شرک اور شرق
(Muhammad Nasir Iqbal Khan, Lahore)
قابل نفرت جمہوریت نے ہماری محبوب ریاست ،مشرقی معاشرت
اورمقروض معیشت کوقابل رحم بنادیا،آج ہم آئی ایم ایف اورورلڈ بنک کے رحم
وکرم پر ہیں،جو قوم "خودمختار"اور"خودکفیل" نہ ہووہ" خوددار" نہیں
ہوسکتی۔یادرکھیں انسان کابنایاہوا نظام جمہوریت نظام خلافت کامتبادل نہیں
ہوسکتا ، میں سمجھتا ہوں صدارتی طرز حکومت آئی سی یومیں پڑی ہماری ریاست
کیلئے آکسیجن کاکام کرے گا۔یادرکھیں"غرب" اور"شرک" کانظام " شرق" میں کسی
صورت نہیں چلے گا،بہت دورتک جانے کے بعد اوربہت دیرسے واپسی کی صورت میں جو
شدیدنقصان ہوگااس کی تلافی نہیں ہوگی لہٰذاء پارلیمانی جمہوریت سے فوری
نجات میں عافیت ہے ۔اناڑیوں کے ہاتھوں پوسٹ مارٹم کے نتیجہ میں بدنصیب اور
نحیف ریاست کی رَگ رَگ سے خون رِس رہا ہے۔اس بدصورت جمہوریت کی کھوکھ سے
کئی بارشخصی آمریت پیداہوئی اوراس بدچلن جمہوریت کی نحوست سے کئی بار قومی
حمیت کاجنازہ اٹھا،اس جمہوریت نے حکمرانوں کوامیرکبیر بنادیا جبکہ ریاست
مفلس اورمقروض ہوتی چلی گئی ۔ بدبودارجمہوریت ہماری ریاست میں دندناتے کئی
سیاسی بونوں کی" ماں" اوراس کی آغوش میں قومی چوروں کیلئے "اماں" ہے ۔اس
پلید جمہوریت کی چھتری تلے کسی" بدعنوان" حکمران کااحتساب اورکسی" بدزبان
سیاستدان" کامحاسبہ نہیں ہوسکتا ۔ آہ ! تاریخ گواہ ہے اس جمہوریت نے ہماری
ریاست کو"بربادیوں" کے سوا کچھ نہیں دیا ،اس نظام نے کسی بارودی سرنگ کی
طرح " بردباروں" ،"باکرداروں"اور"ایمانداروں" کا راستہ روکا جبکہ اناڑیوں
،زرداریوں ، بزداروں، فوادیوں،فسادیوں ،شیخی ماروں اور شو بازوں کی منتخب
ایوانوں تک رسائی کا راستہ ہموار کیا۔جمہوریت نے ہم سے مدبر قومی قیادت ،
اجتماعی لیاقت ،وحدت ، رواداری اوربردباری چھین لی جبکہ ریاکاری اورنفاق
کازہرہماری رَگ رَگ میں اتاردیا۔
تخت ِاِسلام آبادپر براجمان کپتان،تخت ِلاہورپرجلوہ افروز بزدار اورتخت
ِکراچی پرمتمکن مرادعلی شاہ نے ہماری عزیزترین ریاست کوتختہ مشق بنایا ہوا
ہے ، آزاد کشمیر ، خیبرپختونخواہ اوربلوچستان سے بھی کوئی نوید اور ٹھنڈی
ہوا نہیں آتی ۔حکومت بچانے اوراقتدار ہتھیانے کیلئے ریاست کے ساتھ سیاست
کرنیوالے کردار قومی مجرم ہیں۔ میں شروع سے تبدیلی سرکار کو"تبادلے سرکار"
کہتا ہوں کیونکہ منتقم مزاج حکمرانوں نے تین برسوں میں دھڑا دھڑ تباد لوں
کے سوا کچھ نہیں کیا۔تبدیلی سرکار کے دوراقتدارمیں "انتظامی" نہیں
"انتقامی" بلکہ"غلامی" بنیادوں پر تبدیلیاں اور تقرریاں ہوتی ہیں ۔جوکوئی
ان اناڑیوں کی غلامی اوراطاعت نہیں کرتا اس کی شامت آجاتی ہے۔پولیس کلچر کی
تبدیلی کے داعی کپتان اوربزدارنے پولیس کلچر کاکچرابنادیا ،پولیس میں بار
بار اکھاڑ پچھاڑ نے اس محکمے کامورال بری طرح گرادیا۔ تحریک انصاف کے"
انصاف" کامعیاراورکپتان کادوہرامعیار دیکھیں ، تحریک لبیک کے ساتھ مذاکرات
کے نتیجہ میں تو مفاہمت ہوگئی،ان کے اسیران رہا ہوگئے جوریاست اورسیاست
کیلئے خوش آئند ہے تاہم شہیدوں کی وارث لاہورپولیس کے مستعد سی سی پی
اولاہور غلام محمودڈوگر،ڈ ی آئی جی کیپٹن (ر)محمدسہیل چوہدری،دانشورشارق
جمال خان ،فرض شناس ایس ایس پی اسماعیل الرحمن کھاڑک،پروفیشنل ایس ایس پی
سیّدندیم عباس سمیت پنجاب پولیس کے اہم آفیسرزمنتقم مزاج کپتان کے انتقام
کانشانہ بن گئے۔غلام محمودڈوگر نے معاملات کوخوش اسلوبی سے سنبھال لیا
تھاتاہم پرعزم غلام محمودڈوگر سمیت کوئی "بردبار"آفیسر اناڑی "بزدار" کے
ساتھ نہیں چل سکتا۔ سرگودھا کے انتھک اورفرض شناس آرپی اواشفاق احمدخان
انتہائی پراعتماداورپروقار اندازسے اپنے ڈویژن میں ڈیلیورکررہے تھے اس کے
باوجود انہیں راولپنڈی ٹرانسفر کردیاگیا تاہم وہ وہاں بھی اپنی خداداد
انتظامی وقائدانہ صلاحیتوں کامظاہرہ کرتے ہوئے امن وامان کی صورتحال میں
بہتری کیلئے اپنا کلیدی کرداراداکریں گے ۔پچھلے دنوں ایک صوبائی وزیر کے
بھائی کی تقریب ولیمہ میں بزدار کے آنے پرہونیوالے قتل کی پاداش میں منجھے
ہوئے ڈی آئی جی ساجدکیانی کوسی پی اوٹرانسفربلکہ کارنر کردیا گیا، ان کی
صلاحیتوں اورتوانائیوں سے مستفید ہونے کی ضرورت ہے ۔ اب تحریک لبیک کے
ہاتھوں تبدیلی سرکار نے جوخفت اٹھائی اس کاغصہ لاہورکے سی سی پی اوغلام
محمودڈوگر سمیت ان کے ٹیم ممبرزاورمتعدد آرپی اوزاورڈی پی اوز پرنکال
دیاگیا۔پنجاب پولیس کے اندرونی وانتظامی معاملات میں کپتان کی بیجامداخلت
درحقیقت جارحیت کے زمرے میں آتی ہے۔
پولیس ایک ڈسپلن فورس ہے ورنہ کوئی باضمیراورخوددار آفیسر وفاق میں کپتان
اورپنجاب میں بزدار کے ساتھ کام کرنے کیلئے رضامند نہ ہوتا ۔ کپتان اوراس
کے حامی تین برسوں کے باوجود "ڈیلیور" کرنے اورمدمقابل قوتوں کے ساتھ
بامقصد" ڈائیلاگ" کرنے میں ناکام رہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی آئینی مدت
پوری کرنے پربضد ہیں۔میں پھر کہتا ہوں تبدیلی سرکار کے دوراقتدارمیں" چور"
بند ہوئے نہ "چوری" بندہوئی تو پھر کپتان کو کس بنیاد پرصادق و امین ہونے
کازعم ہے۔ہماری محبوب لیکن معتوب" ریاست "کسی کے باپ کی" وراثت" نہیں
،حکمران" کرایہ دار" ہیں توکرایہ داروں کی طرح رہیں، ہمارے ملک عزیز کے
"مالک ومختار" بننے کی کوشش اورفیڈریشن کیخلاف سازش نہ کریں۔جواپنے ہاتھ
میں تسبیح تھام کرعوامی اجتماعات میں مخالفین پرکیچڑاچھالتاہووہ ہرگزریاست
مدینہ کاداعی اورصادق وامین نہیں ہوسکتا۔جو"عزت دار"ہووہ دوسروں کی عزت
اچھالناپسندنہیں کرتا،جو"امانت دار"ہووہ قومی وسائل کاضیاع برداشت نہیں
کرتا۔جوصادق ہو وہ کسی مصلحت کے تحت بھی جھوٹ نہیں بولتا ،اس کے قول وفعل
میں تضاد نہیں ہوتا۔ریاست کی بقاء کیلئے ناکام کپتان اوراس کی بدنام ٹیم
کوہٹانا از بس ضروری ہے لیکن نیب زدہ اورآسیب زدہ" اپوزیشن" اس" پوزیشن
"میں نہیں۔
تحریک لبیک کا مارچ روکنے میں ناکامی پربدانتظامی کے علمبرداروں ،اناکے
اسیروں اوربزداروں نے پنجاب پولیس کوتخت مشق بنالیا۔وزیراعظم عمران خان
،وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار سمیت وفاقی وصوبائی وزراء نے حالیہ تین
برسوں میں قدم قدم پربدترین "بلنڈر" Blunderکئے لیکن ان میں سے کوئی مستعفی
ہوااورنہ کسی کوہٹایاگیا لیکن پولیس حکام کوماورائے آئین احکامات کی عدم
بجاآوری پرانتقام کی آگ میں جھونک دیاجاتا ہے۔ پولیس نے تحریک لبیک کامارچ
ناکام بنانے اوراس کاراستہ روکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،اس دوران متعدد
اہلکار وں نے فرض کی بجاآوری کے دوران جام شہادت نوش کیا لیکن الٹا پنجاب
پولیس زیرعتاب ہے ،اناڑی حکمرانوں نے اپنی مجرمانہ حماقتوں اورشرمناک
ناکامیوں کاملبہ بھی پولیس پرڈال دیا ۔واصف علی واصف ؒ کاقول ہے ،"بادشاہ
کاجرم، جرموں کابادشاہ ہے" ،حکمران اپنے سیاسی گناہوں اور انتظامی غلطیوں
کا بھی حساب دیں۔ تحریک لبیک کے سیاسی و انتظامی معاملے کومکالمے سے
سلجھانا تھا جوسلجھالیا گیالیکن اس سلسلہ میں حکومت کی طرف سے مجرمانہ"
دیر" نے "اندھیر" مچادیا ۔ یوٹرن برانڈ تبدیلی سرکار کی طرف سے تحریک لبیک
کے ساتھ عہد شکنی کے بعد سعدرضوی کی گرفتاری کافیصلہ عاقبت نااندیشانہ
،منافقانہ اورمجرمانہ تھا، اس متنازعہ اقدام نے ملک ،عوام اور سکیورٹی
فورسز کوبدامنی کی آگ میں جھونک دیا۔ سعد رضوی کی گرفتاری کے فوری بعد
اورتحریک لبیک کے حالیہ مارچ کے دوران ہونیوالے کشت وخون کے بعدکامیاب
مذاکرات کے نتیجہ میں تحریک لبیک کی بحالی اوراسیران کی رہائی کے بعد
تبدیلی سرکار پر"سوجوتے اورسوپیاز "کامحاورہ صادق آتا ہے۔کپتان نیازی اپنے
قبیلے کے سرخیل منیر نیازی مرحوم کی شہرہ آفاق نظم" ہمیشہ دیرکردیتا ہوں
میں" پرغورکرتے ہوئے اپناطرز حکومت تبدیل کریں ۔حکومت نے ریاستی رٹ پر ضرب
لگانیوالی جماعت کے ساتھ مفاہمت کرلی لیکن جوپولیس فورس اپنی زندگیاں تک
داؤپرلگاتے ہوئے ریاستی رٹ برقراررکھتی اوراس دوران اپنے پیاروں کے جنازے
اٹھاتی ہے اس کے حصہ میں" انعام "کی بجائے "انتقام "آیا ۔حکومت کی طرف سے
پنجاب پولیس میں ہونیوالی حالیہ تبدیلیاں اورتقرریاں اچھا پیغام نہیں
ہیں،تبدیلی سرکار کے اس آمرانہ اقدام سے پولیس حکام اوراہلکاروں کاجوش
وجذبہ ماندپڑجانافطری امر ہے۔کوئی سرکاری ملازم کسی حکمران کاغلام نہیں
ہوتا،ان کی وفاداریاں حکومت نہیں ریاست کے ساتھ جبکہ ان کی توانائیاں ملک
وقوم کیلئے وقف ہوتی ہیں۔"بردبارو ں" کا"بزداروں" کے رحم وکرم پرہوناایک
المیہ ہے۔
کپتان اوراس کامعتمد بزدار تین برسوں کے دوران بلندبانگ دعوؤں کے
باوجودمہنگائی روکنے جبکہ بدامنی کے آگے بندباندھنے میں ناکام رہا،اپنے
پیشرو حکمرانوں کی طرح موجودہ شعبدہ باز حکمران بھی" ڈینگی" کی بجائے
"ڈینگیں "مارتے رہے جبکہ شہری ڈینگی کے ہاتھوں بے موت مرتے رہے اس کے
باوجود پنجاب کے منتظم اعلیٰ کا اپنے منصب پربرقرارہوناایک بڑاسوالیہ نشان
ہے ۔پنجاب کاہر طبقہ" بزدار" سے "بیزار" اوراس سے فوری نجات کاخواہاں لیکن
کپتان اس کاپشت بان ہے ،
اس "رنجیدہ "صورتحال نے راقم سمیت معاشرے کے" سنجیدہ "طبقات کو بانجھ
جمہوریت سے متنفرکردیا ۔پاکستان کے زیادہ تر "لوگ" جمہوریت نامی" روگ" سے
چھٹکارے کیلئے صدارتی طرز حکومت کی طرف دیکھتے ہیں جونظام خلافت کے نزدیک
تر ہے۔کپتان تودرکناردنیا کی کوئی طاقت جمہوریت کے ساتھ پاکستان کوریاست
مدینہ ثانی نہیں بناسکتی ۔جس طرح اﷲ رب العزت واحد اوراس کامحبوب یکتا ہے
اس طرح دنیا میں کوئی دوسری ریاست مدینہ نہیں بن سکتی ۔کپتان کیلئے ننگے
پاؤں مدینہ شریف جانے کی بجائے قوم کی بیٹیوں کے ننگے سرڈھانپنا بہتر ہے۔
|
|