پرچم لہرانے سے لاش لٹکانے تک ندامت ہی ندامت

پچھلے دس ماہ سے جاری کسان تحریک ایسا لگتا ہے کہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہونے جارہی ہے۔ کسان رہنما راکیش ٹکیت کے حالیہ بیان سے اس کا اشارہ ملتا ہے ۔ انھوں نے ابھی حال میں پھر ایک بار حکومت کے ساتھ ہمہ گیر جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والی بھارتی کسان یونین (بی کے یو) کے قومی ترجمان نے مرکز کو خبردار کیا ہے کہ اگر کسانوں کو سرحدوں سے زبردستی ہٹانے کی کوشش کی گئی تو وہ ملک بھر کے سرکاری دفاتر کو غلہ منڈیوں میں تبدیل کردیا جائے گا۔ انہوں نےحکومت کو دھمکی دیتےہوئے کہا کہ وہ ہٹ دھرمی ترک کرے ورنہ جدوجہد تیز ہو جائے گی ۔ ٹکیت نے یہ کڑا رخ اس لیے اختیار کیا کیونکہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ انتظامیہ جے سی بی کی مدد سے کسانوں کے خیموں کو گرانے ہر غور کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو کسان پولیس اسٹیشنوں، ڈی ایم آفسوں میں اپنے خیمے لگائیں گے۔ایسا ہوگیا تو حالات دگر گوں ہوجائیں گے ۔ ٹکیت نے للت پور کے کسان رگھویر پٹیل کی کھاد نہ ملنے کے سبب خودکشی کا حوالہ دے کر کہا کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں کسانوں کو خودکشی کے اندھے کنویں میں ڈھکیل رہی ہیں۔

یوم ِ جمہوریہ بھی یوم آزادی کی مانندقومی دن ہے۔ ایک قوم پرست حکومت کے نزدیک اس کا تقدس غیر معمولی ہونا چاہیے لیکن چونکہ سنگھ قومی دستور سے کسی قسم کی عقیدت نہیں رکھتا اور اسے بدلنے پر تُلا ہوا ہے اس لیے اس کے نفاذ کا دن بھلا کس اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے ؟ اس کے باوجود یوم جمہوریہ کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل پر قومی پرچم کے بجائے سکھوں کے مذہبی جھنڈے نشان صاحب کا لہرایا جانا پورے ملک کے لیے شرمندگی کا باعث تھا۔ اس توہین کو روکنے میں ناکامی کے لیے وزیر داخلہ کا استعفیٰ لیا جانا چا ہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ امسال یومِ جمہوریہ کےموقع پرکسانوں نے دہلی میں داخل ہوکر ٹریکٹر پریڈ کا اعلان کیا۔ انتظامیہ نے پہلے تو روکا اور پھر جھک کرکچھ خاص راستوں پر جلوس نکالنے کی اجازت دے دی ۔ اس میں لال قلعہ شامل نہیں تھا پھر بھی گودی میڈیا نے یہ خبر گرم کردی کہ کسان وہاں پہنچ کر یوم جمہوریہ کی تقریبات میں خلل ڈالیں گے۔ یہ دراصل ماحول سازی کا سامان تھا۔

26؍ جنوری کو کسانوں نے جب دہلی کی سڑکوں پر ٹریکٹر پریڈ نکالی تو اس میں کچھ شر پسند عناصر نے رہنماوں کے ہدایات سے انحراف کرکے ہنگامہ آرائی شروع کردی۔ وہ لوگ پہلے تو پولس سے بھڑ گئے پھر لال قلعہ پہنچ کر سکھوں کا مذہبی پرچم جو اتفاق سے خالصتان کا جھنڈا بھی ہے فصیل کے گنبد پرلہرا دیا ۔ اس دوران لال قلعہ کے احاطہ میں تشدد بھی ہوا جسے کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کرلیا۔ اس موقع پر پولس کا تقریباً خاموش تماشائی بنا رہنا حیرت انگیز تھا مگر کوئی بھی میڈیا اس سازش کا پردہ بروقت فاش نہیں کرسکا۔ حکومت نے راج دیپ سردیسائی سمیت کچھ بڑے صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے خوف و ہراس کا ماحول بنا دیا ۔ اسی کے ساتھ بنگلور کی طالب علم دشا روی کا شوشہ چھوڑ کر میڈیا کی توجہ نفسِ مسئلہ سے ہٹا دی گئی اور ہر کوئی نام نہاد ٹول کِٹ میں الجھ کر پرچم لہرانے کے معاملے کو بھول گیا ۔

دہلی پولیس نےبڑی چالاکی سے اس سانحہ کو سکھ فار جسٹس سے جوڑ دیا ۔ 11؍ جنوری کواس کینیڈین تنظیم کی آن لائن میٹنگ میں انڈیا گیٹ اور لال قلعہ پر خالصتانی پرچم لہرانے والے شخص کو انعام دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ دشا روی پر کسانوں کی تحریک کی حمایت میں بنی ٹول کٹ میں ترمیم کرنے اور اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کا الزام لگاکر بین الاقوامی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ کو بھی سازش کا حصہ بتایا گیا۔ انتظامیہ نے اس ٹول کٹ کو بغاوت کا سبب بننے والی دستاویز قرار دے کر آئی پی سی کی دفعہ 124 اے ، 153 اے ، 153 ، 120 بی کے تحت مقدمہ درج کرلیا ۔ اس کے باوجو دشا روی کو 23؍ فروری کے دن ایک لاکھ کے مچلکے پر ضمانت مل گئی اور سارا معاملہ رفع دفع ہوگیا ۔ دشا کے چھوٹنے کا مودی سرکار کے مخالفین نے بڑا جشن منایا مگر وہ بھول گئے کہ اس خیالی سازش کی آڑ میں اصلی سازش کو چھپا یا جا چکا تھا۔ ایک سال بعد اب پولس اس کیس کو بند کرنے جارہی ہے کیونکہ اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔

دشا روی کا معاملہ ٹھنڈا ہوا تو دہلی کی عدالت میں 8؍ اپریل 2021کو لال قلعہ پر پرچم لہرانے کا مقدمہ زیر سماعت آیا ۔اس کے اندر تشدد کے الزام میں گرفتارپنجابی اداکار دیپ سدھو کی ضمانت زیر بحث تھی۔ اس دوران دیپ سدھو نے وکلا کے توسط سے عدالت کو بتایا کہ پرچم لہرانا کوئی جرم نہیں ہے۔ اس نے فیس بک پر اسے لائیو کرنے کی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ہر غلطی جرم نہیں ہوتی ۔ اس طرح ایک بہت بڑے جرم کو عدالت میں معمولی بھول چوک میں بدلنے کی کامیاب کوشش کی گئی ۔ اس مضحکہ خیزدلیل کو سن کرخصوصی جج نیلوفر عابدہ پروین نے سماعت کو 12؍ اپریل تک ملتوی کردیا تاکہ اسے ٹال کر ٹھنڈا کیا جاسکے۔اس کے صرف چار دن بعد یعنی 16؍ اپریل کو سدھو کی ضمانت منظور ہو گئی مگر پھر آثار قدیمہ کے محکمہ (اے ایس آئی) کے ذریعہ درج شدہ ایف آئی آر کی بنیاد پر ا سے دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ اس دوسری گرفتاری نے رہائی کا غم تو غلط کیا مگر اب مقدمہ خاصہ کمزور ہوچکا تھا ۔

مخالفت کو کم کرنے کے اس حربے کے دس دن بعد موقع پا کر 26؍ اپریل کو میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ ایم ایم ساحل گپتا نے سدھو کو 25 ہزار روپے کے ذاتی مچلکے اور اتنی ہی ضمانتی رقم پر رہا کردیا۔ یعنی دشا روی کے لیے توایک لاکھ کا مچلکہ جبکہ وہ بنگلورو میں تھی اور لال قلعہ پر موجود دیپ سدھو کے لیے ایک چوتھائی رقم! اس کا جواز پیش کرتے ہوئے عدالت نے بتایاکہ ’’ملزم سے 14 دن پولیس تحویل میں تفتیش کی گئی ہے اور وہ تقریباً 70 دنوں سے حراست میں ہے۔‘‘ ایڈیشنل سیشن جج نے ملزم کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسے مزید آزادی سے محروم رکھنا نہ تو منطقی ہے اور نہ ہی قانونی۔‘‘ یہ معاملہ اس شخص کے ساتھ کیا گیا جس نے یوم جمہوریہ کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل کے اوپر خالصتانی پرچم لہرا نے میں حصہ لیا تھا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بے قصور صدیق کپن پر یو اے پی اے لگانے والی سرکار نے دیپ سدھو کے ساتھ کمال نرمی کا مظاہرہ کیا کیوں کہ وہ اس کا اپنا آدمی تھا اور اسی کی ایماء پر یہ سب کیا گیا تھا۔

اس دوران دیپ سدھو کی تصاویر نہ صرف پنجاب کے بی جے پی رکن پارلیمان سنی دیول بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ذرائع ابلاغ کی زینت بن گئی ۔ اس سے صاف ظاہر ہوگیا کہ اس کالی بھیڑ کو ایک سازش کے تحت کسان تحریک میں اسے بدنام کرنے کی خاطر بھیجا گیا اور جب وہ ناکام ہوگئی تو اسے بچالیا گیا۔دیپ سدھو تو خیر ایک فلمی اداکار ہے لیکن اس سازش کو بروئے کار لانے کی خاطر ایک پیشہ ور مجرم لکھا سدھانہ کی بھی خدمات حاصل کی گئیں۔ امیت شاہ کی دہلی پولیس اس پر الزام لگایا کہ لکھبیر سنگھ عرف لکھا سدھانا پنجاب کا ایک گینگسٹر ہے۔ لکھاسدھانہ پر اشتعال انگیز تقریر کرکے لوگوں کو اکسانے کا الزام بھی لگایا گیا۔ پولیس کے مطابق دیپ سدھو نے جب 25 ؍جنوری کو سنگھو سرحد پر اشتعال انگیز تقریر کی تھی، تواس وقت لکھا سدھانا بھی وہاں موجود تھا ۔

لکھاسدھانا کے ضمانت کی درخواست جب عدالت میں سماعت کے لیے آئی تو پولس نے اس کی مخالفت میں کہا کہ سدھانا نے مظاہرین کو لال قلعہ میں گھسنے پر اکسایا تھا اور وہ(ملزم) اس کیس کے اہم ساز ش کنندگان میں سے ایک ہے۔ ان سنگین الزامات کے باوجود اس قومی سانحہ کے پانچ ماہ بعد 17؍ستمبر کو خاموشی کے ساتھ دہلی کی روہنی عدالت نے لال قلعہ تشدد کے اس مرکزی ملزم کی پیشگی ضمانت منظور کر لی ۔اس کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل نے عدالت میں ڈھٹائی سے کہا کہ وہ تفتیشی ایجنسی کے ساتھ مکمل تعاون کر رہاہے ۔ لکھبیر کے ساتھ عدالتی بے بسی کی بنیادی وجہ اس کے تئیں انتظامیہ کی نرمی تھی۔ اس قدر سنگین ملزم پر یو اے پی اے کا نہ لگنا اور پیشگی ضمانت کا بہ آسانی مل جانا چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ یہ عنایت سرکاری سرپرستی کے سبب ہے۔ بھلا ہو کسان تحریک کا کہ وہ اس زبردست سازش کے چنگل سے بچ کر نکل گئی۔ اس کے باوجود یہ بات تسلیم کرنی ہی ہوگی کہ لکھبیر اور دیپ سدھو کے معاملے میں حکومت کی جس طرح گھیرا بندی ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوسکی اور باغی میڈیا سرکار کی خاطر خواہ سرزنش نہیں کرسکا۔ اس کے بعد نہنگوں کے ذریعہ کسان تحریک کو بدنام کرنے کی دوسری سازش میں جسے آلۂ کار کے طور پر استعمال کرکے ہلاک کیا گیا اس کا نام بھی لکھبیر سنگھ تھا۔
(۰۰۰۰۰۰۰دوسرے لکھبیر سنگھ کی کہانی اگلی قسط میں جاری )

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451056 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.