ایک قدم آگے دو قدم پیچھے

وزیر داخلہ شیخ رشید نے وفاقی کابینہ کو کالعدم ٹی ایل پی سے پابندی ہٹانے کی سمری بھیجی تھی۔ آئندہ پر تشدد احتجاج نہ ہونے کی یقین دہانی پر وفاقی حکومت نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان سے پابندی ہٹانے کی منظوری دے دی۔حکومت کا موقف ملکی وسیع تر مفاد میں اختیار کیا گیا۔اس سے قبل پنجاب کابینہ کے وزراء کی مطلوبہ تعداد پابندی ہٹانے کی سفارش کر چکی تھی۔ٹی ایل پی کے ساتھ کالعدم کا لفظ ہٹانے کی سمری کی منظوری پنجاب کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار نے دی۔مختصر لکھوں تو ٹی ایل پی تمام الزامات سے بری الذمہ اور نہ ان الزامات کو بیان کرنے والے وزراء جوابدہ ہونگے۔وزیر داخلہ شیخ رشید سے جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ ٹی ایل پی کے ہاتھوں جو پولیس اہلکار شہید ہوئے انہیں انصاف کیسے ملے گا۔ جس پر انہوں نے کہا کہ دو یا تین لوگ ہی ہمارے شہید ہوئے ہیں۔باتیں دو ہی ہیں جھگڑا فساد بڑھائیں یا اس کو کنٹرول کریں انکے مطابق سیاست دان کا کام ہی یہی ہے کہ درمیانی راستہ نکالیں۔

یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ اس سارے ہنگامہ میں پنجاب پولیس کو شہادتوں کے بعد کیا ملااور پولیس کا مورال کیسے بلند ہوسکتا ہے۔۔۔۔؟ ایک طرف ہمدردی کے چند الفاظ، تسلیاں دوسری طرف تبادلہ جات، گرفتار افراد کی رہائی اور معاہدہ بھی منظر عام پرنہیں لایا گیا۔جن بیویوں کے سہاگ اجڑے، بچے یتیم ہوئے اور جن کے گھروں پر قہر ٹوٹے انکا نقطہ نظر یقینا جذباتی انداز سے سوچنے والوں اور حکومت سے مختلف ہوگا۔مقصد کچھ بھی ہو لیکن کسی کی زندگی چلی جائے اور ریاست سمیت کوئی ذمہ دار قرار نہ دیا جائے یہ کیسا انصاف ہے اور مصلحت ہے۔اگر یہ درمیانی راستہ ہے تو بہت افسوس شیخ رشید نے خون ناحق بہائے جانے سے قبل کیوں راستہ تلاش نہ کیا۔ وہ غیر ملکی فنڈنگ کے الزامات، شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ایسی جماعت کا ساتھ دینے کا مطلب عالمی تنہائی ہے۔ اب اس تنہائی سے بچنے کے لیے حکومت کیا کرے گی۔

تبدیلی سرکار کو جواب دینا ہی ہوگا آخر یہ کیسی پالیسی ہے پہلے دھمکی، پھر ہدایات پھر وقت دے دیا گیا۔یہ پر تشدد احتجاج پہلی دفعہ نہیں ہوا۔تسلسل سے ہو رہا ہے۔یہ معاہدہ کی پالیسی بھی نئی نہیں۔غلطی ایک دفعہ، دوسری دفعہ مگر بہت ساری غلطیاں مل جائیں تو تجربہ کہلاتا ہے۔ ہم غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کرتے اور ماضی کے تجربات سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔حکومت ہر صورت عام آدمی کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔ خون خرابہ کے بعد درمیانی راستہ کا انتخاب کامیاب حکمت عملی قرار نہیں دی جاسکتی۔کوئی خون خرابہ نہیں چاہتا مگر قانون کی حکمرانی پر سمجھوتہ بھی قابل قبول نہیں۔ریاست کی رٹ ہر صورت قائم رہنی چاہئیے۔ طاقت کا استمعال اس وقت ناگزیر ہو جاتا ہے جب حکومت کو کھلے عام چیلنج کیا جائے۔حکومت کے معاملات اور بیانات میں لیکن کا لفظ استعمال ہوتا ہے، مذہب کی لغت میں لفظ لیکن بہت کم استعمال ہوا ہے۔

قارئین کرام! تحریک لبیک سے چھ معاہدے ہوئے اب ساتویں بار معاہدہ ہوا۔ تحریک لبیک نے کونسا نیا مطالبہ کیا۔ حکومت، عام آدمی سب ناموس رسالت پر یکساں موقف رکھتے ہیں۔ ناموس رسالت پر گستاخی کسی صورت برداشت نہیں، مگر احتجاج کا یہ طریقہ اور سیاسی مصلحت بھی قابل قبول نہیں۔حکومت نے اس ناموس رسالت پر عالمی سطح پر آواز اٹھائی اگر کوئی کمی محسوس کرتا ہے تو معاملہ پارلیمنٹ میں لایا جائے۔ قومی سطح کے فیصلے سڑکوں پر نہیں ہوا کرتے۔

ماضی میں نظام مصطفی کے نام پر سیاست ہوئی۔وادی سوات میں نفاذ شریعت کے نام سے تحریک چلی۔تشدد اور انسانی جانوں کے ضیاع کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ سیاسی جماعتوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سیاسی مقاصد کے لیے مذہب اور مقدس عقائد کو استعمال نہ کریں۔ اقتدار اور شہرت کی خواہشات کی تکمیل کے لیے مروجہ اور غیر مروجہ طریقوں سے کوششیں ہمارے معاشرے میں کوئی نئی بات نہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ناعاقبت اندیش کرداروں کی لسٹ طویل ہی ہوتی جارہی ہے۔

کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی کے فیصلہ کو احسن فیصلہ قرار نہیں دیا جاسکتا اسی طرح سیاسی مصلحت کے تحت پابندی ہٹانا بھی غیر مقبول فیصلہ ہے جب تک معاہدہ پبلک نہ ہو۔ ٹی ایل پی کے معاملہ میں قومی مفاد مقدم مگر غیر ملکی فنڈنگ کے الزامات لگانے والے وزراء کیسے اپنے عہدے پر رہنے کا حق رکھتے ہیں جب حکومت ایک معاہدہ سے سب کچھ ختم کردے۔مقدمات ختم، گرفتار کارکنان کی رہائی جب حکومت کی حکمت عملی یہ ہے پھر غلط الزامات لگانے اور قوم کوتحریک لبیک کے خلاف غلط اطلاعات دینے والے بری الزمہ نہیں ہوسکتے۔ حکومت کی حکمت عملی سے ریاست کے کمزور ہونے یا بلیک میل ہونے کا تاثر قائم رہے گا۔ امن کے لیے معاہدہ بری بات نہیں مگر اس احساس و نازک معاملہ کی عدالتی تحقیقات ضروری ہیں کہ احتجاج، دھرنا، راستوں کی بندش اور انسانی جان کیوں اتنی آسانی سے ضائع کردی جاتی ہیں پھر حکومت معاہدہ کرلیتی ہے۔ الزامات کس حد تک درست تھے یا غلط پولیس اہلکاروں کے خون کا ذمہ دار کون ہے۔ یہ امر بھی اہمیت کا حامل ہے کہ معاہدہ پر کس حد تک عملدارآمد ہوتا ہے اور آئندہ ایسا احتجاج نہیں ہوگا اس کی ریاستی سطح پر کیا گارنٹی ہے۔ہمیں معاہدہ پر اعتراض نہیں ٹی ایل پی اور حکومت کے طریقہ کار پرضرور تحفظات ہیں۔ حکومت ایک قدم آگے بڑھتی ہے اور دو قدم پیچھے ہٹ جاتی ہے۔
 
Raheel Qureshi
About the Author: Raheel Qureshi Read More Articles by Raheel Qureshi: 18 Articles with 17660 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.