افغانستان میں بیرون مداخلت اور خانہ جنگیوں نے ملک کا انفراسٹرکچر تباہ
کرکے رکھ دیا۔ جنگ میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کسی بے گناہ کو تو اس حملے سے
نقصان نہیں پہنچا بلکہ حملہ آور کوئی بھی ہو، اس کا پہلا ٹارگٹ اپنے دشمن
کو نشانہ بنانا ہوتا ہے۔اس حملے کی زد میں ایسے افراد بھی آجاتے ہیں جن کو
نشانہ حملہ آور نہیں بناتا۔ افغانستان چار دہائیوں سے مسلسل جنگ سے نبر
الزما ہے۔ پہلے عسکری جنگ تھی تو اب معیشت بحالی کی جنگ ہے۔ پہلے بھی
افغانی عوام پر استعماری طاقتوں کے غول حملہ آور ہوئے تھے اور اب بھی انخلا
کے بعد معاشی طور پر افغانستان کے لئے سب سے دشوار گذار مرحلہ عوام کو امن
کے ساتھ روزگار کا یقینی بنانا ہے۔ دنیا کو افغانستان میں تشدد کے خاتمے کا
انتظار تھا، لہذا آج اس موقع پر کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان ماضی کے مقابلے
میں پرتشدد واقعات میں امن کے راستے کی جانب گامزن ہوچکا ہے۔ داعش اور دیگر
افغان طالبان مخالف جنگجوؤں کی پسپائی کے جواب میں شدت پسندی اور انتقامی
کاروائی بھی ہو رہی ہے لیکن مجموعی طور افغان طالبان اپنے ملک میں حیرت
انگیز طور پر امن کو قائم کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ جرائم کی کمی اور
سزا کا خوف ایسے عناصر پر بیٹھا ہوا ہے جو عوام کے اغوا برائے تاوان سمیت
بھتہ خوری اور منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔
اقوام متحدہ کے اداروں کی جانب سے تازہ رپورٹ میں خبردار کیا کہ افغانستان
میں انسانی ہمدردی کی ضروریات اس حد تک بڑھ گئی ہیں جس کی اس سے پہلے کوئی
مثال موجود نہیں ہے اور تنازع سے متاثرہ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی، 22.8
ملین افراد، کو نومبر سے''شدید غذائی عدم تحفظ'' کا سامنا ہوگا۔ رپورٹ میں
انکشاف کیا گیا ہے کہ اس خطرے میں مبتلا 32 لاکھ بچوں کی تعداد پانچ سال سے
کم ہے۔ جو سال کے اختتام تک غذائیت کی شدید قلت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ورلڈ
فوڈ پروگرام، ڈبلیو ایف پی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلی نے افسوس کا
اظہار کرتے ہوئے کہا کہ،''افغانستان کا بحران اس وقت اگر دنیا کا بد ترین
بحران نہیں تو دنیا کے بد ترین بحرانوں میں ضرور شامل ہے، اور وہاں خوراک
کی شدید قلت ہے۔'' بیسلی نے کہا کہ، ''اگر ہم افغانستان میں جان بچانے والی
امداد نہ بڑھا سکے اور وہاں معیشت بحال نہ ہو سکی تو اس موسم سرما میں،
لاکھوں افغان ہجرت اور فاقہ کشی میں سے کسی کا انتخاب کرنے پر مجبور ہوں
گے''۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ''ہم تباہی کی الٹی گنتی پر ہیں اور اگر ہم
نے اس وقت کوئی اقدام نہ کیا تو ہمیں ایک مکمل تباہی درپیش ہو گی“۔
دوسری جانب اگر افغانستان کی جنگ میں امریکہ اور ان کے اتحادیوں کی جنگی
مہم کا تخمینہ کو عالمی اداروں کی جانب سے سامنے لایا گیا ہے اس کے مطابق
کھربوں ڈالر ز جنگ میں جھونکے گئے اور اس وقت کی حاشیہ بردار کابل انتظامیہ
نے مبینہ غبن اور فراڈ کے ذریعے رقوم کا بیشتر حصہ اپنے خزانوں میں جمع کیا
اور عوام کو محروم رکھا، سابق کابل انتظامیہ کی کرپشن کی داستانوں سے دنیا
میں گونج تھی لیکن عالمی قوتوں کے مفادات نے انہیں بہرا بننے پر مجبور کیا
اور تباہ در تباہی کی وجہ سے آج امن آنے کے بعد افغان آبادی کی نصف تعداد
ٖبدترین غذائی قلت کے بحران سے دوچار ہے۔ چونکہ امریکہ نے افغان عبوری
حکومت کے اثاثے بھی منجمد کردیئے ہیں اس لئے افغان انتظامیہ کے لئے دوہری
مشکلات کا سامنا ہے۔ افغان طالبان کی حکومت نے خوراک کی کمی کے شکار
خاندانوں کے لئے کام برائے خوراک کی مہم شروع کی ہے، جس میں رقم کے بجائے
بھوک سے بچنے اور بچوں کو غذائی قلت کا شکار ہونے سے بچانے کے لئے غذائی
اجناس دینے کی منصوبہ بندی اختیار کی گئی ہے۔
2016 سے 2018 کے درمیان سالانہ اخراجات 40 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھے، اور
2019 (ستمبر تک) کے لیے خرچ کا تخمینہ 38 ارب ڈالر ہے۔امریکی محکمہ دفاع کے
مطابق افغانستان میں (اکتوبر 2001 سے ستمبر 2019 تک) مجموعی فوجی اخراجات
778 بلین ڈالر تھے۔اس کے علاوہ امریکی محکمہ خارجہ، امریکی ایجنسی برائے
بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) اور دیگر سرکاری ایجنسیوں نے تعمیر نو کے
منصوبوں پر 44 ارب ڈالر خرچ کیے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2001 میں جنگ
کے آعاز سے اب تک آنے والی مجموعی لاگت 822 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے براؤن
یونیورسٹی کے 'کاسٹ آف وار ' منصوبے میں ایک تحقیق کی گئی ہے جس میں بتایا
گیا ہے کہ امریکی جنگ کے بارے میں امریکہ کے سرکاری اعداد و شمار کافی حد
تک کم ہیں۔ جنگ کے بعد امدادی فنڈ اور غذائی قلت سے بچاؤ کے لئے امریکہ اور
نیٹو ممالک کی جانب سے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا گیا اور نت نئے تحفظات
سامنے لا کر افغان عوام کے خوف میں اضافہ کررہے ہیں۔
امریکی حکام نے ایک بار پھر اس امر کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ افغانستان میں
داعش خراساں دو برس کے اندر امریکہ پر حملے کئے جانے کی استعداد حاصل کرلے
گی۔ امریکی اداروں کی یہ رپورٹ خود اقوام عالم کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے
کہ کیا اب بھی افغان حکومت کو دنیا کے بڑے فتنے سے بچاؤ کے لئے اخلاقی
بنیادوں پر اپنے غلطیوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے، کھربوں ڈالر جب امن کے
بجائے جنگ پر خرچ کئے جاسکتے ہیں تو پھر چند ارب دار افغان عوام کو غذائی
قلت کے بدترین بحران سے نمٹنے کے لئے بھی دیئے جاسکتے ہیں، امریکہ سمیت
کوئی بھی عالمی قوت کی جانب سے این جی اوز کے ذریعے امداد کی ترسیل کھوکھلے
وعدے ظاہر کررہے ہیں کہ اب بھی افغان مخالف قوتیں، تباہی کا تماشا دیکھنا
چاہتی ہیں۔ امریکہ سمیت نیٹو ممالک جنہوں نے اپنی افواج کے لئے افغانستان
مشن میں اربوں ڈالر خرچ کئے، وہاں بدترین غذائی قلت کے بحران کو مزید سنگین
ہونے سے بچانے کے لئے انسانی بنیادوں پر کام کرسکتی ہے۔
روس، چین، پاکستان سمیت کئی ممالک اقوام عالم پر زور ڈال رہے ہیں کہ وہ
افغانستان کی عبوری حکومت کو مزید مشکلات کا شکار نہ کرے اور انہیں تسلیم
کرنے کے پیش رفت کریں، لیکن صور ت حال روز بہ روز ابتر ہوتی جا رہی ہے اور
اب تو اقوام متحدہ کے اداروں کی خوف ناک رپورٹ نے حالات کو مزید دسنگین
بنادیا ہے کہ اس وقت افغانستان کی نصف آبادی غذائی قلت کا شکار ہوچکی ہے
اور موسم سرما سے بہار آنے تک یہ بحران شدت اختیار کرلے گا اور مزید لاکھوں
افغانی غذائی قلت کے باعث سنگین صورت حال کا سامنا کررہے ہوں گے، چین، روس،
پاکستان سمیت افغانستان سے ہمدردی رکھنے والے ممالک کو پہلے ہی امریکہ اور
مغربی بلاک کی شدید مخالفت کا سامنا ہے، ان کی جانب سے افغان حکومت کو
تسلیم کرنے میں پہل سے مسئلے کا حل نکلنے کے بعد ضد کا شکار ہوجائے گا، جس
کے بعد امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک ایک نئے اتحادی
بن کر ان ممالک پر دباؤ میں مزید اضافہ کردیں گے جس کا نتیجہ یہ نکل سکتا
ہے کہ افغانستان ایک بار پھر عالمی قوتوں کے بلاکوں میں کچل جائے اور اس کے
نتائج سے بعد ازاں مغربی ممالک کو کوئی خوشی ملے یا نہ ملے لیکن ان کے خلاف
نفرت میں بے تحاشا اضافہ ہوسکتا ہے اور اس کے ردعمل میں کوئی بھی کاروائی
کا ہونا افغان عوام کو مورد الزام ٹھہرانے سے نہ بچ سکے گا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس ے جی-20 کے رہنماؤں کے
افغانستان سے متعلق ایک غیر معمولی اجلاس میں دنیا کو باور کراچکے کہ”اگر
ہم نے اس ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے افغان باشندوں کی مدد نہ کی تو
جلد ہی اس کی بھاری قیمت نہ صرف افغانستان بلکہ پوری دنیا کو چکانی پڑے
گی۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا مزید کہنا تھا کہ افغان شہریوں کے پاس
کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ان کے پاس روزگار نہیں ہے، انہیں اپنے حقوق کا
تحفظ حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ افغان باشندے اپنے ملک سے
فرار ہو کر دوسرے علاقوں کی طرف جائیں گے۔ موجودہ صورت حال میں وہاں غیر
قانونی منشیات، مجرمانہ سرگرمیاں بڑھنے اور دہشت گرد نیٹ ورکس مضبوط ہونے
کے خطرے میں اضافہ ہو گا“۔ یہ امن پسند اور انسانیت کے درس دینے والے تمام
ممالک کے لئے نوشتہ دیوار ہے کہ اب انہیں کیا کرنا چاہے، افغان حکومت کو
تسلیم کرکے انہیں مہلت دیں کہ اپنے نظام کے ثمرات سے داعش جیسے شدت پسندوں
کی سرکوبی کریں یا پھر بھوک سے بدحال نوجوان مجبور ہوکر شدت پسندی کا حصہ
بنیں۔
Thanks & Regards
|