سیز فائر لائن کے آر پار بھارتی جارحیت اور نہتے عوام کے
قتل عام کے دوران آج آزادکشمیر کایوم تاسیس منایا جا رہا ہے۔ آج ہی اقوام
متحدہ کا بھی یوم تاسیس ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی تقریباً ایک کروڑ آبادی عملاً
قیدی اور غلام ہے۔ 1947ء میں کشمیریوں نے ڈوگرہ شاہی سے بغاوت کے بعدآزاد
کرائے گئے13ہزار297مربع کلو میٹر علاقے پرپہلی انقلابی حکومت قائم کی ۔
عبوری حکومت نے اپنے پہلے اعلامیہ میں کہا کہ یہ حکومت اس امر کا انتظام
کرے گی کہ یہاں دنیا سے غیر جانبدار مبصرین آئیں، جن کی نگرانی میں پورے
جموں و کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے۔آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کو
مقبوضہ ریاست کو آزاد کرانے کے ایک بیس کیمپ کا کام کرنا تھا۔پوری ریاست کی
آزادی اور یک جہتی و اتحاد کے بجائے کراچی معاہدہ کے تحت گلگت بلتستان کو
ہی الگ کر دیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہاں کے حکمرانوں کی ترجیحات بدل
گئیں۔فروعی اور برادری ازم ، علاقہ پرستی کے نام پر پورے مکان کے بجائے ایک
حجرے کی حق ملکیت پرباہمی دست وگریبان رہے۔میرٹ اورعدل و انصاف کے بجائے آج
بھی200سے زیادہ یونین کونسلو ں اور تقریباً 1700دیہات پر مشتمل آزاد ریاست
میں اقتدار اور مراعات کی جنگ جاری ہے۔آزاد کشمیر آبادی کے لحاظ سے ضلع
راوالپنڈی سے بھی چھوٹا ہے۔راولپنڈی کی آبادی 44لاکھ جبکہ آزاد کشمیر کی
آبادی 34لاکھ ہے۔اس میں سے بھی 10لاکھ سے زیادہ لوگ بیرون ملک ہیں۔ضلع
راولپنڈی سے آزاد کشمیر کا بجٹ پانچ سو گنا زیادہ ہے۔راولپنڈی کو ایک ڈی سی
او(ڈی سی) چلاتا ہے ۔آزاد کشمیر میں صدر ،وزیر اعظم،ایک محکمے پر کئی وزیر،
مشیربیٹھے ہیں۔سیکریٹریوں،کمشنروں اور افسران کی فوج موجود ہے۔صدر،
وزیراعظم، سیکریٹریوں ،سپریم کورٹ، ہائی کورٹ ججزکا استحقاق 1600سی سی تک
گاڑیاں استعمال کرنا ہے۔یہی آزاد کشمیر کی ٹرانسپورٹ پالیسی ہے۔ مگر یہاں
4200سی سی تک گاڑیاں استعمال ہو رہی ہیں۔ بجٹ کا خسارہ پہلی بار ختم ہو چکا
ہے ۔بلکہ اب سرپلس ہے۔ پہلے آزاد کشمیر کو کشمیر کونسل کی جانب سے ٹیکسوں
کی وصول کردہ رقم کا80فی صد ملتا تھا۔کونسل والے اپنے تمام اخراجات نکال کر
اضافی 20فی صد بھی لے جاتے تھے۔ آئینی ترمیم کے بعد سو فیصد ٹیکسوں کے مد
میں آمدن ہو رہی ہے۔ کشمیر کونسل کو قانون ساز کونسل بنانے پر توجہ نہیں دی
گئی۔فاروق حیدر حکومت کونسل کی تشکیل کی جانب توجہ نہ دے سکی۔ امید ہے پی
ٹی آئی متوجہ ہو، تا کہ آزاد کشمیر اسمبلی کا بھی ایوان بالا وجود میں آ
سکے۔
حکومت پاکستان یونیورسل فنڈز کی واجب الادا رقم بھی دے گی۔ بلوچستان کی طرز
پر فیڈرل ٹیکسوں کی مد میں آبادی کی بنیاد پر آزاد کشمیر کو 3.64فی صد کے
حساب سے رقم دی جاتی ہے۔جو 59.5ارب روپے ہے۔یہ آزاد خطے کی آمدن ہے۔اس آزاد
خطے کاسال 2021-22 کا بجٹ141.4 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔جس میں سے پاکستان
حکومت نے آزاد کشمیر کو ساڑھے 28ارب روپے سالانہ ترقیاتی پروگرام کی مد میں
دیئے جن میں دو ارب روپے کی غیر ملکی امداد بھی شامل ہے۔ 1947ء سے1950ء تک
آزاد کشمیر کا بجٹ جنگلات کی آمدن کا مرہون منت تھا ۔1947ء میں وادی نیلم
کے جنگلات کی آمدن 49لاکھ روپے جبکہ کل بجٹ 48لاکھ روپے تھا ۔ایک لاکھ روپے
سر پلس تھے۔اب بھی واٹر یوز چارجزکی مد میں واپڈا کے ذمہ کروڑوں روپے واجب
الادا ہیں۔جو ایک سال میں 70کروڑ روپے بنتے ہیں۔واٹر یوز چارجز 15پیسے سے
بڑھا کر ایک روپے 10پیسہ کی گئی اس پر من و عن عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس
اضافے پر عمل در آمد کو بجلی ٹیرف بڑھا نے کے کسی جوا ز یا بہانے کے طور پر
استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔ آزاد حکومت کو فی یونٹ بجلی 2روپے59پیسہ کے حساب
سے فروخت کی جا رہی ہے۔ حکومت اپنے صارفین کو یہی بجلی تین سو گنا اضافے کے
ساتھ دیتی ہے۔ آزاد کشمیر میں موبائل ٹاورز لگانے کے سلسلے میں کشمیر کونسل
نے موبائل کمپنیوں سے کروڑوں روپے سیکورٹی فیس وصول کی ہے ۔یہ رقم کونسل کے
اکاؤنٹ میں جمع ہے۔اس میں سے بھی آزاد کشمیر کو ادائیگی ہونی چاہیئے ۔اس کے
علاوہ ایک سال کا مارک اپ6فی صد کے حساب سے 6.1ملین بنتا ہے۔کشمیر کونسل
ایک آئینی ادارہ تھا جو آزاد کشمیر کے عبوری آئین کی دفعہ 21کے تحت قائم
کیا گیا ۔کشمیر کے معاملات اور مسلہ کشمیر کے سلسلے میں بھی یہ ادارہ غیر
معمولی کردار ادا کر سکتا تھا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ تیرہویں ترمیم کو اسلام
آباد نے تسلیم کرنے سے گریز کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے آٹھ رکنی خصوصی
کمیٹی تشکیل دی ۔ جس نے رپورٹ پیش کرنا تھی۔
آزاد کشمیرکی زراعت ،جنگلات،سیاحت ،فلوری کلچر کے حوالے سے اہمیت ہے ۔بل
کھاتی ندیاں،جہلم ،نیلم اور پونچھ جیسے دریا نہ صرف خطے کی حسن کو مالا مال
کرتے ہیں، بلکہ یہ انمول آبی وسیلہ ہیں ۔ان پر20ہزار میگا واٹ تک پن بجلی
بھی پیدا کی جاسکتی ہے ۔ مگر نیلم کا رخ موڑ دیا گیا اور جہلم کا رخ موڑنے
پر عوام نے اختلاف کیا ۔ ماحولیات اور لاکھوں کی آبادی کا مفاد نظر انداز
نہ کیا جائے۔آزاد کشمیر میں معدنیات کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔وادی نیلم میں
یاقوت روبی کے پہاڑ ہیں،ان قدرتی وسائل کا استعمال کیا جائے تو یہ سرزمین
سونا اگل سکتی ہے۔عوام اپنی دھرتی کی ترقی میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کھیت
لہلہا سکتے ہیں۔اناج، پھل، سبزیاں، پالتو جانوروں کی افزائش ،ڈیری
فارمنگ،فش فارمنگ سے معیشت میں انقلاب آسکتا ہے۔ قیمتی روبی، جنگلات اور
دیگر قدرتی خزانہ کی چوری پر سخت روک لگانے کی ضرورت ہے۔ 2005ء کے زلزلہ
میں بستیاں کھنڈرات میں تبدیل ہوئیں تو آزاد کشمیرکی تعمیر نو کے 55ارب
روپے منتقلی کے نام پر چوری کر لئے گئے۔
زرخیز زمین دستیاب ہونے کے باوجود اناج،سبزیاں اور پھل درآمد ہوتے ہیں۔یہ
خطہ آبی وسائل سے مالا مال ہے لیکن آبپاشی کے زرائع موجود نہیں۔ آزاد کشمیر
کا زیر کاشت رقبہ صرف 13فی صد ہے جو ایک لاکھ 71ہزار ہیکٹر بنتا ہے۔ ایک
زرخیز ترین علاقہ بنجر بن رہا ہے ۔ آزاد کشمیر کے لاکھوں لوگ سمندر
پاررہائش پذیر ہیں۔جن سے اربوں روپے زرمبادلہ کمائی ہوتی ہے۔لیکن یہاں کی
برادری ازم،علاقہ اور فرقہ پرستی کی سیاست بیرون ممالک بھی متعارف کرائی
گئی ہے۔ کشمیر کاز کی آڑ میں پاؤنڈ اور ڈالر وصول کرنے ،سیر و تفریح ،شاپنگ
کے لئے بھی دنیا کے چکر لگائے گئے۔یہاں ہی ایک سال میں ایک ہی اسمبلی نے
چار وزرائے اعظم تبدیل کر کے ریکارڈ قائم کیا۔آزاد کشمیرحکومت کی حیثیت
مسلہ کشمیر کے حل تک عبوری ہے۔اس کا آئین بھی عبوری ہے۔ اس کا بنیادی مشن
اور وژن پورے کشمیر کی آزادی کے
لئے جدوجہد کرنا ہے۔مظفر آباد کو اپنی عبوری حکومت کا پہلا اعلانیہ فراموش
ہر گز نہیں کرنا چاہیئے جس میں عہد کیا گیا کہ حکومت اس امر کا انتظام کرے
گی کہ یہاں غیر جانبدار مبصرین آئیں، جن کی نگرانی میں پورے جموں و کشمیر
میں رائے شماری کرائی جائے۔ |