انڈیا آئے روز مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنی مسلح فورسز
میں اضافہ کر رہا ہے اس کے ساتھ ہی قابض فورسزنے کشمیریوں کا قتل عام تیز
کردیا ہے۔ سرینگر میں انٹرنیشنل ائر پورٹ کے قریب حیدر پورہ علاقہ میں قابض
بھارتی فورسز نے پیر کی شام ساڑھے پانچ بجے ایک شاپنگ کمپلیکس میں گھس کر
ایک ڈیٹل سرجن ڈاکٹر اور ایک تاجر سمیت چار افراد کو فرضی جھڑپ کے دوران
شہید کر دیا۔ دو افراد کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے شہید
کیا گیا۔ ان کی نعشیں لواحقین کو دینے کے بجائے تقریباً ایک سو کلو میٹر
دور ہندواڑہ کے علاقہ میں زمین برد کی گئیں۔ کشمیر پولیس کے انسپکٹر جنرل
وجے کمار من گھڑت کہانی میڈیا کو بتا کر سچائی کو چھپا رہے ہیں۔ قابض فورز
کا کہنا ہے کہ عمارت میں ایک پاکستانی مجاہد اور اس کا ساتھی تھے اور دو
لوگ کراس فائرنگ میں مارے گئے۔ بھارتی قابض فورسز ہمیشہ فرضی جھڑپوں کے بعد
ایسے ہی دعوے کرتے ہیں۔بھارتی فورسز اور ان کے ایجنٹ ٹاسک فورسز افسران اب
یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کر سکتے ہیں کہ گزشتہ دنوں میں سرینگر میں چند
غیر مسلم ہلاک کئے گئے، ان ہلاکتوں میں حید ر پورہ میں قتل کے گئے لوگ ہی
ملوث تھے۔فرضی جھڑپ کے دوران شہید دو شہریوں کے رشتہ دارمظاہرے کر رہے
ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ماورائے عدالت قتل کئے افراد کا جنگجوئیت کے ساتھ
کوئی تعلق نہیں تھا۔ الطاف احمد ڈار اور مدثر گل کے اہل خانہ نے پریس
کالونی میں احتجاجی مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ ان کے رشتہ داروں کی
لاشوں کو مناسب تدفین کے لیے واپس کیا جائے، جنہیں پولیس کے مطابق امن و
امان کی صورتحال مدنظر رکھتے ہوئے ہندواڑہ میں دفن کیا گیا۔ مدثر گل کی
والدہ نے کہا کہ ان کا بیٹا مجاہدین کا بالائے زمین کارکن نہیں تھا بلکہ
ایک ڈاکٹر تھا اور اس کا جنگجوؤں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔’’میرا بیٹا بے قصور
تھا، اسے کیوں مارا گیا؟ اس کا جرم کیا تھا؟''۔ ’’ہمیں اس کی لاش دی جائے،
ہمیں اب اس کی لاش کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے‘‘۔یہ ایک والدہ کا غم ہے کہ جس
کا بیٹا بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ اس کی لاش سو کلو میٹر ایک جنگل میں
زمین برد کی گئی۔ لواحقین کو کفن دفن کی اجازت تک نہ دی گئی۔ اب وہ یہ
مطالبہ کرنے پر مجبور ہیں کہ ظالمو ہمیں اپنے بچوں کی نعشیں ہی حوالے کر
دو۔ حیدر پورہ میں شہید دو شہریوں میں سے ایک ڈینٹل سرجن تھا جو اب پراپرٹی
اور کنسٹرکشن کیساتھ وابستہ تھا۔ ڈاکٹر مدثر گل کے بہنوئی عرفان احمد نے
میڈیا کو بتایا کہ ڈاکٹرمدثر گل ساکن راولپورہ ،سرینگرنے بھارتی صوبے مغربی
بنگال کے شہر بنگلورو میں بی ڈی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ مختصر وقت تک اس نے
جموں کشمیر سے باہر پریکٹس کی۔ واپسی پر وہ سرینگر کے علاقہ پرے پورہ سے
راولپورہ منتقل ہوگئے اور پر ائر پورٹ روڑ پر اس نے کڈس وئر کی دکان کھولی
۔ بعد میں اسے مذکورہ مکان میں ہی منتقل کردیا جہاں اس نے پراپرٹی اور
کنسٹریکشن کے کاروبار سے منسلک ہونے کی وجہ سے ایک آفس کھولا تھا۔23سالہ
عامر لطیف ماگرے ولد محمد لطیف ماگرے ساکن فہمروٹ سیری پورہ سنگدان گول،
رام بن کو بھی اس فرضی جھڑپ میں قتل کیا گیا۔ ان کے والد لطیف ماگرے کے
مطابق الطاف احمد ڈار سمینٹ و بلڈنگ میٹریل کی دکانیں چلا رہا تھا اور عامر
اس کے پاس 6مہینے سے کام کررہا تھا۔ لطیف نے کہا کہ 2005میں اس نے ایک
مقامی جنگجو یاسر بٹ کو مارا تھا۔جس نے مبینہ طور پر اس کے چیچیرے بھائی
عبدالقیوم اور بہن رفیقہ اختر کو ہلاک کیا ، لطیف خود اس وقت پیٹ میں گولی
لگنے سے زخمی ہوا، البتہ بچ گیا۔اس واقعہ کے بعد لطیف نے اپنے آبائی علاقے
سے اودہمپور ہجرت کی اور 2011میں واپس آیا۔ابھی بھی انڈین ریزرو پولیس
فورس( آئی آر پی ایف) کے اہلکار اس کے مکان کی حفاظت پر معمور ہیں۔اس نے
سوال کیا کہ اس کے بیٹے کو بھی فرضی جھڑپ میں جنگجو قرار دے قتل کیا گیا۔
مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اورعمرعبداﷲ کے علاوہ نیشنل
کانفرنس کے اراکین پارلیمان،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیارہنمااور سجادغنی لون
سمیت کئی بھارت نواز سیاستدان حیدرپورہ سانحہ کی غیرجانبدارانہ عدالتی
تحقیقات کرانے کامطالبہ کر رہے ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق
وزیر اعلیٰ عمر عبداﷲ نے اعتراف کیا کہ ’’ماضی میں فرضی تصادم کے متعدد
واقعات رونما ہوچکے ہیں اور حیدر پورہ میں ہوئے انکاونٹر کے بارے میں
اٹھائے جارہے سوالات کا فوری اور قابل اعتبار انداز میں جواب دینے کی اشد
ضرورت ہے‘‘۔اس لئے معاملے کی معیاد بنداورغیرجانبدار تحقیقات ہو۔۔ٹوئٹرپر
ایک صارف نے الطاف احمد کی کم سن دختر کی ویڈیوبھی شیئر کی گئی ہے۔ جس
پرردعمل ظاہر کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے حقیقت کا اعتراف
کرتے ہوئے لکھا،’’بھارتی فوج کی جانب سے معصوم شہریوں کو انسانی ڈھال کے
طور استعمال کرنا،اورانہیں گولیوں کے تبادلے میں ہلاک کرڈالنا اورپھرآسانی
کے ساتھ انہیں جنگجوؤں کا بالائے زمین کارکن قرار دینا،اب حکومت ہند کے
ضوابط کی کتاب ہے۔‘‘بھارتی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) رہنما یوسف
تاریگامی نے بھی اعتراف کیا کہ کشمیرمیں قانون کی خلاف ورزی بریت کے ساتھ
جاری ہے،جونہایت ہی بدقسمتی ہے۔لوگوں کی بلاجوازگرفتاریوں سے لیکرانہیں
کالے قوانین کے تحت قیدکرنا اوراب شہریوں کوانسانی ڈھال کے طور استعمال
کرنے سے حالات بد سے بدترین ہوتے جارہے ہیں۔
بھارت کشمیریوں کو ایسی ہی فرضی جھڑپوں میں ماورائے عدالت قتل کرنے کے لئے
مقبوضہ کشمیر میں تازہ دم فورسز دستے داخل کر رہا ہے۔ بھارتی فوجی کشمیریوں
کا قتل عام کرتے ہیں اور ان کے خلاف سنگین جنگی جرائم کے مقدمات اور سزائیں
دینے کے بجائے پرموشن کی جاتی ہے، انہیں میڈلز ملتے ہیں۔ آج تک کسی بھارتی
قاتل فوجی کو سزا نہیں ملی۔ بدنام زمانہ کالے قوانین کے تحت وہ شہریوں کا
قتل کر کے انہیں دہشتگرد قرار دیتے ہیں ، اس کے بدلے میں تمغے ، انعامات
حاصل کرتے ہیں اور سزا سے بچ جاتے ہیں۔ بھارتی شہری، ان کی سول سوسائٹی،
انسانہ حقوق کے کارکن قاتل فورسز کے ان کارناموں پر خاموش ہو جاتے ہیں۔
میڈیا کو سچ لکھنے اور دکھانے کی اجازت نہیں۔ عالمی آزاد میڈیا اور انسانی
حقوق اداروں کا مقبوضہ کشمیر میں داخلہ منع ہے۔ ایسے میں معصوم کشمیریوں کا
قتل عام جاری ہے۔ ان ہیں اب قتل ہونے والوں کا ماتم کرنے کی بھی اجازت
نہیں۔
|