فنا سے جی چرانا ممکن ہی
نہیں فنا ہر شے کو ہے سوائے واحدہ
لا شریک کہ جسکو ہم رب العالمین
کہتے ہیں پہلے تو یہ بات ہمیں ہر
وقت نظر میں رکھنی چاہیے۔
کب تک ہم غیر ملکی اخباروں کی
ہیڈنگز اپنے معصوم لوگوں کو سنا سنا
کر انکو بلا ضرورت پریشان کرنا چاہتے
ہیں کہ پاکستان خدانخواستہ دو ہزار دس
یا دو ہزار بیس میں دنیا کے نقشے
سے مٹ جائے گا اور یہ ہو جائے
گا اور وہ ہو جائے گا۔ ارے بھائی
کیا آج سے دس بارہ سال پہلے کے
غیر ملکی اخبار کے کالمز اور ماہرین
کی آرا بھول گئے جن کو پاکستان دو
ہزار اور دو ہزار چار میں بھی دنیا
کے نقشے میں نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ
غیر ملکی ماہرین جو اپنے آپ کو تھنک
ٹینک کا نام دے کر فضول میں ترقی
پزیر ممالک کو پریشان کرتے رہتے ہیں
تاکہ ترقی پزیر ممالک اپنے راستے پر
چلنے کے بجائے گھراہٹ میں دوسرے راستے
تلاش کرنا شروع کریں۔ کیا ہوا ان
نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کے
اقتصادی ماہرین کو کہ آج انکا ملک
اور تمام ترقی یافتہ ممالک کس طرح
کے بے انتہا وسائل اور سرمائے کے
باوجود کتنے خطرناک قسم کے اقتصادی بحران
کا زمہ دار ہے اس کو تو کوئی
نہیں دیکھ رہا اور پاکستان دہ ہزار
بیس میں لوگوں کو نظر نہیں آرہا ۔
اوہ میرا بھائی ہاتھ ھولا رکھ اور
پاکستان تو لوگوں کو خواب میں بھی
نظر آ آکر پریشان کرتا ہو گا اور
انکو دو ہزار بیس میں نظر نہیں آرہا۔
کیا کھانے کے مسائل، دہشت گردی ،
سرکاری خراب حکمت عملی ، آمریت اور
مزید بہت سی چیزیں کیا صرف پاکستان
کا مسئلہ ہے کیا پاکستان کے مقابلے
میں خطرناک مسائل دوسرے ممالک میں نہیں
ہیں (افتانستان، شمالی کوریا، عراق، صومالیہ،
سری لنکا، بنگلہ دیش، زمبابوے، سابق رشیا
کی کئی ریاستیں، خود ماضی کا عظیم
روس، مالدیپ، قریبا پورا افریقا سوائے چند
افریقی ممالک کو چھوڑ کر، شمالی امریکہ،
برازیل، میکسیکو، وغیرہ وغیرہ، تو ان تمام
ممالک کے مسائل تو پاکستان سے بھی
کئی گنا زیادہ ہیں مگر انکو تو کوئی
ماہر نہیں کہتا کہ یہ دو ہزار بیس
اور دو ہزار تیس میں دنیا کے نقشے
سے مٹ جائیں گے۔
ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں زمبابوے
کی کرنسی دس لاکھ سے بھی زیادہ مل
جاتے ہیے ، کچھ پتہ ہے کہ ایک
پاکستانی روپے میں کتنے عراقی دینار اور
کتنے افتانی روپے خدا کے واپستے پاکستان
کے لیے سوچو اور پاکستان کے لوگوں
کو فضول میں مت پریشان کرو تمام
لوگوں کو خدا کا واسطہ |