وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر چیف سیکریٹری آزاد کشمیر
نے ریاستی سیکریٹریز کو جنگ بندی لائن کے عوامی مسائل کا موقع پر جائزہ
لینے اور ان کی نشاندہی کرنے کا ٹاسک دیا۔سیکریٹریز حکومت نے کشمیر کی جنگ
بندی لائن پر بھارتی جارحیت کے شکار عوام کے مسائل سنے۔ عوام کو مسائل کے
حل کی یقینی دہانی کرائی گئی۔ اب سیکریٹری صاحبان اپنی مفصل رپورٹ سفارشات
سمیت چیف سیکریٹری کو پیش کر رہے ہیں۔بھارت نے راولاکوٹ اور کھوئی رٹہ
سیکٹروں سمیت وادی نیلم، وادی لیپا، نکیال، ، تتہ پانی، منڈھول، چکوٹھی ،
فاروڈ کہوٹہ غرض ہر جگہ عوام کو مصائب کا شکار بنایا۔وہ جب بھی موقع ملتا
ہے سیز فائر لائن کے سیکٹرز پر آبادی کو نشانہ بنا تاہے۔بھارتی صدر،وزیر
اعظم، آرمی چیف اور وزیر مشیر مقبوضہ کشمیر میں اپنی قابض فوج کا حوصلہ
بلند کرنے کے لئے آئے روزسیز فائر لائن پہنچ جاتے ہیں۔ وہ فوجیوں کے ساتھ
تہوار مناتے ہیں۔ نریندر مودی نے بھی دیوالی کا تہوار گزشتہ دنوں مقبوضہ
کشمیر میں منایا۔ اس وقت سیز فائر لائن کے مختلف سیکٹرز پر پاک فوج اور
قابض بھارتی فوج کے درمیان مٹھائیوں اور تحائف کا تبادلہ بھی ہوا۔مگر یہ سب
جنگ بندی لائن کے متاثرین کے زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ لوگ
بلا شبہ امن چاہتے ہیں۔ مگر بھارت نے چین کے ساتھ کشیدگی کے دوران پاکستان
کے ساتھ وقتی امن قائم کیا ہے۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں قتل عام جاری رکھے ہوئے
ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے بھی جنگ بندی لائن کے معصوم عوام کو بھارتی دہشتگردی
سے محفوظ رکھنے کے لئے بنکرز کی تعمیر کے وعدے کئے تھے۔ جن کو پورا کرنے کی
ضرورت ہے۔وہ پاک فوج اور عوام کا حوصلہ بڑھانے کے لئے جنگ بندی لائن کا
دورہ کریں تو یہ بھی فائدہ مند ہو گا۔پہلے بھی حکمران صرف دعوے اور وعدے
کرتے رہے ہیں۔گولہ باری سے بچنے کے لئے عوام کو بنکرز کی تعمیر کے لئے
اعلان کردہ فنڈز نہ دیئے گئے ۔ عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت بنکرز تعمیر کئے
۔ یہ مورچے 2005کے زلزلہ میں تباہ ہوئے۔ کچھ بارشوں اور برفباری کی نذر
ہوئے۔
جنگ بندی لکیر کے عوام بظاہر زمانہ امن میں بھی بھارتی جارحیت کا شکار رہتے
ہیں۔ 1989سے 2003تک آزاد کشمیر کی جنگ بندی لائن پربھارت نے مسلسل گولہ
باری کی۔ جس سے ہزاروں کی تعداد میں شہری شہید ہوئے۔ شہداء میں بڑی تعداد
بچوں اور خواتین کی بھی تھی۔ ہزاروں لوگ معذور ہوئے۔ عوامی ، تعلیمی،
کاروباری سرگرمیاں ٹھپ ہوئیں۔ معیشت تباہ ہوئی۔ کھیتی باڑی کا سلسلہ رک
گیا۔ لوگ مال و مویشیوں سے بھی محروم ہوئے۔ زیر تعلیم بچے شہید اور زخمی ہی
نہیں ہوئے بلکہ سکولی عمارتیں بھی گولی باری سے خاکستر ہو کر زمین بوس ہو
گئیں۔ جنگ بندی لائن پر کئی راستے بھارتی گولہ باری کی زد میں آ گئے۔ جس کی
وجہ سے ان کے متبادل بائی پاس راستے تعمیر کئے گئے۔ یا قدیم راستوں کے آگے
کنکریٹ دیواریں لگائی گئیں۔ یہ سب عارضی انتظام تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہی
یہ دیواریں بھی گر گئیں۔ نئے راستے بھی تباہ ہو گئے۔ کیوں کہ ان کی مرمت پر
بعد ازاں توجہ نہ دی گئی۔ ظفر اﷲ خان جمالی کے دور میں 2003میں پاکستان اور
بھارت نے جنگ بندی کا معاہدہ کر لیا۔ قدیم راستے پھر کھل گئے۔ بھارت نے اس
معاہدہ کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔ اپنے مورچے تعمیر کر لئے۔کرالیں کھدوائیں۔
نئی شاہرائیں بھی تعمیر کیں۔ خار دار تاریں اور دیواریں لگا دیں۔ تا ہم
پاکستان یا آزاد کشمیر کی حکومتوں نے توجہ نہ دی۔ زمانہ امن سے کچھ فائدہ
نہ اٹھایا۔ بائی پاس راستوں کی مرمت کی جانب بھی توجہ نہ دی۔ دوسری طرف
جنگی تیاریاں جاری رہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی بھی کچھ نہ کیا گیا۔ جنگ بندی
لائن پر بھارت نے شیلنگ کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔آج ایک بار پھر بھارت نے
اپنی ریاستوں میں انتخابات کی مہم جوئی کے دوران سیز فائر لائن پر گولہ
باری تو نہیں کی مگر مقبوضہ کشمیر میں بڑا آپریشن جاری رکھا ہے۔پونچھ کے
جنگلات میں وہ گولہ باری سے آبادی کو خوفزدہ کرنا چاہتا ہے۔ بلا شبہ عوام
بہادر اور دلیر ہیں۔ وہ بھارت سے کوئی خوف محسوس نہیں کرتے۔ اگر جنگ بندی
لائن پر بھارت نے گولہ باری کا سلسلہ پھر سے شروع کیا تو اہم راستے اس کے
نشانہ پر آ جائیں گے۔ کم از کم بائی پاس راستوں کی مرمت کی جانی چاہیئے یا
قدیم راستوں کو گولہ باری سے بچانے کے لئے کوئی اقدام ہی کیا جائے۔ نئی
دیواریں بھی تعمیر کی جا سکتی ہیں۔ کئی مقامات پر ایسا ہوا ہے۔ تباہ ہونے
والی کنکریٹ اور حفاظتی بندوبست کی طرف بھی توجہ دینا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ
ہی جنگ بندی لائن پر اشیائے خوردنی، ادویات کا سٹاک ہنگامی نوعیت کا مسلہ
رہتا ہے۔ موبائل ایمبولنسز کی بھی ہر وقت ضرورت رہتی ہے جب کہ فائر فائٹرز
بھی لازمی ہوتے ہیں۔
جنگ بندی لائن کے عوام نے ہر وقت انتہائی دلیری، ہمت اورحب الوطنی کا ثبوت
پیش کیا۔ اپنی مدد آپ کے تحت تباہی کو تعمیر میں بدلا۔ سیاحت کو فروغ دیا۔
نیا ڈھانچہ کھڑا کیا۔ گولہ باری سے بچنے کے لئے گھروں کے ملحقہ تباہ ہونے
والے بنکرز اور دیگر حفاظتی اقدامات بھی حکومت کی توجہ چاہتے ہیں۔ حکومت کو
مسلسل اس کے وعدے اور اعلانات بھی یاد کرائے جاتے ہیں۔مگر کوئی توجہ نہ دی
گئی۔سیکٹریز کو بھی عوام نے مشکلات سے آگاہ کیا ہے۔ بنکرز کی فوری تعمیر
اور مرمت ضروری ہے۔ گولہ باری کی صورت میں تعلیمی سرگرمیاں بھی ٹھپ ہو جاتی
ہیں۔ اس لئے جنگ بندی لائن پر ہنگامی طور پر تمام انتظامات پر اس سر نو غور
ہو تو زیادہ بہتر ہو گا۔ خاص طور پر زیر زمین بنکرز کی تعمیر اولین ترجیحات
کی حامل ہو گی۔ بھارتی گولہ باری سے عوام کو محفوظ رکھنا ان ہی بنکرز کی
وجہ سے آسان ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ زیر زمین مورچوں کو سکولوں کے متبادل
کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ بھارتی گولہ باری کی زد میں رہنے کی
وجہ سے سپلائی لائن کٹ جاتی ہے۔ لاکھوں کی آبادی ان علاقوں میں محصور ہو کر
رہ جاتی ہے۔ سب جانتے ہوں گے کہ حکومت نے دفاعی لحاظ سے اہم کیرن بائی پاس
شاہراہ پہاڑوں اور سنگلاخ چٹانوں کو چیر کر تعمیر کی۔ جس پر کروڑوں روپے
خرچ کئے گئے۔ جو انتہائی خراب حالت میں رہی۔ اس کی مرمت یا تعمیر نو کی طرف
توجہ دی گئی۔سابق وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ محمد فاروق حید خان نے بھی
اعلانات کئے ۔ انھوں نے جنگ بندی لائن پر بنکرز کی تعمیر کے لئے سات ارب
روپے حفاظتی اقدامات کے لئے مختص کرنے کا اعلان کیا ۔پتہ نہیں یہ سات ارب
روپے کہاں گئے۔ وفاق اور ریاست مل کر کشمیر کی جنگ بندی لائن پر زیر زمین
مورچوں کی فوری تعمیر اور مرمت کے لئے کام کرسکتے ہیں۔ بھارتی گولہ باری کی
زد میں آنے والی شاہراؤں کی حفاظت کے لئے بھی معقول نوعیت کا بندو بست
ضروری ہے۔جنگ بندی لائن کے دورہ کے موقع پر پتہ چلا کہ لوگ اپنے گھروں کو
چھوڑنے پر بالکل تیار نہیں ہیں۔ وہ بھارت کا مردانہ وار مقابلہ کررہے ہیں۔
اگر ان کی مزید تربیت اور حفاظت کو یقینی بنایا جائے تومناسب ہو گا۔توقع ہے
وزیراعظم عمران خان پہلی فرصت نکال کر جنگ بندی لائن کا دورہ کریں گے اور
عوام کی مشکلات کی طرف خود متوجہ ہوں گے۔ جنگ بندی لائن پرآبادی کی سپلائی
لائن ، بائی پاس سڑکوں، زیر زمین مورچوں کی مرمت اور تعمیر کے لئے ہنگامی
طور پر فنڈز جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ تا کہ کسی بھی جارحیت یا مہم جوئی کی
صورت میں بھارت کی ناکامی اور شکست کے تمام امکانات کا مظاہرہ کیا جا سکے۔
کیوں کہ یہ لوگ فرنٹ لائن پر بھارتی توپوں کے سامنے سینہ تانے کھڑے
ہیں۔بھارت آئے روز سرجیکل سٹرائکس کی دھمکیاں بھی دیتا رہتا ہے۔بھارت کے
بالاکوٹ پر جارحیت کے بعد بھارتی طیاروں کو مارگرانے اور پائلٹ کی گرفتاری
پاکستان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اس سے پاک فوج اور عوام کے حوصلے بلند ہوئے
ہیں۔ ان حوصلوں کو مزید بلند کرنے کے لئے وزیراعظم عمران خان کا دورہ اور
پیکج ضروری ہے۔ اسلام آباد میں دنیا کے سفارتکاروں اور عالمی میڈیا کو بھی
بھارتی جارحیت کا مشاہدہ کرانے کا سلسلہ جاری رہے تا کہ دنیا بھارت کی
ریاستی دہشتگردی سے آگاہ رہے۔
|