عالمی سیاسی منظرنامے پر اس وقت چینی صدر شی جن پھنگ اور
اُن کے امریکی ہم منصب جو بائیڈن کے درمیان منگل کے روز ہونے والی ورچوئل
ملاقات کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے اور یہ موضوع مختلف عالمی
حلقوں میں زیر بحث ہے۔ ایک جانب، اس قسم کی ملاقاتیں عام طور پر صرف اسی
صورت میں ہوتی ہیں جب دونوں فریقوں کو یقین ہو کہ وہ ان سے فائدہ اٹھا سکتے
ہیں۔ دونوں ممالک کے سفارت کار کئی ہفتوں سے اس سربراہی اجلاس کی تیاری کر
رہے تھے اور جب فریقین کے درمیان واضح اور شفاف بات چیت ہوتی ہے تو یقیناً
ٹھوس نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ویسے بھی چین اور امریکہ دنیا کے دو بڑے ممالک
ہیں جن پر نہ صرف ملکی امور بلکہ عالمی و علاقائی امور کے حوالے سے بھی
بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت بھی اس
حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ چین امریکہ بہتر تعلقات دنیا کے بہترین مفاد میں
جبکہ محاز آرائی عالمی ترقی ،امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہو سکتی
ہے۔دونوں صدور کی ورچوئل ملاقات کے لیے رضامندی یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ
حقیقتاً بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں جبکہ عالمی حلقے بھی اس پیش رفت کو
سراہتے نظر آتے ہیں۔ ورچوئل ملاقات کے دوران دونوں صدور نے چین امریکہ
تعلقات سمیت ،اسٹریٹجک اور بنیادی امور پر گہرائی سے تبادلہ خیال کیا جبکہ
باہمی خدشات کے امور پر بھی بات چیت کی گئی۔شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ
چین اور امریکہ کو دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی
کونسل کے مستقل رکن ممالک کی حیثیت سے روابط اور تعاون کو مضبوط بنانا
چاہیئے، اپنے اپنے اندرونی معاملات سے احسن انداز میں نپٹنے کے ساتھ ساتھ
اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو بھی نبھانا چاہیئے تاکہ انسانیت کی ترقی و
امن کا عظیم نصیب العین مشترکہ طور پر فروغ پائے۔یہ چین، امریکہ نیز دنیا
کے مختلف ممالک کےعوام کی مشترکہ خواہش ہےاور چین امریکہ سربراہان کا
مشترکہ مشن بھی ہے۔شی جن پھنگ نے کہا کہ چین اور امریکہ کو ایک دوسرے کا
احترام کرنا چاہیے، پرامن بقائے باہمی اور مشترکہ مفادات پر مبنی تعاون کو
فروغ دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ امریکی صدر کے ساتھ چین امریکہ تعلقات
کو مشترکہ طور پر فروغ دینے کے خواہشمند ہیں۔
جوبائیڈن نے چینی صدر کے ساتھ ملاقات کے موقع پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے
امید ظاہر کی کہ دونوں صدور کی بات چیت ماضی کی طرح پرخلوص ہو گی۔ انہوں نے
کہا کہ امریکہ اور چین جیسی دو بڑی طاقتوں کے سربراہان کی حیثیت سے ہمیں اس
بات کو یقینی بنانا چاہیئے کہ دونوں ممالک کے درمیان مسابقت، محاز آرائی
میں تبدیل نہیں ہو گی۔ہمیں اتفاق رائے کی تعمیرنو کرنی چاہیئے،اختلافات سے
پرخلوص اور شفاف انداز میں نپٹنا چاہیئے،مشترکہ مفادات سے متعلق شعبوں خاص
طور پر موسمیاتی تبدیلی سمیت اہم عالمی امور پر مل کر کام کرنا
چاہیئے۔امریکی صدر نے کہا کہ چین امریکہ تعلقات نہ صرف دونوں ممالک بلکہ
پوری دنیا پر بھی اہم اثرات مرتب کرتےہیں۔یہاں صدر بائیڈن کی جانب سے یہ
خواہش بھی ظاہر کی گئی کہ وہ آئندہ صدر شی جن پھنگ سے بالمشافہ ملاقات
کرنا چاہیں گے۔دونوں صدور کے علاوہ چین اور امریکہ کی جانب سے پانچ، پانچ
اعلی عہدیداران نے اس ورچوئل ملاقات میں شرکت کی۔چین کی جانب سے سی پی سی
مرکزی کمیٹی کے دفتر کے ڈائریکٹر دنگ شوئے شیانگ،نائب وزیر اعظم لیو حہ
،مرکزی کمیٹی کے کمیشن برائے امور خارجہ آفس کے ڈائریکٹر یانگ جیے
چھی،ریاستی کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ ای اور نائب وزیر خارجہ شیے فنگ
شریک ہوئے۔جب کہ امریکہ کی جانب سے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن ،صدر کے مشیر
برائے امورِ قومی سلامتی جیک سولیون ،وزیر خزانہ جینیٹ ییلن،صدر کے نائب
مشیر برائے قومی سلامتی کرٹ کیمبل ،امریکہ کی نیشنل سیکورٹی کونسل کے امورِ
چین کی سینیئرڈائریکٹر لارا روسنبرگ نے شرکت کی۔
اس ملاقات کے نتیجے میں چند ایسے شعبہ جات ہیں جن میں چین اور امریکہ کے
درمیان تعاون کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ان میں تجارت اور ٹیکنالوجی سرفہرست
ہیں۔ماضی قریب میں دونوں ممالک کے درمیان ایک تجارتی محاز آرائی کی
صورتحال دیکھی گئی تھی ، بعد میں وبائی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو
چین نے انسداد وبا کی عمدہ پالیسیوں کی بدولت کافی حد تک معاشی بحالی کو
یقینی بنایا ہے مگر امریکی معیشت کافی دباو کا شکار رہی ہے، معاشی بحالی
اور نمو کے اعتبار سے چین اب بھی امریکہ سے کافی آگے ہے۔چین کے لیے اچھی
خبر یہ بھی ہے کہ علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری معاہدہ دو ماہ سے کم
عرصے میں نافذ العمل ہو رہا ہے،چین دوہری گردشی ماڈل پر توجہ مرکوز کرتے
ہوئے ہر اعتبار سے خودانحصاری کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔ایسے میں امریکہ کا
چین کے ساتھ تجارتی روابط کا فروغ نہ صرف امریکی کاروباری اداروں بلکہ
امریکی عوام کے لیے بھی ناگزیر ہے۔اسی طرح ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی تعاون
حالیہ ملاقات کا ایک ٹھوس نتیجہ ہو سکتا ہے۔چین چاہتا ہے کہ امریکہ ہواوے
جیسی چین کی بڑی کمپنیوں کے خلاف اقدامات سے گریز کرے اور چینی ٹیک کمپنیوں
کو عالمی مارکیٹ تک مزید رسائی فراہم کرے۔اس ورچوئل ملاقات سے دنیا کی
امیدیں وابستہ ہیں کہ ہمیں کسی نئی سرد جنگ سے بچنے میں مدد ملے گی ، چین
اور امریکہ بڑے ممالک کی حیثیت سے دوطرفہ تعاون کی بدولت وبائی صورتحال
سمیت دنیا کو درپیش دیگر عالمی مسائل کے حل میں مزید اپنا اہم کردار
نبھائیں گے۔
|