قومی سلامتی اور پریشر گروپ

حکومت کے کمزور فیصلے قومی سلامتی کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں ۔ملک بھر میں بیسوں سیاسی و سماجی تنظیمیں اور گروپ انتہائی منظم طریقے سے کام کر رہے ہیں ۔ان عناصر کو غیر ملکی طاقتوں کی مکمل سرپرستی حاصل ہے ۔اس بارے حکومت کے ذمہ داران بھی اکثر و بیشتر اپنے خدشات کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔سیاسی و مذہبی نظریات کی حامل بعض جماعتیں قومی سلامتی کے خلاف کام کر رہی ہیں ۔اور ہمارے ادارے ان کی سرگرمیوں سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں ۔اس کے باوجود حکومت کے بعض افرادان گروپوں کو اپنی چھتری تلے پناہ دئیے ہوئے ہیں ۔کراچی میں امن و امان کی مخدوش صورتحال میں بھارتی لابی سے تعلق رکھنے والے عناصر ہی ملوث پائے گئے ہیں ۔یہ لوگ غیر ملکی امداد کے سہارے اپنا قد کاٹھ بڑھاتے ہیں ۔ملک کا امن تباہ کرتے ہیں اور آخر میں بیرون ملک فرار ہو جاتے ہیں ۔دیکھا جائے تو یہ لوگ اپنی ’’دھرتی ماں‘‘کی عصمت دری کرکے اپنی دکان بڑھا رہے ہوتے ہیں ۔ہر گروپ اور تنظیم کے سرکردہ عہدوں پر اداروں کے ’’کارخاص‘‘براجمان ہوتے ہیں ۔یہ پاکستان کا ایک مضبوط مافیا ہے جو خود دو گروپوں میں بٹا ہے ،ایک طاقتور جبکہ دوسرا قدرے کمزورہے۔ یہ جب چاہتے ہیں عوام کو سڑکوں پر لے آتے ہیں ،اور جب چاہتے ہیں انہیں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیتے ہیں ۔سیاسی لیڈروں کی اوقات محض ایک کٹھ پتلی کی سی ہوتی ہے ۔یہی وہ مافیا ہے کہ جو مذہبی گروپوں کو بھی ’’پریشر گروپ‘‘کے طور پر پروان چڑھاتا ہے۔

غیر جمہوری اور غیر سیاسی روایات نے سیاست کو پراگندہ کر رکھا ہے ۔سیاستدانوں اور ان کی اولادوں کا مقصد محض اپنی تجوریاں بھرنا ہی رہ گیا ہے ۔ملک و ملت کی بھلائی کا سوچنے کی یہ کبھی زحمت گوارا نہیں کرتے ۔پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کا کردار بھی ان سے مختلف نہیں ۔عوام کا ایشو’’روٹی ،کپڑا اور مکان‘‘ ہے ،عوام کو ان ضروریات کی فراہمی کے سہانے خواب دکھانے والا وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو خود اسی مافیا کے ہاتھوں ’’سولی ‘‘ پر چڑھ گیا ۔لیکن قوم کی حالت بدستور جوں کی توں ہے ۔

گذشتہ دنوں حکومت نے ایک تنظیم کو سیاسی جماعت کے طور پر بحال کرکے اس کے نام کے ساتھ ’’کالعدم‘‘کا لفظ ہٹانے کی منظوری دے دی ہے ۔جب کہ اس سے قبل اسی جماعت کی سرپرستی میں چلنے والی احتجاجی تحریک میں باربار یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ ان لوگوں کو بھارتی ایجنسیوں کی سرپرستی حاصل ہے ۔اگر ایسا کوئی ایشو تھا تو یکدم یہ کیسا انقلاب آیا ہے کہ حکومت نے مفاہت کو وسعت دیتے ہوئے اس جماعت کو فعال بنانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی ۔ایسا کوئی بھی فیصلہ ملک و ملت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔کیونکہ محض اس ایک فیصلے کے نتیجے میں ملک کی 72کے قریب کالعدم قرار دی گئی تنظیموں نے بھی اپنی بحالی کا مطالبہ کر دیا ہے ۔گویا ایک پارٹی کو ریلیف دے کر دوسری جماعتوں کو بھی موقع دیا گیا ہے کہ وہ بھی اپنی بحالی کیلئے اٹھ کھڑی ہوں ۔کبھی کبھی حکومتی فیصلے ریاستی رٹ کو بھی نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں ۔اس لئے کسی بھی قسم کا فیصلہ کرتے وقت اس کے اثرات پر بھی ارباب اختیار کی نگاہ رہنا چاہئے ۔

کہتے ہے کہ برائی کو پیدا ہوتے ہی ختم کرنے کی تدبیر کرنا چاہئے ورنہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ ایک ایسا ناسور بن جایا کرتی ہے کہ جو نسلوں کی تباہی کا موجب بنتی ہے ۔آزادی اظہار رائے ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ لوگوں کو بے لگام چھوڑ دیا جائے ،اور آزادی اظہار کے نام پر پاکستان کی نظریاتی اساس کا جنازہ نکال کر رکھ دیا جائے ۔گذشتہ 75برس میں ہماری سوچ و فکر میں قوم پرستی کا فقدان نظر آتا ہے ۔ہماری سوچ کا محور محض لوٹ کھسوٹ ہے ۔قومی سلامتی و استحکام کی ہمیں کوئی فکر نہیں ۔جہاں دو چار بندے اکٹھے ہوتے ہیں وہیں وہ پاکستان کے خلاف زہر اگلنے لگتے ہیں ۔اور کوئی قوت ایسی نظر نہیں آتی جو اس لوگوں کو راہ راست پر لا سکے ۔اور یہ بھی حقیقت ہے جب ہم خود ہی ملک کی سلامتی کے درپے ہوں گے تو پھر غیروں سے کیا گلہ کیا جا سکتا ہے ۔
 

syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 115200 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.