چین اور امریکہ نے منگل کے روز دونوں سربراہان مملکت کے
درمیان ہونے والی ورچوئل ملاقات میں مختلف ذرائع سے قریبی رابطہ برقرار
رکھنے اور دو طرفہ تعلقات کو درست اور مستحکم ترقی کے راستے پر لانے پر
اتفاق کیا ہے جسے عالمی حلقوں میں نمایاں پزیرائی ملی ہے۔دنیا کی دو اہم
بڑی طاقتوں کی حیثیت سے اس ملاقات کو پاکستانی میڈیا سمیت نمایاں ترین
عالمی میڈیا اداروں اور سیاسی و سماجی حلقوں میں زیر بحث لایا گیا اور
مختلف تجزیوں کی روشنی میں ملاقات سے حاصل شدہ ٹھوس نتائج پر بات کی
گئی۔چینی صدر شی جن پھنگ اور ان کے امریکی ہم منصب جو بائیڈن کے درمیان
ملاقات کو "شفاف، تعمیری، ٹھوس اور نتیجہ خیز" قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ
امور تائیوان سمیت تجارت اور موسمیاتی تبدیلی جیسے تشویش کے اہم موضوعات
ایجنڈے میں سرفہرست تھے۔
یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ انتہائی متوقع ورچوئل میٹنگ دو طرفہ تعلقات میں
ایک سال کے اتار چڑھاؤ کے بعد سامنے آئی ہے۔ملاقات کے دوران دونوں صدور کے
الفاظ دونوں ممالک کے بنیادی نقطہ نظر کا ثبوت ہیں۔ صدر شی نے "مواصلات اور
تعاون" پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ چین اور امریکہ کو رابطے اور تعاون کو
بڑھانے کی ضرورت ہے، فریقین کو اپنے ملکی معاملات احسن انداز سے چلانے
چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ بین الاقوامی ذمہ داریوں میں بھی اپنا حصہ ڈالنا
چاہیے جبکہ عالمی امن اور ترقی کے عظیم مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے مل کر
کام کرنا چاہیے۔دونوں فریقوں نے چین۔امریکہ تعلقات کی ترقی سے متعلق
اسٹریٹجک اور بنیادی مسائل کے ساتھ ساتھ مشترکہ تشویش کے اہم مسائل پر جامع
اور گہرا تبادلہ خیال کیا۔
صدر شی جن پھنگ نے کہا کہ گزشتہ 50 سالوں میں بین الاقوامی تعلقات میں سب
سے اہم واقعہ چین امریکہ تعلقات کی بحالی اور ترقی ہے جس سے دونوں ممالک
اور دنیا کو فائدہ پہنچا ہے۔ آئندہ 50 سالوں میں بھی دونوں فریقوں کو ایک
دوسرے کے ساتھ چلنے کا صحیح راستہ تلاش کرنا ہوگا۔شی جن پھنگ نے کہا کہ
فریقین کو نئے دور میں ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کے لیے باہمی احترام، پرامن
بقائے باہمی اور جیت۔جیت تعاون کے تین اصولوں پر عمل کرنا چاہیے۔انہوں نے
اس بات پر زور دیا کہ چین اور امریکہ کو چار ترجیحات کے فروغ پر توجہ دینی
چاہئے۔ اول، بڑی طاقتوں کے طور پر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور عالمی
برادری کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے میں تعاون اور رہنمائی کریں۔ دوم، برابری
اور باہمی مفاد کے جذبے کے تحت تمام سطحوں اور مختلف شعبوں میں تبادلوں کو
فروغ دیں تاکہ چین امریکہ تعلقات میں مزید مثبت توانائی ڈالی جا سکے۔ سوم،
چین امریکہ تعلقات کی بہتری کے لیے اختلافات اور حساس امور سے تعمیری انداز
میں نمٹا جائے۔ چوتھا ، اہم عالمی اور علاقائی مسائل پر ہم آہنگی اور تعاون
کو مضبوط کیا جائے تاکہ دنیا کے لیے مزید خدمات انجام دی جا سکیں۔
شی جن پھنگ نے واضح کیا کہ چینی عوام کی بہتر زندگی کی جستجو اور چین کی
ترقی اہم ترین قوت محرکہ اور ایک ناگزیر تاریخی رجحان ہے، جو بھی اس میں
رکاوٹ ڈالنے چاہے گا اسے چینی عوام ہرگز قبول نہیں کریں گے ۔انہوں نے امور
تائیوان کے حوالے سے چین کے اصولی موقف کو واضح کرتے ہوئے زور دیا کہ ایک
چین کا اصول اور چین امریکہ تین مشترکہ اعلامیے فریقین کے تعلقات کی سیاسی
بنیاد ہیں ، اگر تائیوان میں علیحدگی پسند قوتیں انتشار پیدا کرتی ہیں اور
سرخ لکیر کو پامال کرتی ہیں تو چین سخت اقدامات اٹھائے گا.انہوں نے مزید
کہا کہ چین امریکہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کا نچوڑ باہمی مفاد اور جیت
ہے۔دونوں فریق اقتصادی اور تجارتی مسائل پر سیاست نہ کریں۔ موسمیاتی تبدیلی
چین امریکہ تعاون کے لیے ایک نیا روشن باب بن سکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کو
چاہیے کہ وہ اپنی تاریخی ذمہ داریاں سنجیدگی سے ادا کریں اور پالیسی میں
استحکام برقرار رکھیں۔صدر شی جن پھنگ نے مزید کہا کہ موجودہ وبائی صورتحال
نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ انسانی معاشرہ ہم نصیب سماج ہے۔ عالمی
برادری کے پاس اس وبا کو شکست دینے کے لیے یکجہتی اور تعاون سب سے طاقتور
ہتھیار ہے۔ اس موقع پر چین کی جانب سے واضح کیا گیا کہ وہ انسانی حقوق کے
امور پر باہمی احترام کی بنیاد پر بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن چین دوسرے
ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے لیے انسانی حقوق کا استعمال کرنے
کے حق میں نہیں ہے۔ صدر شی نے کہا کہ عوام یہ فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہیں
کہ کوئی قوم جمہوری ہے یا نہیں۔اسی طرح مختلف جمہوری ماڈلز کی بنیاد پر
دوسروں کو خارج کرنا، اپنے آپ میں غیر جمہوری طرز عمل ہے۔
صدر جو بائیڈن نے امریکہ اور چین کے تعلقات کو دنیا میں اہم ترین دوطرفہ
تعلقات قرار دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ امریکی حکومت طویل عرصے سے ایک چین
کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، "تائیوان کی علیحدگی" کی حمایت نہیں کرتی ہے اور
پر امید ہے کہ آبنائے تائیوان کا امن اور استحکام برقرار رہے گا۔بائیڈن نے
کہا کہ امریکہ چین کے سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا اور نہ
ہی واشنگٹن کے اتحاد کو مضبوط بنا کر یا پھر چین کے ساتھ تنازعہ کو ہوا دے
کر چین پر قابو پانے کی کوشش کرے گا۔دونوں اعلیٰ رہنماوں نے افغانستان،
ایرانی جوہری مسئلہ اور جزیرہ نما کوریا کی صورتحال اور مشترکہ تشویش کے
دیگر بین الاقوامی اور علاقائی مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
اس ملاقات کے بعد یہ امید ضرور پیدا ہوئی ہے کہ دونوں بڑے ممالک دوطرفہ
شراکت داری کی جانب لوٹ رہے ہیں ، دونوں رہنماؤں نے تعاون کو قدر کی نگاہ
سے دیکھا ہے اور عصری عالمی امور میں دو اہم ترین ممالک کے درمیان مزید
برابری اور احترام پر مبنی بات چیت کا دوبارہ آغاز کیا ہے۔ یہ ملاقات چین
امریکہ تعلقات کے علاوہ بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے بھی ایک اہم پیش
رفت ہو گی ۔ دونوں ممالک اور پوری عالمی برادری پر امید ہے کہ اس اقدام سے
دونوں ممالک اور دنیا کے لیے سودمند نتائج سامنے آئیں گے، عالمی و علاقائی
مسائل کے حل میں امریکہ اور چین ایک ہی جانب آگے بڑھیں گے ،بات چیت اور
تعاون کی مضبوطی سے تنازعات پر مؤثر کنٹرول پاتے ہوئے حساس مسائل سے صحیح
طور پر نمٹا جائے گا ۔ علاوہ ازیں نئے عہد میں دونوں فریقوں کے درمیان
باہمی احترام اور پرامن بقائے باہمی کی راہ تلاش کی جائے گی تاکہ چین
۔امریکہ تعلقات صحت مند اور مستحکم ترقی کے درست راستے پر لوٹ سکیں ۔
|