نسل نو کو خطرناک پولیو وائرس کے سبب معذوری سے
بچانے اور دنیا بھر سے پولیو وائرس کا خاتمہ یقینی بنانے کے لئے اس مرض سے
آگاہی انتہائی ضروری ہے ۔ اس خطرناک مرض کا علاج صرف حفاظتی تدابیر کے تحت
پلائے گئے پولیو ویکسین کے دو قطرے ہی ہیں ،جو کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں
کو باقاعدگی کیساتھ پلانے سے اس مرض کا ممکنہ وائرس مر جاتا اوربچے اس مرض
سے ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں۔ جبکہ پولیو کے خطرناک وائرس کے حملہ آور ہونے کے
بعد اس بیماری کا کوئی علاج نہیں، اس مرض کا شکار زندگی بھر کیلئے اپنے
خاندان اور معاشرے پر بوجھ بن کے رہ جاتا ہے اور اگر متاثرہ فرد بیٹی ہو تو
ماں باپ سارے عمر رونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے ۔ ماہرین صحت کے مطابق
خطرناک پولیو وائرس (Poliomyelitis) اعصابی( نروس) سسٹم کو برباد کرتے ہوئے
دیکھتے ہی دیکھتے ٹانگوں سے معذور کرکے انسان کو زندگی بھر کیلئے اپاہج بنا
ڈالتا ہے ۔ پولیو متعدی بیماری ہے اس کا وائرس منہ کے راستے انسان کے جسم
میں داخل ہو کر انتڑیوں میں پرورش پاتا ہے، اور اس وائرس کی تعداد جسم میں
جا کر کئی گنا بڑھ جاتی ہے،یہ متاثرہ مریض کے گلے اور آنتوں میں موجود رہتا
ہے۔عام طور پر یہ وائرس ایک متاثرہ شخص کے پاخانہ (poop ) کے ساتھ رابطے کے
ذریعے(پیٹ سے خارج ہونے والی گیس) سے پھیلتا ہے ،جو ہر چیز کو آلودہ کر
دیتا ہے اور متاثرہ فرد کے جسم سے خارج ہو کر با آسانی کسی دوسرے انسانی
جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔یہ متاثرہ فرد کی چھینک یا کھانسی کے ذریعے بھی
پھیل سکتا ہے۔ پولیو کا موذی وائرس متاثر ہ شخص یا بچے کے دماغ اور ریڑھ کی
ہڈی پر اثر انداز ہوتا ہے۔اس وائرس کا شکار زیادہ تر پانچ سال عمر تک کے
بچے ہوتے ہیں۔90فیصد مریضوں میں اس مرض کے شروع ہونے کا معلوم ہی نہیں
ہوپاتا باقی10فیصدمیں ابتدائی طور پر اس سے بخار، سر درد،الٹیاں،گردن کا
اکڑنا اور ٹانگوں میں درد ہونا عام علامات ہیں۔
اس مرض سے بچنے اور لوگوں کو اس مرض کے سبب معذوری سے بچانے کے لئے
25اپریل1954ء کو پہلی دفعہ امریکہ میں پولیوویکسین کاوسیع پیمانے پر تجربہ
کیا گیااور 12 اپریل1955ء کومشی گن یونیورسٹی میں ڈاکٹر تھامس
فرانسسزجونیئر نے اپنے رفقاء کی موجودگی میں اس کی کامیابی کا اعلان کیا
اور بتایا کہ یہ حفاظتی ویکسین 80سے90تک کامیاب رہی ہے۔اسی دن امریکی حکومت
نے اس کے عام استعمال کی اجازت دیدی۔یونیسیف، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، سی ڈی
سی اور روٹری انٹرنیشنل دنیا کے چار سب سے بڑے ڈونرزہیں انہوں نے 1988ء میں
طے کیا کہ جلد ازجلد دنیا سے پولیو کا خاتمہ کیا جائیگا۔1988ء میں125ملکوں
میں 350,000سے زائد بچے پولیو سے معذور ہوئے جبکہ ان عالمی اداروں کی
کاوشوں کی بناء پر 2013ء میں صرف تین ملک (پاکستان، افغانستان اورنائجیریا)
میں یہ مرض باقی رہ گیا تھا ، جہاں اس سال میں ان تین ملکوں میں کل160مریض
کنفرم ہوئے جبکہ پوری دنیا میں اس سال406مریض سامنے آئے۔ اسی پولیو ویکسین
کی بدولت 1988ء سے 2020 ء میں دنیا سے پولیو کا99فیصدتک خاتمہ ہوچکا ہے اور
اس طرح ایک کروڑ بچوں کو معذور ہونے بچالیا گیاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ
حکومت پاکستان سے پولیو کی مکمل خاتمے کیلئے سنجیدہ کوششیں کررہی ہے ۔
حکومت پاکستان پانچ سال سے کم عمر تمام بچوں کے لئے ہر تین ماہ بعد ’’قومی
مہم برائے انسداد پولیو‘‘(NIDs) کا انعقاد کررہی ہے۔ یونیسف، عالمی ادارہ
صحت، روٹری، ریڈ کراس اور ہلال احمر اور انسانی ہمدردی رکھنے والے اور سول
سوسائٹی کے دیگر گروپوں سمیت بہت سے غیرملکی اور مقامی ادارے ان مہموں کی
منصوبہ بندی اوران پر عمل درآمد کے لئے مدد کر رہے ہیں۔ اور ان بچوں تک بھی
پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے جو سیکورٹی خدشات، گھر والوں کے انکار
یا دیگر وجوہات کی بناء پر ماضی میں قطرے پینے سے محروم رہ گئے تھے، ایسے
بچوں میں پولیو کی بیماری ہونے کے سب سے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ عالمی
اداروں کے تعاون سے یہ مہمات اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک پاکستان اور
دنیا بھر سے پولیو کا خاتمہ ممکن نہیں ہو جاتا۔ انسداد پولیو کے لئے سرکاری
سطح پر کاوشوں کے ساتھ عوام کو بھی پولیو کے خاتمے میں تعاون کرنا
چاہئے۔ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کے لئے علماء کو بھی اپنا کردار ادا کرتے
ہوئے عوام کے ذہنوں میں موجود مختلف غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہیے ۔ یہ
ویکسین تمام بچوں کے لئے محفوظ ہے، اور ہر خوراک پولیو کے خلاف بچے کی قوت
مدافعت کو مضبوط کرتی ہے۔اس مرض کے مکمل خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ ہر پانچ
سال کے بچے کو پولیو ویکسی نیشن لازمی کروائی جائے ، اس کے ساتھ ساتھ صحت و
صفائی پر خصوصی توجہ دی جائے ، بلاشبہ صفائی کے بہتر انتظام کے باعث بہت سی
بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔
|