ظریفانہ: پہلی بار ،غرور چکنا چور


دبئی کرکٹ اسٹیڈیم سے نکلتے ہوئے جمن حیدرآبادی نے کہا یار آج تو سب کچھ توقع کے خلاف ہوگیا ۔
للن دوبیاّ بولا ایسی کیا بات ہے؟ کھیل میں تو کچھ بھی ہوسکتا اور کرکٹ کے بارے میں تو کوئی پیشنگوئی ممکن ہی نہیں ہے۔
کلن بمبیاّ نے تائید کی ہاں بھئی جمن اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟
جمن :دیکھو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جب میں گھر سے بغیر ٹکٹ کے چلا تو مجھے امید نہیں تھی کہ اسٹیڈیم میں داخلہ ملے گا۔
کلن:ہاں یار ،میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میری تم سے ملاقات ہوجائے گی ۔
للن : جی ہاں کل صبح میں نے ایک کے بجائے پانچ ٹکٹ بک کرلیے تو سوچا کیوں نہ ممبئی سے کلن کو بلا لیا جائے۔
جمن : یہی تو مسئلہ تھا کہ تم جیسے لوگوں نے ضرورت سے زیادہ ٹکٹ مختص کرلیے اور ہم جیسے محروم رہ گئے۔
کلن : یار مجھے تو ایسا لگا کہ اسٹیڈیم میں 90 فیصد سے زیادہ ہندوستانی لوگ تھے۔ بیچارے پاکستانیوں کوتو وہاں آنے کا کم ہی موقع ملا ۔
للن : ایسا ہی کچھ اخبار میں بھی چھپا ہے پر کیا کریں اتنے سالوں کے بعد انڈیا پاکستان آمنے سامنے آئے تو دل بے قابو ہوگیا۔
کلن : چلو اچھا ہی ہوا۔ اس بہانے مجھے دبئی گھومنے کے لیے آنے کا موقع مل گیا اور جمن سے بھی اتفاقی ملاقات ہوگئی۔
جمن :جی یہ ملاقات بھی توقع کے خلاف تھی۔ میرا خیال ہےہاسٹل سے نکلنے کے بعد ہم تینوں پہلی بار ایک ساتھ ملے ہیں ۔
کلن :جی ہاں یہ تو اچھا ہوا لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آخر اس للن کو اتنا جوش کیوں آگیا ؟
للن: یار مجھے یقین تھا کہ آج ہندوستان جیت جائے گا اسی لیے میں نے سوچا چلو دوستوں کو جمع کرکے جشن منائیں لیکن اس جمن کا فون ہی نہیں لگا۔
جمن : یہ خوب ہے کہ ممبئی میں بیٹھے کلن کا فون لگ گیا اور دبئی کے اندر میرا نہیں لگا۔
کلن : یار لڑائی جھگڑے سے کیا فائدہ ؟ فون نہیں ملا پھر بھی ہم لوگ تو مل ہی گئے لیکن اس للن کے یقین کی وجہ اب بھی سمجھ میں نہیں آئی۔
للن : ارے بھائی اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ پہلی تو یہ کہ ورلڈ ٹوینٹی کپ میں آج تک پاکستان کبھی بھی ہندوستان کو شکست نہیں دے سکا۔
کلن: اچھا تو کیا 29 ؍سالوں میں پہلی بار ہندوستان کو شکست ہوئی ہے۔
جمن : یار یہ مودی یگ ہے ۔ اس میں بہت کچھ پہلی بار ہوتا ہے تو اس فہرست میں یہ بھی سہی ۔
کلن : تب تو پردھان جی کو اپنی روایت کے مطابق مبارکباد دینی چاہیے تھی ۔
للن : ہاں یار مگر نام سے گڑبڑ کردی ۔
جمن : جی ہاں بابر اعظم کا نام اگر اکبر اعظم ہوتا تو ممکن ہے وزیر اعظم فراخدلی کا مظاہرہ کرتے۔
للن : میرے یقین کی ایک وجہ آسٹریلیا اور انڈیا کے وارم اپ میچ میں بھارت کی زبردست کامیابی بھی تھی۔
کلن : بھائی جمن اس کے بعد تو تمہارے انضمام الحق نے بھی کہہ دیا تھا کہ اس بارچمپین شپ بڑا دعویدار انڈیا ہے ۔اس کی ٹیم بہت مضبوط ہے۔
جمن : بھائی میں سندھ کے نہیں بلکہ دکنی حیدر آباد کا رہنے والا ہوں ۔ اس لیے انضمام الحق میرا کیسے ہوگیا؟
کلن : بھائی انضمام کا تعلق کسی ایک ملک سے تھوڑی نا ہے ۔ اس کے چاہنے والے تو دنیا بھر میں پھیلے ہیں ۔
للن : میرے یقین کا ایک سبب ذرا مختلف تھا میں نے سوچا کہ وزیر داخلہ نے شبھ مہورت نکال کر اپنا کشمیر کا دورہ طے کیا ہوگا ۔
جمن : لیکن امیت شاہ کے دورے کا اس میچ سے کیا تعلق ؟
للن : کیوں نہیں تعلق ؟ جو مہورت شاہ جی کے لیے شبھ ہو وہ انڈین ٹیم کے لیے کیسے منحوس ہوسکتا ہے؟
کلن :دیکھو بھائی للن فی الحال شاہ جی کے ستارے گردش میں ہیں ۔ ان کی نہ بنگال میں چلی اور نہ اترپردیش میں چل رہی ہے۔
للن : یار لیکن باپ کے ساتھ بیٹے کا بھی ستارہ گردش میں چلا جائے یہ ضروری تو نہیں؟
جمن : یہ باپ بیٹے درمیان میں کہاں سے آگئے؟
کلن : اوہو جمن تمہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ فی الحال ہندوستانی کرکٹ بورڈ کا سربراہ امیت شاہ کا بیٹا اجئے شاہ ہے ۔
للن : اچھا اسی لیے اس کو اب تک نہیں بدلا گیا ؟ اگر ہم جیسے کسی عام آدمی کا بیٹا سربراہ ہوتا تو اس کی چھٹی کردی جاتی۔
کلن : ہاں یار بلی کا بکرا تو ہمیں بنتے ہیں۔ ان بڑے لوگوں کا بال بیکا نہیں ہوتا۔
جمن :میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آخر اجئے شاہ کا کرکٹ بورڈ میں کیا کام ؟ اس نے تو کبھی ٹھیک سے بلہّ بھی نہیں پکڑا ہوگا؟
کلن:میں نے سنا ہے وہ بہت کچھ کرتا ہے مثلاً اس نے آئی پی ایل سے پاکستانی کھلاڑیوں کا پتہّ صاف کردیا تاکہ انہیں تجربے سے محروم رکھا جاسکے ۔
للن : بھائی آئی پی ایل میں تجربہ اور شہرت کے علاوہ دولت بھی بہت ہے۔ پاکستانی کھلاڑی سے وہ سب بھی چھین لیا گیا ۔
کلن :میں نے تو سنا ہے کہ اسی نے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے پاکستانی دورے بھی منسوخ کروادئیے تاکہ پاکستان کرکٹ بورڈ قلاش ہوجائے۔
جمن : اچھا تب تو یہ اپنے باپ سے بھی زیادہ خطرناک لگتا ہے۔ اسے ملک کا وزیر خارجہ بنادینا چاہیے۔
کلن : یار ہم لوگ بھی بلاجہ کھیل کا میدان چھوڑ کر سیاست کے دنگل بلکہ دلدل میں چلے گئے ۔ اس کو چھوڑو اور کھیل سے مطلب رکھو۔
للن : کھیل کی بات کریں تو ہار جیت سے ہٹ کر مجھے کڑے مقابلے کی امید تھی لیکن یہ میچ تو یکطرفہ ہوگیا بالکل مزہ نہیں آیا ۔ کہیں سانس نہیں رکی۔
کلن : جی ہاں یہ دیکھو اس خبر پرروزنامہ بھاسکر نے اپنے پورٹل پر کیا سرخی لگائی ۔ لکھا ہے ’ہمارا غرور، چکنا چور‘
للن : یہ ہمارا نہیں بلکہ جئے شاہ کا غرور ہے جو چکنا چور ہوگیا۔
جمن : یہ انڈین ایکسپریس کا کارٹون بھی دیکھ لو ۔ امیت شاہ ایک بچے سے پوچھ رہے ہیں کیوں بھائی انٹرنیٹ تو ٹھیک ہے نا میچ دیکھنے دقت تو نہیں ہوئی؟
کلن : بھائی مجھے تو یہ میچ دیکھ کر شعلے فلم کا ایک ڈائیلاگ یاد آگیا ۔
للن : کون سا ڈائیلاگ بھائی ؟
وہی کتنے آدمی تھے ۔ وہ تین اور تم گیارہ پھر بھی واپس آگئے ۔ کیا سوچا سردار خوش ہوگا شاباشی دے گا؟
جمن : ہاں یار بابر، رضوان اور شاہین ۔ یہ تین ہی ہمارے لیے کافی ہوگئے۔
للن : یار اس بابر نے تو اکبر اعظم کے دادا کی یاد دلا دی ۔ ایسا لگتا ہے کہ تاریخ نے اپنے آپ کو دوہرا یاہے۔
کلن : مجھے تو لگتا ہے بابر نے گبر کی طرح شاہ رخ خان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا بھی بدلہ لے لیا۔
جمن : اس میں شاہ رخ کہاں سے آگیا بھیا؟
کلن : تم نے نہیں سنا اسی دبئی میں سمیر وانکھیڈے نے رشوت کا چیک طلب کیا تھا لیکن بابر اعظم نےوہیں ’ چک ‘دیا ۔
للن : خیر یہ تو پہلا میچ تھا ٹورنامنٹ ابھی باقی ہے ۔
جمن بولا جی ہاں بھائی :
ستاروں کے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1459346 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.