھاوں گا اور نہ
کھانے دوں گا ‘ یاد آتا اور ایسا لگتا ہے وقت کے ساتھ اس میں یہ معمولی
تبدیلی ہوگئی کہ ’کھاوں گا مگر کھانے نہیں دوں گا‘۔
فنڈ کا مقصد ہنگامی حالات میں باشندوں کی مدد بتایا گیا تھا۔ وزیر اعظم
نریندر مودی نے ملک کے تمام باشندوں سے اس میں عطیات دینے کی درخواست کی
تھی۔انہوں نے قوم سے وعدہ کیا کہ اس اعانت سے ملک میں کورونا کی وبا کے
خلاف لڑائی میں مدد ملے گی اور یہ مشکل حالات کا مقابلہ کرنے میں مدد گار
ثابت ہوگا۔ وزیر اعظم نے اسے ایک صحت مندبھارت بنانے میں لمبا سفر طے کرنے
والی کوشش گردانا تھا۔وزیر اعظم کی اس دردمندانہ اپیل سے متاثر ہوکر ملک
بھر کے بڑے صنعتکاروں، فلمی ہستیوں ، تاجروں اور عام لوگوں نے بھی اپنادست
تعاون دراز کیا اور نتیجتاً ایک ہفتے کےاندراس فنڈ میں 65 ارب روپئے جمع ہو
گئے جو آگے چل کر 7500 ارب روپئےسے تجاو زکرگیا۔ اس وقت عوام و خواص کو اس
بات پر حیرت تھی کہ ملک میں 1948 سے ہی'پی ایم نیشنل ریلیف فنڈ' کی موجودگی
میں آخرنئے ادارے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی
نےناس رقم کو پی ایم نیشنل ریلیف فنڈ میں منتقل کر نے کی تجویز دی اور اسے
مہاجرمزدوروں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کی گزارش کی مگر وہ صدا
بصحراثابت ہوئی ۔
اچانک ملک گیر لاک ڈاؤن کے سبب لاکھوں مہاجر مزدورں کا خواتین اور بچوں کے
ساتھ بھوکے پیاسے پیدل سفر کرنا بھی سنگدل سرکار پر اثر انداز نہیں ہوسکا ۔
100 سے زائد افراد کی ہلاکت کے باوجود بے حس وزیر اعظم اس خزانےپر سانپ بنے
بیٹھے رہےاوراس مد میں صرف دس ارب روپئے خرچ کیے ۔ عوام کے دکھ درد کی
پرواہ کرنے کے بجائے روکھے سوکھے بھاشن پر بھاشن پلاتے رہے۔بھارتیہ
جنتاپارٹی کے ترجمان نالین کوہلی اس بابت یہ وضاحت کی کہ پہلے سے قائم کردہ
پی ایم نیشنل ریلیف فنڈ عام قدرتی آفات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، اور
پی ایم کیئر فنڈ قائم کرنے کا مقصد وبا سے نمٹنا ہے۔ یہ بات اگر درست ہے تو
اس میں سے ایک خطیر رقم کی مختلف اداروں میں سرمایہ کاری بے معنیٰ ہے
کیونکہ وباء تو مستقل نہیں ہے۔
عوام کی خاطر جمع شدہ پی ایم کیئر فنڈ میں لاپرواہی کی انتہا اس وقت سامنے
آئی جب تقریباً دیوالیہ ہو چکی یَس بینک میں اس نے 250 کروڑ روپے فکسڈ
ڈپازٹ کے طور پر لگا دیئے حالانکہ ریزرو بینک نے اس سے پہلے ہی یَس بینک کو
لے کر متنبہ کرتے ہوئے 2019 کے شروع میں ہی مذکورہ بینک کے لین دین پر
پابندی لگادی تھی۔ یہاں تک کہ وزیر مالیات نرملا سیتارمن نے بھی کہا تھا کہ
یَس بینک کے مالیاتی لین دین اور طریقہ کار پر ریزرو بینک 2017 سے نظر رکھے
ہوئے ہے۔ 2018 میں بھی آر بی آئی نے بینک کو خط لکھ کر مینجمنٹ اور لین
دین میں لاپروائیوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ بالآخر یَس بینک کے منیجنگ
ڈائریکٹر اور سی ای او رانا کپور کو ریزرو بینک نے 31 جنوری 2019 کو ان کا
عہدہ چھوڑنے کے لیے کہہ دیا اس کے باوجود ایسے ڈوبتے جہاز میں عوام کی
امانت جھونک دینا کون سی چوکیداری ہے؟یہ تو کارپوریٹ گورننس کے ضابطوں کی
بھی خلاف ورزی ہے۔
اس کو کہتے ہیں مالِ مفت دلِ بے رحم۔ پی ایم کئیر فنڈ کی بدانتظامی نے پی
ایم او کے کیر لیس نیس (carelessness) کو پوری طرح طشت ازبام کردیا ہے ۔
لیکن اس سے بے نیاز وزیر اعظم سینٹرل وسٹا پروجکٹ کی جانب متوجہ نظر آئے ۔
اس سے ثابت ہوگیا کہ وہ اپنے گھر کی بابت زیادہ فکرمند ہیں ۔ نالین کوہلی
نے یہ بھی بتایا کہ پی ایم نیشنل ریلیف فنڈ انڈیا کو سابق وزیر اعظم جواہر
لعل نہرو نے قائم کیا تھا اور کانگریس اس کی ٹرسٹیوں میں شامل ہے۔ کوہلی کا
یہ دعویٰ درست ہے کہ اس ملک میں بہت سی سیاسی جماعتیں ہیں تو ایسے میں صرف
ایک سیاسی جماعت ہی کسی ایسے منصوبے کا حصہ کیوں بنے ؟ لیکن اگر صرف
کانگریس کے ارکان پر مشتمل فنڈ غلط ہے تو محض بی جے پی کے لوگوں کو شامل
کرکے نیا فنڈ بنانا بھی ویسی ہی غلطی ہے ۔ بی جے پی ترجمان کے اس بیان میں
کوئی دم نہیں ہے کہ پی ایم کیئر فنڈ میں وزیر اعظم مودی اور دیگر وزراء کی
شمولیت عہدوں کے سبب ہے کیونکہ اگروہ ایک نجی ادارہ ہے تو اس کے ٹرسٹی
اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد بھی استعفی ٰکیوں دیں گے؟
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس (سبکدوش ) مدن لوکر نے ابھی حال میں آر ٹی آئی کے
موضوع پر منعقدہ ایک تقریب میں پی ایم کیئر فنڈ کے تحت جمع ہونے والی
رقومات سے متعلق شفافیت پر کئی سنگین سوالات اٹھائے۔ انہوں نے کہا ہمیں پتہ
ہے سرکاری ملازمین سے اعانت لی گئی ۔ ۔ تجارتی اداروں کے سی ایس آر کوپی
ایم کیئر میں منتقل کیا گیا لیکن اس فنڈ میں کتنی رقم جمع ہے یہ نہیں
معلوم۔ ہمیں نہیں پتہ کہ کتنی رقم خرچ کی گئی۔ ہمیں یہ بتایا گیا کہ اس کا
استعمال کورونا کا مقابلہ کرنے کی خاطر وینٹی لیٹرس خریدنے پر کیا جائے گا
لیکن حقیقت میں کیا ہوا ہم نہیں جانتے ؟ یہ سوالات این سی پی آئی آر نام
کی تنظیم کے پروگرام میں اٹھائے گئے جسے 16 سال قبل آر ٹی آئی قانون وضع
کرنے کے بعد قائم کیا گیا تھا۔
جسٹس مدن لوکر جس وقت یہ استفسار فرمارہے تھے ان کے ہاتھوں میں 28 تا
31مارچ 2020 کی شائع شدہ آڈٹ رپورٹ موجود تھی۔ہونا تو یہ چاہیے تھا مارچ
2021کی رپورٹ ہوتی لیکن اگر اسے شائع ہی نہیں کیا گیا ہو تو وہ بیچارے کہاں
سے لاتے۔ خیر پچھلی رپورٹ سے انہوں نے یہ اندازہ لگایا کہ اس میں سیکڑوں
ہزار کروڈ موجود ہیں لیکن یہ رقم کہاں جارہی یہ انہیں نہیں معلوم ؟ انہوں
نے یہ بھی کہا کہ اس سال کی آڈٹ رپورٹ کب شائع ہوگی اس کا علم کسی کو نہیں
ہے؟ جسٹس مدن لوکر کے سوالات کو حزب اختلاف کے رہنما کی مانند نظر انداز
نہیں کیا جا سکتا ۔ وہ ایک ذمہ دار باوقار شہری ہیں لیکن موجودہ اندھیر
نگری میں وزیر اعظم کے سوا کسی کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور صرف ان کا کیئر
کیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے ہے کہ پی ایم کیئر فنڈ کا مطلب وزیر اعظم کی
دیکھ ریکھ کی خاطر قائم کیا جانے والاادارہ ہے۔ پی ایم کیئر فنڈ میں جو کچھ
ہورہا ہے اگر کسی اور ادارے کے ساتھ ہوا ہوتا تو اس کے ذمہ دار تہاڑ جیل
میں چکی پیس رہے ہوتے لیکن وزیر اعظم کے نظر کرم کی محتاج ای ڈی کی کیا
مجال کہ اس جانب نگاہِ غلط ڈالے اس کا تو یہ حال ہے؎
نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے
وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
|