خاموش جنگ اور ہم؟

اقوام عالم جتنی جلدی کورونا وباء سے نمٹنے میں کامیاب ہو رہی ہے اسی قدر معاشی و اقتصادی فقدان میں دھنستی چلی جا رہی ہے۔جہاں چند ممالک روایتی جنگوں کے دھارے میں جکڑے ہوئے ہیں وہیں باقی دنیا غیر روایتی جنگوں کی زد میں ہے۔ غیر روایتی جنگوں کا بہترین ہتھیار پراپیگنڈا ہے جو عین جنگ کے وقت اپنے حریف کو آسانی سے کچلنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ عام طور پر سپر پاورز کو تیسری دنیا کے ممالک سے نمٹنے کیلئے کوئی خاص سازش کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ لیکن حریف تیسری دنیا کا ہونے کے باوجود ایٹمی پاور ہو تو اس کے خلاف ہر طرح کا قدم وبال جان ثابت ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ہم فلسطین، عراق و شام اور افغانستان کی طرف دیکھیں تو استعماری قوتوں نے بلا جھجک ان پر چڑھائی کر دی تھی مگر پاکستان آج تک ان کیلئے حلق کی ہڈی ثابت ہو رہا ہے۔ میری رائے میں پراپیگنڈا در اصل ابلاغ کے جس قدر ممکن ہو حصول سے لے کر، حاصل ہونے والی خبروں اور اطلاعات کے ذریعے ملک میں سنسنی، ریاستی اداروں کے مخالف نوجوانوں کی ذہن سازی، انتشار اور ہیجان سی کیفیت پیدا کر کے ریاستوں کو معاشی، اقتصادی اور سیاسی و عسکری سطحوں پر کمزور کرنا ہوتا ہے۔ ایسی جنگ میں دشمن اپنے حریف کیلئے ہر اس پہلو کی طرف سے حملے کرتا ہے جہاں سے اسے ذرا برابر بھی امید نظر آئے کہ وہ کامیاب ہو سکتا ہے۔ عام طور پر ان جنگوں کا میدان جذباتیت اور عقیدت کے جھنڈوں تلے سجایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں میں اشتعال اور غم و غصہ بڑھانے کیلئے مصنوعی مہنگائی، اقتصادی پابندیاں لگوانے کیلئے اندرونی و بیرونی سطحوں پر مداخلت اور بے یقینی کی سی صورتحال پیدا کی جاتی ہے۔

اگر ہم صرف سو سال پہلے عثمانی سلطنت کی تباہی میں پراپیگنڈے کے کردار کا جائزہ لیں تو شاید درج بالا تہمید کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ عثمانی سلاطین نے جس قدر فتوحات حاصل کیں اور اسلامی سلطنت کو بڑھایا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ جس دور میں اسلامی خلافت کے دعویدار سلجوق سلطنت، فاطمی خلافت، اموی خلافت اور خوارزمی سلطنتوں کے شہزادے ایک دوسرے کی جان کے در پے اور دشمنوں کے نرغے میں بری طرح پھنس چکے تھے اسی دور میں سلطنت عثمانیہ کے قیام کا آغاز ہوا تھا۔ چھ سو سال حکومت کی، غداروں اور اغیار کی سازشوں کو بے نقاب کرتے ہوئے ہر کھیل کو آہنی ہاتھوں سے برباد کیا،منگولوں جیسی سپر پاورکو شکست فاش دی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں بھی پراپیگنڈوں اور سازشوں کی یہ سلطنت بھی شکار ہوگئی اور انیس صد پینتالیس عیسویں میں آخر کار عثمانی سلطنت کا اختتام ہوا۔ اس کے محرکات کی فہرست تو بہت لمبی ہے جو اس مضمون میں قلمبند نہیں کئے جا سکتے، لیکن پراپیگنڈا کے لحاظ سے چند محرکات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ مورخین کے مطابق خلیفہ عبد الحمید ثانی کے دور میں بازنطینیوں نے عرب سلطنتوں یہاں تک کہ خود عبد الحمید ثانی کے بیٹے کی اس قدر ذہن سازی کی تھی کہ وہ بھی خلافت مخالف اور جمہوریت پسند ہو گیا تھا۔ انگریزی اخباروں میں افسانوی کالم اور خبروں کو تروڑ مروڑ کر پیش کیا جانے لگا،تاجروں کو خرید کر مصنوعی مہنگائی اور اشیاء خورد و نوش تک عوام الناس کی رسائی مشکل بنا دی گئی۔ ریاست کے اندر ریاستیں قائم کی گئیں۔ مختلف صوبوں کے گورنروں کو اقتدار کا لالچ دے کر ریاست مخالف حکمت عملیاں اپنائیں گئیں۔ محل کے اندر بھی بیٹی ،ماں اور بیٹا باپ کے خلاف ہو گیا تھا۔ بہن بھائی کے خلاف اپنے خاوند کی مدد کر رہی تھی کہ کسی طرح حکومت اس کی نسل میں منتقل ہو جائے۔ ریاست کے وفادار عہدیداروں اور معاونین کو دھیرے دھیرے ہٹایا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ سلطان کی طاقت کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ عوامی نمائندوں، تاجروں اور ضمیر فروش سیاسی شخصیات کے ذریعے فوج کے وقار اور عزت کو زمین بوس کر دیا گیا۔ لکھنے والوں کے مطابق یہ پراپیگنڈا اتنا شدید تھا کہ اسے ختم کرنے کیلئے سلطان کو اپنی اولاد اور یہاں تک کہ بہن کو بھی قتل کروانا پڑتا۔

اگر ہم ان محرکات کا مبہم سا جائزہ لیں تو باآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ عثمانی سلطنت کو سب پہلے ابلاغ کی مدد سے نظریاتی نقصان پہنچایا گیا، اس کے بعد اس نظریاتی جنگ کو محل کے اندر تک پہنچایا گیا، اور پھر مصنوعی بحران پیدا کرنے کے علاوہ عقائد کو نشانہ بنا کر لوگوں کے اندر اشتعال پیدا کیا گیا۔ اگر ہم پینسٹھ کی جنگ کے بعد سے اب تک کے ساٹھ سالوں میں پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں تو آج پاکستان جس دوراہے پر کھڑا ہے اس کے محرکات بھی کھل کر سامنے آ جائیں گے۔ غیر روایتی نسلی جنگیں ،سوویت یونین کی افغان بارڈر پر بدترین شکست سے شروع ہوئیں اوران کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ ہمیشہ سے ملک کو معاشی و تہذیبی سطح پر کمزور رکھنے کیلئے نظریاتی سطح پر نسلوں کو کمزور ترین بنا دیا گیا ہے۔ آج پاکستانی قوم ہیجان کا شکار ہے، ادارے بے سمت اور ریاستی ستون کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ ریاست کے اندر ریاستیں بن چکی ہیں۔ امیر اور طاقتور قانونی پکڑ سے باہر ہیں اور غریبوں کیلئے زمین تنگ ہو چکی ہے۔ ملک پھلنے پھولنے کی بجائے تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ آج پراپیگنڈا وار ساتویں نسل کی جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ عوام اور فوج کے درمیان تفاوت بڑھتی جا رہی ہے۔ شخصیتی پرستی نے لوگوں کے معاشرتی اقدار بدل دئیے ہیں۔ شعوری سطحیں مفلوج ہیں، دماغ ہیجان کا شکار ہیں، ساٹھ سالوں سے رچائی گئی سازشوں کا توڑ وبال جان بن چکا ہے۔ مجھے دلی افسوس ہے کہ لوگ ملک و ملت کی بقاء کی خاطر قربانی دینے کی بجائے ان شخصیتوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جنہوں نے انہیں کبھی ان سازشوں کے بارے میں آگاہ نہیں کیا۔ اگر یہ لوگ ان کے ساتھ مخلص ہوتے تو ضرور ان کی حفاظت اور بقاء کی فکر کرتے۔ میرا سوال ان تمام سیاستدانوں سے ہے کہ جب ہم سب اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ سیاست میں صرف سرمایہ کار ہی ہو سکتے ہیں غریب لوگ نہیں تو وہ کیوں آج پاکستان کی ترقی و استحکام کیلئے اپنی جائیدادوں کے کچھ حصے وقف نہیں کر دیتے؟ سارے تھانے دار، ضلعی پولیس افسران، پٹواری، کلرک، ڈپٹی کمشنرز، کمشنرز، آر پی او'ز، آئی جی سمیت تمام سیاسی، صحافتی، ٹیکنوکریٹس، بیوروکریٹس کم سے کم کرپشن سے بنایا ہوا مال ہی واپس ملکی خزانے میں جمع کرا دیں تو پاکستان کے قرضے بھی ختم ہو سکتے ہیں اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن بھی ہو سکتا ہے۔ اس کیلئے عوام الناس سے میری گزارش ہے کہ وہ ایسے کرپٹ لوگوں کا محاسبہ کریں، اور تب تک ذلیل کریں جب تک یہ لوگ کرپشن سے کمایا پیسہ ملکی خزانے میں جمع نہ کروا دیں اور حکومت ٹیکس بڑھانے کی بجائے قومی چوروں سے پیسے نکلوائے یا ان کی جائیدادیں ضبط کرے، عام عوام لوٹنے والے شریف چوروں کا قرض چکانے کیلئے نہیں بیٹھی ہوئی۔ اگر ایسا چلتا رہا اور عوام الناس کو من گھڑت ابلاغیات کا شکار ہونے دیا جاتا رہا تو عین ممکن ہے کہ ہم یہ ساتویں نسل کی جنگ ہار جائیں اور دشمن ہمیں آپس میں جھگڑتا دیکھ کر ہم پر چڑھ دوڑے۔ عوام فیصلہ کرے کہ اسے پراپیگنڈوں کے زیر اثر آنے والے ضمیر فروشوں اور کم عقلوں کی صف میں کھڑے ہونا ہے یا عملی طور پر ہر طرح کی قربانی دے کر ملک بچانے والوں کی صف میں؟ حکومت کیلئے اس امر کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ برقی رابطوں کے ذرائع کے ترجمان کے ساتھ معاملات طے کر کے انہیں پاکستان اور اسلام مخالف پراپیگنڈوں اور جھوٹی خبریں روکنے پر پابند کرے۔

 
Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 190143 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More