یوم آزادی گلگت بلتستان

اس مضمون میں گلگت بلتستان کی تاریخ، تحریک آزادی، سیاسی جدوجد، جغرافیائی اور عسکری آہمیت، ثقافت تعلیم وصحت اور متفرق شعبوں کے مشاہیر کا تذکرہ شامل ہے۔

ہر سال یکم نومبر کو یوم آزادی گلگت بلتستان منایا جاتا ہے۔ آئیے ایک نظر اس سے جڑے تاریخ حالات و واقعات اور اس سے متعلقہ دیگر موضوعات پر ڈالتے ہیں۔امید ہے اس سے گلگت بلتستان کی ایک مثبت اور تعمیری منظرکشی کے ساتھ بہت سی معلومات ملیں گی۔
مختصر تاریخ:-
گلگت بلتستان (Gilgit Baltistan) پاکستان کا شمالی علاقہ ہے جسے شمالی علاقہ جات سے جانا جاتا رہا ہے۔۔ 1840ء سے پہلے یہ علاقہ تین مختلف ریاستوں پر مشتمل تھا جن میں ا۔ بلتستان(سکردو ایریا) ۲۔ گلگت اور نواحی علاقہ اور ۳۔ نگر(ہنزہ اور گرد و نواح) شامل تھے۔ ان علاقوں کو جنرل زور اور سنگھ نے فتح کر کے ریاست جموں کشمیر میں شامل کر لیا تھا۔
تقسیم ہند کے بعد 1848ء میں یہ علاقے پرکشمیر کے ڈوگرہ سکھ راجا کے قبضہ تھےاور جب پاکستان آزاد ہوا تو اس وقت یہ علاقہ ریاست جموں و کشمیر اورتبت میں شامل تھا۔ 1948ء میں اس علاقہ کی عوام نے خودسے اپنی تقدیر بدلنے اور ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کرنے کا تاریخی فیصلہ کیا۔ اس تحریک آزادی کا آغاز گلگت سے ہوا اور یکم نومبر 1947 کو گلگت پر ریاستی افواج کے مسلمان افسران نےاپناقبضہ کر لیا اور آزاد جمہوریہ گلگت کا اعلان جمالیا۔ اس کے سولہ دن بعد پاکستان نے آزاد ریاست ختم کر کے ایف سی آر نافذ کر دیا ۔ تب سے 2009 تک یہ علاقہ وفاق کے زیر نگران بطور شمالی علاقہ جات ہی رہا پھر پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں حکومت نے اس خطے کو نیم صوبائی اختیارات دیے ۔ پاکستان کے نقشہ پر یہ منفرد خطہ زمین ہےکہ جس کی سرحدی حدود چار ملکوں سے ملتی ہیں ۔ یہ علاقہ اپنے جغرافیائی حدود ، قدرتی وسائل اور اپنے ثافتی اور سیاحیی اعتبار سے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔
تحریک آزادی گلگت بلتستان
گلگت بلتستان میں تحریک آزادی کا آغاز قیام پاکستان کے ڈھائی ماہ بعد محلہ ڈاکپورہ گلگت سے ہوا۔ یکم نومبر کو گلگت اور بونجی کا علاقہ ڈوگرہ راج کی غلامی سے آزادی حاصل کرکے پاکستانی پرچم کے سائے تلے جمع ہو چکا تھا ہوا یوں کہ یکم نومبر 1947ء میں ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے گلگت میں متعین گورنر بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو مقامی فورس گلگت سکائوٹس نے فوجی بغاوت کے ذریعے گرفتار کیا اور اس کے ساتھ ہی گلگت تحریک آزادی ایک نئے موڑ میں داخل ہو ئی۔اس نئی ریاست کا نام جمہوریہ گلگت رکھا گےگیا۔ راجہ شاہ رئیس خان اس کے صدر اور کرنل مرزا حسن خان فوجی سربراہ مقرر ہوئے۔ پندرہ روز بعد گلگت کے عوام نے اسلامی رشتے کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا اور اس حوالے سے ہنزہ اور نگر کی دونوں ریاستوں کے سربراہوں نے بھی بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ باقاعدہ الحا ق کی دستاویز پر دستخط کر دیئے۔ یہ گلگت بلتستان کی آزادی کا پہلا مرحلہ تھا۔ اس کے بعد بلتستان کے دیگر علاقوں میں آزادی کی تحریک روز بروز زور پکڑتی گئی۔ تقریباً چھ ماہ کی خونریز جنگ کے بعد 14 اگست 1948ء کو بلتستان کا علاقہ ایک سو سات سالہ ڈوگرہ راج سے آزاد ہوا۔ اس جنگ میں گلگت سکائوٹس، سکستھ جموں اینڈ کشمیر انفنٹری کے مسلمان فوجی، بلتستان کے عوام اور چترال سکائوٹس نے مل کر جرأت و بہادری کا خوب مظاہرہ کیا۔ اس وقت بونجی ہیڈ کوارٹر میں گلگت اسکاﺅٹس کی کل تعداد 580اور 400افراد دیگر مسلمان فوج تھے جبکہ مختلف علاقوں سے آزاد مجاہدین کی ایک بڑی تعداد کرنل حسن خان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تحریک آزادی میں شامل ہو گئی۔ کرنل حسن خان فوجی مہارت ، جنگی ٹیکنیک اور جغرافیائی حالات سے بھرپور اگاہی رکھتا تھا۔ اس نے بونجی کے مقام پر مجاہدین گلگت سکاﺅٹس اور دیگر رضا کاروں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک گروپ کو روندو کے راستے بلتستان کی جانب روانہ کیا اور دوسرے گروپ نے میجر بابر کی قیادت میں استور کی جانب پیش قدمی کی اورخود بونجی میں بیٹھ کر حکمت عملی اور احکامات صادر کرتے رہے۔ انقلاب آزادی کے جانثار اور مجاہدین نے یہ تہیہ کر رکھا تھا کہ دونوں گروپوں کی ملاقات سری نگر میں ہو جائے گی۔ ایک طرف مجاہدین استور سے ہوتے ہوئے گریز تک پہنچ چکے تھے دوسری جانب بختاور کا گروپ بارمولا تک پہنچ چکا تھا کرنل مرز ا حسن خان کی بہترین قیادت اور حکمت عملی کے تحت آزادی کی تحریک عروج پر تھی اس دوران جنرل جیلانی نے آ کر قیادت سنبھالی جس کےحکم پر مجاہدین کو پسپا ہوئے۔ 14ماہ کی اس انتھک جدوجہد نے بلتستان کے عوام حکمرانوں اور استور کے عوام نے مجاہدین گلگت اور اسکاؤٹس کی ہر ممکن جانی و مالی مدد کی اوراپنا بھرپورتعاون جاری رکھا اور یوں گلگت بلتستان کی تحریک آزادی اپنے عروج پر پہنچی۔اس دوران معرکۂ بونجی، روندو ایکشن، سکردو چھائونی پر حملہ، معرکۂ تھورگو پڑی، پرکوتہ ایمبوش، گریز، تلیل، بانڈی پورہ، دراس، کارگل، نوبراہ، لداخ اور پدم میں لڑی جانے والی گھمسان کی جنگیں عالمی عسکری تاریخ میں بے مثال ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام نے آزادی کے بعد1965ئ1971 اور 1999ء میں کارگل جنگ کے دوران جوانمردی کے ساتھ وطن عزیز کے دفاع میں ناقابل فراموش قربانیاں دی ہیں۔

جغرافیائی حدود اور اہمیت:-
گلگت بلتستان جس کا کل رقبہ 72971مربع کلومیٹر ہے اس کے شمال مغرب میں افغانستان کی پٹی واخان ہے جو گلگت بلتستان کو تاجکستان (سابقہ روسی ریاست )سے الگ کرتی ہے جب کہ شمال مشرق میں چین کے مسلم اکثریتی صوبہ سنکیانگ میں ایغورکا علاقہ ہے۔ جنوب مشرق میں ہندوستانی مقبوضہ کشمیر، جنوب میں پاکستانی سے ملحقہ آزادکشمیر جبکہ مغرب میں پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخواہ واقع ہیں۔ اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند 50 برف پوش چوٹیاں موجود ہیں۔ دنیا کے تین مشہور اور بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم،ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے۔ جب کہ دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشئیرز بھی اسی خطہ میں واقع ہیں۔ دنیا کا بلند ترین پولو گراؤنڈ شندوربھی اس علاقہ ضلع غذر کی تحصیل گوپس میں واقع ہے جس کی غربی حدود چترال سے ملتی ہیں۔
پاکستان کی مشہور و معروف سلک روٹ جسے شاہراہ ریشم اور دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہتے ہیں یہ واحد راستہ کو پاکستان اور چین کے ساتھ ملاتا ہے اور موجودہ CPEC پروجیکٹ میں گوادر بندر گاہ سے ملانے کا ذریعہ ہے وہ بھی مانسہرہ سے کوہستان سے نکل کر دیامر گلگت اور ہنزہ کے راستے سوست اور چین تک جاتا ہے۔
عسکری اہمیت:-
ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان دنیا کا بلند ترین محاذ جنگ سیاچن گلیشئر اسی خطہ میں واقع ہے۔
پاکستان کی بھارت سے تین جنگیں خصوصاً 1948 کی جنگ ، کارگل جنگ اور سیاچین جنگ اسی خطے میں ہی لڑی گئی ہے جبکہ سن 71 کی جنگ میں بھی چند جھڑپیں انہی سرحدی علاقوں میں ہوئیں جس میں کچھ علاقہ بھارت کےقبضے میں چلا گی اس وجہ سے یہ علاقہ فوجی عسکری اور دفاعی نکتہ نظر سے بہت اہم علاقہ ہے۔2003 سے پہلے اس علاقہ میں رسائی اور فوجی نقل حرکت لئے شاہراہ ریشم ہی واحد راستہ تھا۔ پھر اس وقت کے آرمی چیف اور ملکی حکمران جنرل پرویز مشرف نے ہنگامی طور پر دو نئی سڑکیں بنوائیں ایک مانسہرہ ناران اور جھلکھنڈ روڈ جس سے نسبتًا کم وقت میں ان علاقوں میں رسائی ممکن تھی اور دوسرا شاہراہ ریشم کامتبادل روٹ جو کہ چترال کو بذریعہ مستوج شندور گوپس گاہکوچ گلگت سے ملاتا تھا۔ ان نئی سڑکوں کی تعمیر سے ان علاقوں میں آمدورفت تجارت اور سیاحت پر بھی بڑی مثبت پیش رفت ہوئی۔

گلگت بلتستان کی سیاسی جدوجد
گلگت بلتستان کی عوام نے ہمیشہ اپنے حقوق کےحصول کے لیے پُرامن سیاسی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ پہلے آمرانہ ڈوگرہ راج سے آزادی کی جس کے بعد میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے عائد کردہ نوآبادیاتی دور کے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کے خاتمے کی کوششوں میں تبدیل ہوگئی۔
جسکی مخالفت سب سے پہلے 1950ء کی دہائی کے وسط میں شروع ہوئی۔ سب سے پہلے گلگت لیگ نے1956ء میں اصلاحات اور ایف آر سی کے خاتمے کا مطالبہ کیا لیکن 1958ء کے مارشل لاء آڑے آ گیا۔
1960ء کی دہائی میں دیگر شہروں میں تعلیم اور نوکریوں کے لیے جانے والے گلگت کے نوجوانوں نے مختلف سیاسی تنظیمیں قائم کیں اور ایف آر سی اور جاگیر داری نظام کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ علاقہ کی دو اہم سیاسی جماعتوں ۱۔ گلگت بلتستان لداخ جمہوری محاذ اور۲۔ تنظیم ملت نے عوامی سطح پرآگاہی مہم شروع کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا پھر ان جماعتوں پر پابندی عائد کردی گئی۔
جنوری 1971ء میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ ڈسٹرکٹ کمشنر نے مقامی افسر کے بچے کوامتحان میں پاس نہ کرنے پر ایک اسکول پرنسپل کوملازمت سے برطرف کردیا۔ جس پرگلگت میں پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے جن کی قیادت بین شدہ تنظیم ملت کر رہی تھی۔ مظاہرے ہنگاموں کی شکل اختیار کر گئے اور تنظیم ملت کی قیادت گرفتارہو جیل گئی۔ نتیجۃً وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان میں اصلاحات کا آغاز کیا۔ ایف آر سی، جاگیردارانہ نظام اور پولیٹیکل ایجنسی کے کردار کو ختم کردیا گیا۔ اور تنظیم ملت کی قیادت کو رہا کردیا اور اصلاحات کے عمل میں ان کے کچھ مطالبات کو بھی شامل کر دیا۔ پھر1994 کی بے نظیر حکومت میں یہاں جماعتی بنیاد پر انتخابات متعارف کروائے۔اس کےبعد 2009ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے گلگت بلتستان کو خود مختار اور بااختیار بنانے سے متعلق ایک پیکیج متعارف کرایا گیا۔ 2009ء میں اس علاقے کو نیم صوبائی حیثیت دے کر پہلی دفعہ یہاں انتخابات کروائے گئے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سید مہدی شاہ پہلے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
حکومتِ پاکستان کی جانب سے گندم پر سبسڈی یا ٹیکس کے نفاذ کے معاملات ہوں گلگت بلتستان کے عوام نے بھر پور احتجاج کیا۔
2015ء میں گلگت بلتستان اسمبلی کی طرف سے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ جب تک اقوام متحدہ کی شفارشات کی روشنی میں تنازعہ کشمیر کا کوئی ٹھوس حل نہیں نکلتا اس وقت تک گلگت بلتستان کو پاکستان میں ضم رکھا جائے۔جس پر لیگی مشیر خارجہ جناب سرتاج عزیر او دیگرقانونی ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی بنی تاکہ UNO کی قراردادوں کی روشنی میں کوئی حل نکالا جائے۔ اس کمیٹی نے علاقے کو عبوری صوبے کا درجہ دینے اور متعلقہ آئین کی شقوں میں ترمیم کےساتھ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں سیٹیں دینے کی تجویز دی۔ مگر عملاً نفاذ نہ ہو سکا۔علاقہ کی تمام سیاسی اور مذہبی قیادتیں اور عمومی عوام گلگت بلتستان کو بطور پانچواں عبوری صوبہ بنانے پر رضا مند اور پر امید ہیں اور ان کی ترقی اور خوشحالی کی ساری امیدیں اس سیاسی فیصلے سے وابستہ ہیں۔
یاد رہے گلگت بلتستان عملی صوبہ ہے قانونی نہیں ہے۔ البتہ صوبائی نظم ونسق کو چلانے کے لیئے گورنر ۔ وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری کے علاوہ درج ذیل وزارتیں کام کر رہی ہیں:-
1۔ تعمیرات 2۔ منصوبہ بندی و ترقیات 3۔ تعلیم 4۔ صحت 5۔ خوراک 6۔ زراعت 7۔ جنگلات 8۔ معدنیات (مائنز اینڈ منرلز) 9۔ ٹرانسپورٹ (ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن) 10۔ خزانہ 11۔ قانون 12۔ اطلاعات و نشریات۔ 13۔ سیاحت و ثقافت 14۔ بلدیات 15۔ داخلہ 16۔ پانی و بجلی 17۔ سروسز اینڈ جنرل ایڈمن 18۔ سماجی بہبود و ترقی نسواں
درج بالا وزارتیں مل کر گلگت بلتستان کا حکومتی و انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیتی ہیں۔

انتظامی ڈھانچہ:-
گلگت و بلتستان تین ڈویژن ۱۔بلتستان ۲۔دیا میراور ۳۔گلگت پر مشتمل ہے۔
بلتستان ڈویژن کے اضلاع ۱۔سکردو۲۔شگر،۳۔کھرمنگ ۴۔روندو اور ۵۔گانچھے
گلگت ڈویژن کے اضلاع ۔ ۱۔ گلگت ۲۔غذر ۳۔ہنزاور ۴۔نگر
دیا میر ڈویژن کے اضلاع۔ ۱۔داریل ۲۔تانگیر۳۔استور
کل ۱۴ اضلاع میں ۳۱ تحصیلیں اور ۱۳۴ یونین کونسل ہیں۔
اس صوبے کا داراحکومت گلگت ہیں ہے۔ جہاں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی اور ہائی کورٹ موجود ہے۔ صوبے کی سب سے بڑی تعلیمی درسگاہ قراقرم انٹرنیشل یونیورسٹی ٹیلی مواصلات کا ادارہ سپشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن اور دوسرے اہم انتظامی دفاتر بھی گلگت میں موجود ہیں۔ تمام سرکاری ادارے مربوط جدید IT تکنیک سے آراستہ ہیں۔ اور مزید راہنمائی کی لیئے سرکاری ویب سائٹ موجود ہے۔
gilgitbaltistan.gov.pk

ذرائع آمدورفت:-
یہ علاقہ بذریعہ سڑک راولپنڈی اسلام آباد کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے سے جڑا ہوا ہے۔ راولپنڈی سے سیاحوں اور تاجروں اور عوام کے لیئے NATCO (ناردن ایریاز ٹرانسپورٹ کمپنی) مشہ بروم ۔ سلک روٹ پاکستان کوچ اور دیگر کمپنیوں کی بہترین اور آرام دہ چھوٹی بڑی گاڑیاں دستیاب ہیں۔اس کے علاوہ دیر سے بشام شاہراہ ریشم اور چترال سے براستہ شندور اور غذر گاہکوچ بھی صوبہ خیبر پختونخواہ سے منسلک ہے۔ اسلام آباد سے گلگت اور سکردو کے لئے ہوائی سفر کی سہولت بھی موجود ہے۔

ثقافت۔
یہ علاقہ اپنی مخصوص تاریخ ثقافت اور بود وباش رکھتا ہے۔ یہاں مختلف زبانوں کا امتزاج ملتا ہے۔ لگ بھگ بیس لاکھ کی آبادی والے اس علاقہ میں بلتی ، شینا ، وخی ، بروشسکی ، کھوار ، Domaki، اردو (دفتری) زبانیں بولی جاتیں ہیں۔
یہاں لباس میں خواتین شلوار قمیص کے ساتھ اپنی مخصوص ٹوپی پہنتی ہیں۔ مرد بھی شلوار قمیص کے ساتھ مخصوص کلغی نما پھول والی ٹوپی پہنتے ہیں۔ اپنی علاقی موسیقی کے ساتھ علاقی زبان میں گانوں کے ساتھ رقص بھی کی جاتا ہے۔ علاقے کا مقبول ترین کھیل پولو ہے۔ تاہم فٹ بال یہاں کے جوانوں کاپسندیدہ کھیل ہے۔ دوسری کھیلوں کے ساتھ کوہ پیمائی کوبھی اچھی خاصی مقبولیت حاصل ہے۔
علاقے کا اکثریتی مذہب اسلام ہے اور اس کےتین اہم فرقے سنی شیعہ اور اسماعیلی پائے جاتے ہیں۔ ہنزہ اور غذر میں اسماعیلیہ کی اکثرت ہے جبکہ دوسرے نمبر پر سنی ہیں۔ سکردو میں شیعہ اکثریت کے ساتھ جبکہ دیامر میں سنی اکثریت ہے۔البتہ گلگت میں تینوں مسلک کی بھر پور نمائندگی ہے۔
اسماعیلیہ اپنی عبادت گاہ کو جماعت خانہ کہتے ہیں جو کہ ان کی تمام مذہبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز ہوتا ہے۔یہ لوگ بہت ملنسار صلح جو اور شائستہ مزاج ہوتے ہیں۔
اس خطہ میں بہترین مذہبی ہم آہنگی ہے ۔ اور اکثر خاندانوں میں کثیر المسلک ہونے کے باوجود گہری رشتہ داریاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔اکثر علاقوں میں ایک سے زیادہ شادیوں کا رواج ہے۔ جسے مقامی خواتین کو اس رواج کی تائید حاصل ہے۔
آب و ہوا۔ زراعت ۔لوگ اور پیشے۔
زیادہ تر رقبہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے۔ تقریباً ہر سڑک کے ایک طرف دریا یا پہاڑی ندی نالا اور دوسری طرف پہاڑ ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر شدید برف باری ہوتی ہے۔ موسم سرما میں سردی پوری شدت کے ساتھ اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ مئی سے اگست تک چار مہینے موسم معتدل ہوتا ہے۔ ہنزہ سکردو اور غذر کی نسبت گلگت اور دیامر میں گرمی کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔
زراعت میں گندم اور مکئی کے علاوہ پھل دار درخت اور پودے جن میں سیب، اخروٹ۔ انار۔ بادام ۔خوبانی ۔انگور۔ انجیر اور شہتوت کثرت سے پایا جاتا ہے۔ کچھ علاقوں میں زیرہ کی کاشت ہوتی ہے۔
پالتو جانوروں میں گائے اور بھیڑ بکریاں پالی جاتی ہیں۔ سردیوں میں برفانی پہاڑی بیل کا گوشت رغبت سے کھایا جاتا ہے۔ چونکہ علاقہ میں کوئی بڑی صنعت نہیں ہے۔ لوگوں میں اکثریت کا ذریعہ معاش ملازمت سپاہ گری ہے۔البتہ کچھ لوگ زراعت باغ بانی اور گلہ بانی کے پیشہ سے منسلک ہیں۔ دیہی خواتین مردوں کے ساتھ کھیتوں اور باغوں میں کام کرتی ہیں۔ جن میں جانوروں کی دیکھ بھال اور فروٹ کو توڑنا خشک کرنا اور پیک کرنا شامل ہے۔ مردوں میں ایک کثیر تعداد تعدد ازدواج کی حامی ہے۔ مگر اس کے باوجود خانگی زندگی میں کوئی تلخی اور فتنہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ خطہ کی اکثر عوا م پر امن ہے۔

تعلیم ۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے ایک سروے کے مطابق گلگت بلتستان میں صرف 31 فیصد بچے سکول نہیں جاتے ہیں۔ جبکہ پنجاب کی شرح سندھ ، بلوچستان اور کے پی کے میں یہ شرح کئی گنا زیادہ ہے۔
پنجاب کی شرح میں معمولی فرق کے ساتھ 27 فیصد ہے۔ گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں 70 فیصد بچیاں اور 48 فیصد بچے ابتدائی تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ سکول جانے والے بچوں کی تعداد ہنزہ میں ہے جہاں 88.1 فیصد لڑکے اور 87.3 فیصد لڑکیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں ۔ یعنی ضلع کے کل87.7 بچے دوسرے نمبر ضلع گھانچے میں کل 81.2فیصد۔ تیسرے نمبرپر گلگت 78.4فیصد ،چوتھے نمبر پر سکردو 74.3فیصد،پانچویں نمبر پر استور میں 71.2 فیصد جبکہ چھٹے نمبر پر ضلع غزر میں 70.6فیصد , لڑکے اور لڑکیاں تعلیم حاصل کرتےہیں۔
گلگت بلتستان کے محکمہ تعلیم کے 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق 5 سے 16 سال کی عمر کے46،022 بچے سکولوں سے باہر ہیں، جن میں اوسطاً 45 فیصد دیامر، 12 فیصد کھرمنگ، 11 فیصد استور، 7فیصد غذر اور 6 فیصد سکردو اور گانچھےکے بچے شامل ہیں۔ اسی طرح گلگت، شگر، نگر اور ہنزہ میں بالترتیب، 5، 4،3 اور 1 فیصد بچے سکول نہیں جاتے۔
محکمہ تعلیم کے یہ اعداد و شمار نہایت ہی دلچسپ ہیں۔ یعنی صرف دیامر میں 245 سرکاری سکول(162 لڑکوں کے اور 83 لڑکیوں کے سکول ) موجود ہیں جبکہ ہنزہ میں 37 سرکاری سکول(23 لڑکوں کے اور 14 لڑکیوں کے ) موجود ہیں۔ اسی طرح میٹرک کے بعد کی تعلیم کے لئے گانچھے (2) ، سکردو (3)، گلگت (2) اور نگر (1)میں ہائر سکینڈری سکول موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اسماعیلیہ اکثریتی علاقے میں آغا خان سکول سسٹم کی ایک مربوط چین کے ساتھ پرائیویٹ سکولوں کی ایک بڑی تعداد بھی اپنی خدمات میں پیش پیش ہے۔
گلگت بلتستان میں سیرو سیاحت:-
یہ علاقہ اپنے قدرتی حسن اور خوبصورت مناظر کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔پاکستان کے علاوہ یورپ اور دنیا کے اطراف و اکناف سے لوگ اس علاقہ کی قدرتی خوبصورتی اور دیومالائی حسن سے لطف اندوز ہونے لے لیئے آتے رہتے ہیں۔موسم گرما ہو یا برف باری ،سیاحوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔
سڑک کنارے بل کھاتے گنگناتے دریا۔ آبشاریں۔ جھیلیں۔ گھاس کے میدان۔ برف پوش چوٹیاں اور پہاڑی سلسلوں کے بیچوں بیچ وادیاں اور باغات سیاحوں کے لیئے ہمیشہ پر کشش رہے ہیں۔ بس کوسٹر اور چھوٹی گاڑیوں کے علاوہ اسلام آباد سے گلگت اورسکردو کے لیئے روزانہ کی بنیاد پر پروازیں دستیاب ہیں۔ گلگت سکردو اور ہنزہ میں فائیور سٹارز ہوٹل کے علاوہ متعدد ہوٹلز ریسٹورنٹس اور گیسٹ ہاؤسز دستیاب ہیں۔
مشہور سیاحتی مقامات میں کے ٹو ۔ نانگاربت اور دیگر چوٹیوں کے علاوہ۔ کچورہ جھیل۔ عطاآباد جھیل۔ سدپارہ جھیل۔ ژربہ تسو جھیل ۔ بوریت جھیل۔ شنگریلا استراحیہ۔ ۔ دیوسائی نیشل پارک۔ راما۔ فیری میڈوس۔ بالتورو گلیشئر۔ بیافو گلیشئر۔ التت قلعہ۔ بلتت قلعہ۔شگر فورٹ۔ گانچھے فورٹ۔ خنجراب ۔ بابوسر ٹاپ۔ خپلو کی قدیم مسجد چقچن اسکے علاوہ ضلع غذر میں۔گاہکوچ بالا۔ وادی یاسین۔ خلتی جھیل۔ پھنڈر ۔ شندور ٹاپ اور گلگت کے نواح میں نلتر قابل ذکر سیاحتی مقامات ہیں۔
گلگت بلتستان کے مشاہیر:-
۱۔کرنل مرزا حسن خان۔ تحریک آزادی گلگت کے ہیرو۔ تعلق 6 انفنٹری جموںو کشمیر سٹیٹ سے تھا۔جنہوں نے بطور کیپٹن 1947 میں بونجی کے مقام پر اس تحریک اور جنگ کا آغار کیا۔ یہ ایک عظیم لیڈر اور جنگ جو تھے۔انہوں نے 19 نومبر 1983 کو انتقال کیا اور چنار باغ گلگت میں دفن ہیں۔
۲۔ گروپ کیپٹن (ر)شاہ خان۔ انہوں نے گلگت سکاوٹس سے اپنےکیرئیرکا آغاز کیا۔ ڈوگرہ راج کے خلاف لڑے۔ بعد میں پاکستان ایئر فورس سےبطور گروپ کیپٹن ریٹائر ہوئے۔وہ 19 نومبر 2016 کو فوت ہوئے اور چنار باغ ہی میں مدفون ہیں۔
۳۔گوہر امان ۔یہ بھی ایک فوجی کمانڈر تھا۔1809 عیسوی میں پیدا ہوا تھا۔ تعلق وادی یاسین موجودہ ضلع غذر سے تھا۔داریل اور تانگیر میں سکھوں اور ڈوگرا راج کے ساتھ لڑا راجہ بھوپ سنگ کی فوج کو شکست دی۔ یہ 1841 سے 1860تک علاقہ کا حکمران رہا۔ اس کے مرنے کے بعد ڈوگرا فوج نے دوبارہ گلگت پر قبضہ جمالیا۔
۴-علی شیر خان آنچن۔ بلتستان کا ایک حکمران(1590 -1625) جو علی رائے۔ رائے علی میر علی ۔ علی میر راجہ شیر اور عل زید کے ناموںسے مشہور تھا۔جس نے اپنی حکمرانی کو لداخ سےمشرق میں تبت اور مغرب میں غذر اور چترال تک بڑھایا۔ لداخ کو فتح کرنے کے بعد اس نے کارگل اور دراس میں بلتی کلچر کو فروغ یار۔ سکردو کا مشہور قلعہ کھڑپوچو تعمیر کروایا۔یہ تیسرا مقپون حکمران تھا۔ تعلق سکردو سے ہی تھا۔ جوانی میں اپنے دوستوں کے ساتھ دہلی گیا۔ اکبری دور میں ایک شیر کا شکار کیا۔ اکبر نے اس شجاعت پر فوج میں کمانڈر بنا دیا۔ دہلی میں ہی شاہی خاندان میں شادی کی۔ کشمیر کی فتح پر اپنے وطن واپس آیا۔ اس نے کئی آبی گذرگاہیں جیسے ہرگیسا کچورا نالا۔ کچورا جھیل۔ سدپارہ بند ۔ کشمارا کچورا کشتی رانی کا سپاٹ ۔ یہ آبی گذر گاہ آبپاشی اور تفریحاتی سرگرمیوں کے لئے ہے۔
۵۔میجر بابر خان۔ معرکہ بونجی کے ایک اہم ہیرو اور کیپٹن مرزا حسن خان کے ساتھی۔ جنہوں نے ڈوگرا راج کے گورنر بریگیڈئر گھنسارا سنگھ کو 31 اکتوبر کی رات گرفتار کیا تھا۔چنار باغ میں مدفون ہیں۔
کرنل متا المک۔ انڈین نیشنل آرمی کو جوائن کیا۔ سنگاپور اور برما میں خدمات سر انجام دیں۔ چترال سکاؤٹس کے کمانڈر رہے۔ تحریک آزادی گلگت بلتستان میں اہم کردار ادا کیا۔ سکردو میں سکھ فوج کو شکست دی۔
۶۔عبدالرحمان چاچا عبدو۔ ان کا تعلق گاؤں گوما ضلع گانچھے سے ہے۔یہ بلتستان کے وہ ہیرو ہیں جنہوں نےسیاچن گلیشئر کی انتہائی بلندی پر خون جما دینے والی سردی میں انڈین ایئر برون ٹروپس کو روکا۔ افواج پاکستان کو بر وقت اطلاع دی۔ آرمی کا وہاں کیمپ کروایا۔ SSG کو گائیڈ کیا۔ 1982-1984 میں وہا ں فوج کا ٹھکانا مضبوط کروایا۔ 2013 میں جب ایک فوجی بیس کیمپ کے لوگ برف میں دب گئے اس وقت بھی ان کی خدمات لی گئیں۔ انہیں ستارہ شجاعت سے نوازا گیا۔ ان کے جسد خاکی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا گیا۔
۷۔حولدار لالک جان ۔ ان کے تعلق ناردن لائٹ انفنٹری سے تھا۔ معرکہ کارگل میں انہوں نے بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے جام شھادت نوش کیا۔ دفاع وطن اور حب الوطنی کے اس کارنامہ پر ان کو نشان حیدر عطا کیا گیا ہے۔ ان کا تعلق گاؤں ہندر وادی یاسین ضلع غذر سے ہے۔اور اپنے آبائی گاؤں میں ہی مدفون ہے۔ راقم کو2003 میں ان کے مزار پر حاضری ان کے بچوں اور ان کے والد نیت جان سےملاقات کا شرف حاصل ہوا۔
ضلع غذر کا شائد ہی کوئی گاؤں ایسا ہو جہاں سبز ہلالی پرچم کےسائے میں کسی شھہیدکی قبر دیکھنے کو نہ ملے۔
۸۔میجر محمدعبدالوہاب ۔ یہ بلوچ رجمنٹ کے آفیسر تھے۔ تعلق استوروادی سے تھا۔ 1999 کی کارگل جنگ میں۔ دشمن سے دست بدست بھی لڑے۔ اپنی پوسٹ کا مرتے دم تک دفاع کیا۔ دشمن کی بھاری ہتھیاروں کا سامنا کیا۔ راکٹ لانچر کی فائرنگ میں شدید زخمی ہوئے۔ دشمن کا تن تنہا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ دشمن کو بلندی سے بھاری چٹانوں اور وزنی پتھروں سے بھی کچلا۔ مرتے دم تک اپنی اسٹین گن لئے ٹوٹی ٹانگ کے ساتھ چٹان پر بیٹھ کر دشمن کو للکارتا رہا۔ اسی اثنا میں شہادت ہوئی۔ جسد اطہر تا حال انہی چوٹیوں پر ہے۔انہیں ستارہ جرات اور تمغہ بسالت عطا کیا گیا۔
تاریخ کے اوراق میں سر زمیں گلگت اور بلتسان کے ایسے انگنت شہیدوں اور غازیوں کے کارناموں سے بھرے پڑے ہیں۔ جن کا یہاں بیان نا ممکن ہے۔
سپورٹس ہیرو۔
جنگی مشاہیر کے علاوہ کھیل کے میدان میں بھی گلگت بلتستان کے کھلاڑیوں اور کوہ پیماؤں نے عزم ہمت اورجوان مردی کا ایک باب رقم کیا ہے۔ ذیل میں ایک مختصر فہرست پیش کی جا رہی ہے۔
۱۔اشرف امان۔مشہور ومعروف کوہ پیما جنہوں نے پہلی بار کے ٹو سر ک کیا
۲۔ثمینہ بیگ۔ پہلی پاکستانی خاتون جس نے ماؤنٹ ایورسٹ اور سات بڑی چوٹیاں سر کیں۔
۳۔نذیر صابر۔ پہلا پاکستانی جس نے ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کیا۔
۴۔رحیم اللہ بیگ۔ 2012 میں کوریامیں اولمپک سنو شوؤنگ میں دو طلائی تمغے حاصل کئے۔
۵۔ احمد علی۔ باکسر۔ سیف گیم میں طلائی تمغہ اور عالمی فوجی کانسی کا تمغہ۔
۶۔رجب شاہ۔ کوہ پیما ہیں اور پانچ چوٹیاں سر کر چکے ہیں۔
۶۔ حسن سدپارہ۔ کوہ پیما۔ پہلے پاکستانی جو آٹھ ہزار میٹر سے بلند چھ بڑی چوٹیاں سر کرچکے۔
۷۔ کرنل ریٹائرڈ شیر خان۔ کوہ پیما ہیں۔ چار پاکستانی چوٹیاں سر کرچکے۔ کےٹو اور ایورسٹ کی مہم میں خراب موسم کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکے۔
۸۔ناصر حسن سدپارہ۔ نوجوان کوہ پیما۔ کےٹو سر کیا۔ تمام پاکستانی چوٹیوں کی سکیلنگ کی۔2012 میں گشہ بروم (8080 میٹر) چڑھتے ہوا لاپتہ ہوگیا۔ اور بعد ازاں مرحوم متصور ہوا۔ صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔
۹۔محمد علی سدپارہ۔ پانچ پاکستانی بڑی چوٹیاں سر کیں۔ موسم سرما میں نانگا پربت کی چوٹی پر گیا۔45 سالہ محمد علی فروری 2021 میں کےٹو کی bottleneck پر اچانک لاپتہ ہو گیا۔ اور مرحوم متصور ہوا۔
۱۰۔مرزا علی۔ ثمینہ بیگ کا بھائی۔ سوشل ورکر۔ فوٹوگرافر۔ حقوق نسواں کا علمبردار۔ کوہ پیما ۔ 7000 میٹر سے کم کئی چوٹیاں سر کر چکا ہے۔ملک میں ایڈونچر سپورٹس کو فروغ دے رہا ہے۔
۱۱۔ڈیانا بیگ۔ اتھلیٹ ہیں۔پاکستان خواتین کرکٹ اور فٹبال کی ٹیم ممبر ہے ۔ بین الاقوامی کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔
۱۲۔ولی سسٹرز۔ عرفہ ولی اور آمنہ ولی سکنگ میں بین الاقومی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ملکی سطح پر کامیابی حاصل کر چکیں۔

۱۳۔ پرویز احمد۔ ڈاؤن سینڈروم کا مریض ہے۔ سپیشل ونٹر اولمپک میں تین سلور میڈل لے چکے ہیں ۔ سنوشوئنگ میں بھی تمغے لئے۔
۱۴۔تہمینہ اور حمیزالدین۔ بہن بھائی۔سرمائی اولمپک کھیلوں میں حصہ لیا۔ تہمینہ نے کانسی تمغہ جیتا۔
۱۵۔ جاوید رحمت کریم۔ تائی کوانڈو کاکھلاڑی۔ بین الاقوامی مقابلوں میں سات گولڈ میڈل اور کئی دوسرے سلور تمغے لے چکے ہیں۔ پاکستان میں نیشنل تائیکوانڈو ٹیم کو لیڈ کر رہے ہیں۔
۱۶۔مالِک نور۔ پاکستان ویمن فٹ بال کی وائس کیپٹن رہیں۔
۱۷۔محمد عباس۔ سیکنگ کےکھلاڑی ہیں ۔ونٹر اولمپک 2012 میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔
۱۸۔محمد کریم۔جنوبی ایشیائی سرمائی کھیلوں کا مقابلہ بمقام انڈیا 2011 میں حصہ لیا۔2013 /2014 میں FIS مقابلوں منعقدہ ایران و ترکی میں حصہ لیا۔دیگر متعدد مواقع پر ایشین ونٹر گیمز میں پاکستان کا نام روشن کیا۔
۱۹۔ علومی کریم شاہین۔ مارشل ارٹس کے مایہ ناز کھلاڑی ۔ انڈیا میں یادوندرسنگھ کو ہرانا اس کی اہم کامیابی تھی۔اس کے علاوہ دیگر کئی ملکوں میں کھیل کر آئے۔
دیگر شعبوں میں گلگت بلتستان کےکارہائے نمایاں۔
۱۔سرکاری اور این جی او " الائٹ "کے تعاون سے پرائمری سطح تک بچوں کو ریڈیو اور ایف ایم چینل سے تعلیم و تربیت کا بندوبست۔
۲۔چلاس سے تعلق رکھنےوالے26 سالہ ڈاکٹر اسامہ ریاض نےکووڈ 19 کے مریضوں کےعلاج میں مصروف رہتے ہوئے اپنی جان قربان کردی۔ حکومت کشمیر نے بعد ازاں انہیں نشان کشمیر سے نوازا۔
۳۔ اسطرح 50 سالہ میل نرس ملک اشتر بھی اپنے نا مناسب لباس اور دیگر حفاظتی سازو سامان کی عدم دستیابی کی وجہ سےمریضوں کی خدمت کرتے ہوئے کوویڈ 19میں مبتلا ہوکر جان گنوا بیٹھے۔
۳۔ AKDN۔ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک جس کی کئی ذیلی شاخین گلگت بلتستان اور چترال میں کام کر رہیں۔ ان میں تعلیم صحت۔ زراعت ۔ کلچر ۔ حصول رزگار اور حصوصاً خواتین کی ترقی اور دستکاری و ہنر مندی اس کے کارہائے نمایاں ہیں۔ علاقہ میں سکولوںاور مراکز صحت کی ایک مربوط چین موجود ہے۔
 

Sibtain Zia Rizvi
About the Author: Sibtain Zia Rizvi Read More Articles by Sibtain Zia Rizvi: 24 Articles with 14887 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.