کہنے کو تو پیارا پاکستان ہم سب کا ہے، اور ہم سب
پاکستانی کہلاتے ہیں، مگر حقیقت میں ہر طبقے کا پاکستان اپنا اپنا ہے۔
بیوروکریسی کسی اور پاکستان میں رہتی ہے تو شہروں کے مضافا ت میں کچی
آبادیوں کے غریب رہائشی کسی اور ہی پاکستان کے باسی ہیں، سیاستدانوں کا
طرزِ بود وباش اور ہے، انہیں ووٹ دیکر ایوانوں تک پہنچانے والوں کا معاملہ
کوئی اور۔ اسی باریکی کو بڑی وضاحت اور حسنِ خوبی سے ڈاکٹر منصور احمد
باجوہ نے اپنے کالموں میں بیان کیا ہے، کالموں کا مجموعہ کتابی شکل میں
ہمارے سامنے ہے، عنوان ہے ’’اپنا اپنا پاکستان‘‘۔ کتاب میں شامل ان کے پہلے
کالم کا عنوان بھی یہی ہے۔ کالم اگرچہ پاکستان کے حقیقی مسائل کے بارے میں
ہیں، مگر اُن پر طنزو مزاح کے ’تڑکے‘سے قاری بے اختیار مسکرانے پر مجبور ہو
جاتا ہے۔ بعض جملے تو باقاعدہ ’’اقوالِ زرّیں‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔ اردو
کے زوال پر بھی تین کالم ’’اردو ہے جس کا نام‘‘، ’’کہ آتی ہے اردو زبان آتے
آتے‘‘ اور ’’مسئلہ انگریزی کا‘‘ کتاب میں شامل ہیں۔ اردو کی اِملا اور
قواعد وغیرہ پر بھی انہوں نے گہری نظر رکھی ہے، ان چیزوں کی خلاف ورزی
اخبار میں ہو، یا ٹی وی چینلز پر، مصنف نے گرفت کی ہے اور انہیں آڑے ہاتھوں
لیا ہے۔
مصف نے چونکہ سول سروس میں ہی زندگی گزاری ہے، اس لئے بیوروکریسی کے رمُوز
سے خوب واقف ہیں،۔ ’’ہدایت نامہ برائے نوواردانِ سروسِ اعلیٰ‘‘ کے عنوان سے
بیوروکریسی کی عادات وخصائل کو بہت دلنشین انداز میں پیش کیا ہے۔ پورا کالم
ہی پڑھے جانے کے قابل ہے، نمونے کے چند جملے ملاحظہ فرمائیے، ’’․․․․ بس یوں
سمجھئے کہ اس سروس میں آنے کے بعد آپ پورے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن
گئے ہیں ․․․آپ کی زبان سے نکلا ہوا ایک حرفِ جہالت ، بڑے بڑے داناؤں اور
دانشوروں کی ، عقل ودانش سے بھری ، لمبی لمبی تقریروں پر بھاری ہوگا، ساری
دنیا آپ کی طرف دیکھے گی، آپ صرف اپنے گریڈ کی طرف دیکھیں گے․․․‘‘’’․․یہ
بات ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ آپ، اگر دنیا کی نہیں تو کم از کم پاکستان کی
اعلیٰ ترین مخلوق ہیں، آپ کے مقابلے میں دیگر ملازمینِ سرکار عام طور پر
اور عام مخلوقِ خدا کی خاص طور پر، حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ کچھ بھی
نہیں، سو اُن سے وہی سلوک روا رکھیں، جو کیڑوں مکوڑوں کے مقدر میں لکھ دیا
گیا ہے․․‘‘’’․․ ہمیشہ سر اٹھا کر ، چھاتی پھلا کر اور بازو پھیلا کر، سراپا
افتخار، تکبر اور نخوست کی تصویربن کر ایسے چلیں کہ اور تو اور خود زمین کو
احساس ہو کہ چل کر آپ اس پر احسان کر رہے ہیں۔ ‘‘
ڈاکٹر منصور باجوہ شعبہ ابلاغِ عامہ میں پی ایچ ڈی اور جامعہ اسلامیہ بہاول
پور میں میڈیا اسٹڈی کے چیئرمین رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بیور و کریسی کے
علاوہ اس شعبہ کے بھی ’’گھر کا بھیدی‘‘ ہونے کے ناطے طنزو مزاح کی خوب تیِر
زنی کرتے ہیں۔میڈیا پرنٹ ہو یا الیکٹرانک، انہوں نے ’’بریکنگ نیوز‘‘،
’’ناظرین کے چند خطوط‘‘، ’’بے مہار میڈیا‘‘، ’’کار آمد مشورے،(صرف
الیکٹرانک میڈیا کے لئے) ’’ہزاروں خواہشیں ایسی‘‘، ’’شیطان آن لائن‘‘،
’’اردو ہے جس کا نام‘‘ کے زیر عنوان کالم لکھے ہیں، اور طنزو مزاح کے
بہترین نمونے پیش کئے ہیں۔ میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا میں وقت ضائع
کرنے، بات کو بلا وجہ طول دینے اور دیگر معاملات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔
’’بریکنگ نیوز‘‘ کی ایک ہلکی سی جھلکی ملاحظہ کیجئے، ’’ابھی ابھی خبر آئی
ہے کہ فیصل آباد کے محلہ گرو نانک پورہ میں دو بھینسوں کے درمیان خوفناک
لڑائی شروع ہو گئی ہے۔ جی ہاں ناظرین! شاید آپ تک میری آواز نہ پہنچی ہو،
اور آپ اس اہم قومی مسئلے پر توجہ دینے کے بجائے پڑھائی لکھائی، سینے پرونے
یا ہانڈی روٹی جیسے کسی بے کار کام میں مصروف ہوں ، میں آپ کو پھر بتا رہا
ہوں، کہ گرونانک پورہ جو کہ فیصل آباد میں ہے اور فیصل آباد جو پنجاب میں
ہے، وہاں دو بھینسوں میں لڑائی ہو رہی ہے۔۔۔‘‘
’’اپنا اپنا پاکستان‘‘ طنزو مزاح کا بہترین نمونہ ہے، مگر ہر کالم ایک درد
مند پاکستانی کی کہانی ہے، جو کسی دوسرے کی زبان سے بیان کی گئی ہے۔ مصنف
نے ہر اُس معاملے پر طنز کی ہے، جو معاشرے کے لئے ناسُور ہے، جس کے ہوتے
ہوئے بہتری کے امکانات معدوم ہیں، مختلف طبقات کے رویّے ، بااختیار اور
طاقتور افراد اور شعبہ جات کے اپنے ماتحت اور کمزوروں پر مظالم، مراعات
یافتہ طبقات کی لوٹ کھسوٹ، اہم معاشرتی مسائل سے مقتدر طبقوں کی چشم پوشی،
ملکی مفاد کے بجائے ذاتی مفادات پر توجہ مرکوز رکھنا، اور بھی نہ جانے کتنے
مسائل ہیں، جن کو حل ہونا چاہیے، مگر اپنے ہاں جو جہاں ہے، بہتری میں رکاوٹ
بنا بیٹھا ہے، اگر اصلاح کرنے یا چاہنے والے ہیں بھی تو آٹے میں نمک کے
برابر۔ یوں ہر پاکستانی اپنا اپنا کردار ادا کرتا چلا جا رہا ہے، اور ملک
ہے کہ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف کھِسکتا جا رہا ہے۔
کتاب میں شامل کئے گئے کالموں کے عنوانات بھی نہایت دلچسپ ہیں، جو قاری کو
فوراً اپنی جانب متوجہ کرلیتے ہیں۔ چند عنوان دیکھئے؛’’منکہ ایک بھکاری
ہوں، گدھے ہی گدھے، خداؤں کی دنیا، اونٹ رے اونٹ، سیاست کی چاند گاڑی،
مسئلہ انگریزی کا، شیطان کی ڈائری، بازی لے گئے کتے․․وغیرہ۔‘‘کالم کی تنگ
دامنی کے سبب آخر میں صرف ’’اونٹ رے اونٹ‘‘ سے اقتباس، (یہ کالم ایک صحرائی
یونیورسٹی میں اونٹ پر منعقد ہونے والے سیمینار پر لکھا گیا تھا) ’’ افسوس
اس بات کا ہے کہ کسی اونٹ کو اپنے بارے میں ایسی ہوش ربا باتیں سننے ، ان
پر سر دھننے (اور دم ہلانے ) کا موقع نہیں دیا گیا۔ خدا جانے اتنا اہم پہلو
یونیورسٹی کے صاحبِ بصیرت اصحاب سے کیسے پوشیدہ رہ گیا، بعض حاسدین کا کہنا
یہ ہے کہ دراصل ان تینوں کاموں کے لئے پہلے ہی اتنے افراد خدمت کے لئے
موجود تھے کہ اونٹ بیچارے کی باری ہی نہیں آئی․․․‘‘ ’’دراصل خود ہم پر اس
اونٹ کانفرنس کا ایسا اثر ہوا ہے کہ ہر طرف ہمیں لوگ کم اور اونٹ زیادہ نظر
آتے ہیں، فاضل محقق نے اپنی حالیہ تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے یہ انکشاف بھی
کیا کہ اونٹنی بچے بھی دیتی ہے اور بڑے ہو کر یہ بچے بھی اونٹ ہی بنتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایسا شرف ہے جو بہت سے انسانی بچوں کو بھی نصیب نہیں،
کیونکہ جب وہ بڑے ہوتے ہیں، تو اکثر انہیں ’’گدھے!‘‘ ’’الّو!‘‘ ’’پاجی!‘‘
یا ’’الّو کے پٹھے‘‘ ہی سمجھا ، بولا یا بلایا جاتا ہے۔‘‘ 264صفحات پر
مشتمل یہ کتاب ادارہ معارفِ اسلامی نے شائع کی ہے۔
|