چوکیدار حاضر چور غائب،پاکباز حاضر گنہگار غائب،نیک حاضر بد غائب ، یہ
حاضرجن کو پکڑنے آے تھے وہ سارے غائب،جو پکڑنے آئے تھے وہ بھی آہستہ آہستہ
غائب ،یقین نہیں تو خود دیکھ لیجیے نہ جانے یہ تبدیلی کا سفر کہاں جا کر
رکے گا، رکے گا بھی یانہیں اب تو فرسٹریشن کے ساتھ انجانے سے خوف نے بھی
ڈیرے ڈال لیے نہ جانے آنے والا وقت کیسا آ رہا اور کل کا سورج کیا لیکر
طلوع ہو گا نااہلی اور کاہلی اپنے پورے جوبن پر ، ، سب سے زیادہ پس رہا تو
سفید پوش طبقہ جس کے چودہ طبق روشن ہو چکے ،کاروبار حیات چلانا بس سے اب
باہر ہوتا جا رہا خدا کے لیے بس کر دیں اگر یہ بوجھ نہیں اٹھایا جا رہا تو
بلاوجہ کی ضد مزید تباہی لا رہی ،جو کچھ آپ نے کر دیا اس پر بھی فقط اﷲ سے
ہی امید کہ وہی رحم کرے گا تو اپنا معاملہ آگے بڑھے گا، یہ جو تبدیلی کے
رتھ پر سوا ہو کے آئے تھے انہوں نے کیسے کیسے شاندار وعدے نہ کیے تھے اور
لگتا تھا کہ یہ پاکستان کو جنت نظیر بنا کر ہی چھوڑیں گے مگر جب وقت پڑا تو
حالت دیکھئے،ایک سے ایک بڑا اسکینڈل ان کے دور میں بنا اور مزے کی بات یہ
کہ اسکینڈل بھی غائب ہو ا اور ساتھ اس کے مرکزی کردار بھی غائب ،زولفی
بخاری غائب رنگ روڈ اسکینڈل کا بھی نام ونشان غائب،ایک افضل نام کے جنرل
ہوا کرتے تھے نہ جانے کہاں گئے اور کرونا فنڈ کہاں غائب ہوا کوئی پتہ نہیں
،کاووے موسوی بھی غائب اور براڈ شیٹ کو دیئے گئے اربوں روپے بھی غائب ،اب
نیب کی طرف سے ریکور کیے گئے 821روپے بھی غائب ، ریکور کرنے والے بھی غائب
،اور تو اور جن سے ریکور کیے ان کا بھی کوئی اتہ نہ پتہ، مطلب وہ بھی
غائب،پینڈورا پیپرز اور ان میں شامل ناموں کے خلاف ایکشن بھی غائب اور نام
والے بھی غائب،میڈم یاسمین راشد کے بقول اگر کرونا فنڈز کے بارہ سوارب کی
خرد برد کاذکر کیاتو دنیا اعتبار نہیں کرے گی سو بارہ سو ارب کا مدعا بھی
غائب،دواؤں کا اربوں کا اسکینڈل اور اور دوائیں غائب اور کیانی صاحب بھی
غائب اور پھر حاضر ہو کر دوبارہ انصافینز کے جنرل سیکریٹری ،بابا ڈیم غائب
ساتھ میں اس کا ڈیم بھی غائب،مالم جبہ اسکینڈل اور ہیلی کاپٹر اسکینڈل غائب
،ستر ارب روپے سلائی مشینوں کی آمدن غائب،بلین ٹری غائب تو میٹرو پشاور
یعنی بی آ رٹی کے اربوں بھی غائب،ندیم بابر ایل این جی پٹرولیم اسکینڈل
غائب،علیم خان اسکینڈل غائب،پاکستان پوسٹ کا اسکینڈل غائب ،چینی غائب ،چینی
غائب کرنے والے بھی غائب،گندم افغانستان کی طرف غائب اور گندم والے بھی ایک
ایک کر کے غائب،سابقہ یعنی پہلے والے چور تھے ہیں کدھر گئے سب غائب ،پانامہ
بھی غائب، اقامہ بھی غائب ،پانامہ کے باقی تین سو ننانوے نام غائب تو
پانامہ والا ایک بڑا نام بھی غائب ،ملزم غائب تو اب گارنٹر بھی غائب ،کتنے
پیسے وصول کیے پوچھو تو کھاتا غائب، کتنوں سے کیا ریکور کیا سوال کرو تو
جواب غائب،ایک سے ایک بڑھ کر نمونہ اپنے ساتھ گانٹھ رکھا،کل تک کالعدم ٹی
ایل پی انڈین ایجنٹ اور غدار،آج فتوے اور غداری کے سارے سرٹفکیٹ بھی غائب
،بجلی سردی کے موسم میں بھی غائب تو گیس آنے والے وقت میں غائب ہونے کی
نوید اور امید،ہر میدان میں کشتوں کے پشتے لگا دیئے ،اوپر سے کہا جا رہا کہ
مہنگائی دنیا بھر میں ہوئی ،پٹرول کی بے لگام قیمت کو یہ جواز بخشا جا رہا
کہ انڈیا میں بنگال میں ترکی اور اور انگلینڈ میں اب بھی ہم سے مہنگا ،ما
شااﷲ اب دس بیس لٹرپٹرول کے لیے بندہ بارڈر پار جائے اور پتہ کرے کہ کیا
ریٹ چل رہا تہاڈے کول ،رہ یہاں رہے تو غرض بھی یہیں سے،یہیں مر کے دفن بھی
یہیں ہونا، یکم کو پٹرولیم اضافے کی سمری مسترد کر کے پانچ تاریخ کو راتوں
رات آٹھ روپے بڑھا کر خود غائب،سارا وژن اور ساری لیڈر شپ غائب، بھوک اور
مفلسی کا ننگا ناچ گھر گھر حاضر،امن و سکون غائب ،بچے روٹی اور بزرگ دواؤں
کو ترس رہے یں دو وقت کی روٹی کھائیں یا ایک وقت کی دوا کسی کو کچھ سمجھ
نہیں آ رہی ،آپ نے تو ریاست مدینہ کا وعدہ کیا تھا یہ کربلا میں کدھر لے
آئے ہیں ،کبھی مارکیٹ کا چکر تو لگائیں عام مزدور سے اس کے حالات تو پوچھیں
کہ گذر کیسے ہو رہی ہے گھر کا بجٹ کیسے ترتیب دیا جا رہا ہے یوٹلیٹی بلز
آٹے گھی چینی اور ایل پی جی نے کمر توڑ کر رکھ دی ہے، ایک کلو گیس 250روپے
میں آ رہی گویا چنے اور مونگ کی دال اور ایل پی جی کا ریٹ برابر ہو
گیا،کدھر گئے وہ اربوں ڈالر جو آپ کے بقول باہر کے ملکوں میں پڑے تھے آپ
ڈالر کیا واپس لاتے آپ نے تو ان کو بھی باہر بھیج دیا جن کے ڈالر باہر پڑے
ہیں،قوم کے ساتھ اتنا بڑا دھوکا تو شاید پچھلے ستر سالوں میں نہیں ہو ا،کیا
یہ وہ تبدیلی تھی جس کے لیے آپ نے بائیس سال جدو جہد کی کیا یہی وہ نیا
پاکستان بننا تھا جس کا آپ نے خواب دکھایا تھا ،نہ انصاف نہ قانون نہ
روزگار نہ حالات کچھ بھی تو نہیں بدل سکے آپ ،جس ملک میں دوائیں دو نمبر
اور پینے کا صاف پانی بھی میسر نہ ہو انہیں جب مہنگائی کے ہر نئے جھٹکے کے
ساتھ یہ کہا جائے کہ آپ نے گھبرانانہیں تو حیرت تو ہوتی ہے کہ وہ کون سے
مقام آئے گا جس پر گھبرانے کی اجازت ہو گی ،اس مہنگائی اور گراں فروشی کا
سب سے زیادہ متاثر عام آدمی بلکہ مڈل مین جسے درمیانہ طبقہ کہا جاتا ہے
ہوتا ہے وہ کسی سے مانگ سکتے ہیں نہ کسی سے چھین سکتے ہیں ،دوسرا المیہ
چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہے اسٹریٹ کرائمز جو
کبھی صرف کراچی اور کچھ بڑے شہروں تک محدود تھے آج چھوٹے شہروں قصبوں اور
گلی محلوں تک آن پہنچے ہیں ،جب چند ڈاکو دندنانتے ہوئے دیوار پھلانگ کر
اندر آ دھمکتے ہیں تو ان کے ہاتھ میں گنز اور پستول دیکھ کر بڑے بڑے گھبرا
جاتے ہیں آپکا وعظ نصیحت وہاں کسی کو یاد نہیں رہتا ،پہلی دفعہ ہو رہا ہے
کہ آپ مہنگائی کے لیے باقاعدہ ٹی وی پر آ کر اعلان فرما رہے ہیں ،دوسری طرف
گلہ کرتے ہیں مافیاز کام نہیں کرنے دیتے ،پہلی بات تو یہ ہی عجیب ہے کہ کون
سا ایسا مافیا ہے جو ریاست سے بھی زیادہ طاقتور ہے ریاست کا مقابلہ تو ٹی
ٹی پی اور داعش نہیں کر سکتی یہ مافیاز کیا چیز ہیں مگر جب آپ پٹرول دس
روپے مہنگا کرنے سے دو دن قبل سرکاری ٹی وی پر اعلان کریں کہ مہنگا کرنا
مجبوری ہے تو اندازہ کریں کیسی چاندی ہوئی مافیاز کی کہ جنہوں نے بڑی آ
سانی سے لاکھو ں لٹر پٹرول ذخیرہ کر لیا اور راتوں رات کروڑوں روپے عوام کی
جیبوں سے نکال لیے ،اب تو عوام کو سمجھ ہی نہیں آ رہا کہ ان کے ساتھ ہوا
کیا انہوں نے تو خواب مدینہ کی ریاست کے دیکھے تھے آپ کی بات مان کر انکھ
کھلی تو خود کو ایتھوپیا میں پا رہے ہیں ،آپ کدھر لیکر جا رہے ہیں ملک کو ،
آج کی دنیا میں جس ملک میں جمہوریت مظبوط نہیں اس کی معیشت مظبوط نہیں اور
جمہوریت اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلے بغیر مظبوط نہیں ہو سکتی اتنی عام سی بات
نہ جانے آپ کی سمجھ شریف میں کیوں نہیں آ رہی ،رہا احتساب تو وہ آپ ان
اداروں کو آ زاد کریں جن کی یہ ذمہ داری ہے اگر وہ آ زادانہ اپنا کام کرتے
تو وہ اپنے پراے کی تفریق کے بغیر سب کو پکڑتے ساتھ آپ کو روزانہ یہ
ڈائیلاگ بازی نہ کرنا پڑتی اوے میں کسے نوں نہیں چھڈاں گا اور ملک کے حالات
بھی کہیں بہتر ہوتے ،عام آدمی کو سمجھ ہی نہیں ا ٓ رہی کہ اس کی اس حالت کا
ذمہ دار کون ہے کیوں کہ چوکیدار حاضر چور غائب،پاکباز حاضر گنہگار غائب،نیک
حاضر بد غائب ، یہ حاضرجن کو پکڑنے آے تھے وہ سارے غائب،جو پکڑنے آئے تھے
وہ بھی آہستہ آہستہ غائب ،یقین نہیں تو خود دیکھ لیجیے نہ جانے یہ تبدیلی
کا سفر کہاں جا کر رکے گا ،رکے گا بھی یانہیں اب تو فرسٹریشن کے ساتھ
انجانے سے خوف نے بھی ڈیرے ڈال لیے نہ جانے آنے والا وقت کیسا آ رہا اور کل
کا سورج کیا لیکر طلوع ہو گا نااہلی اور کاہلی اپنے پورے جوبن پر ، ، سب سے
زیادہ پس رہا تو سفید پوش طبقہ جس کے چودہ طبق روشن ہو چکے ،کاروبار حیات
چلانا بس سے اب باہر ہوتا جا رہا خدا کے لیے بس کر دیں اگر یہ بوجھ نہیں
اٹھایا جا رہا تو بلاوجہ کی ضد مزید تباہی لا رہی ،جو کچھ آپ نے کر دیا اس
پر بھی فقط اﷲ سے ہی امید کہ وہی رحم کرے گا تو اپنا معاملہ آگے بڑھے گا،
،،
|