زائرینِ حرم کی شکایات

حج سے پہلے قیام ِ مدینہ کے دوران ایک روز ہم مسجد سے ملحق مقامی مارکیٹ میں چلے گئے ۔ یہ مارکیٹ مسجد کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اس مارکیٹ کے اندر اتوار بازار کی طرز پر چھوٹی چھوٹی بہت سی دکانیں ہیں۔ جن میں زائرین کی دلچسپی کی اشیا مثلاً جائے نماز، مصلے، چھوٹے قالین، مسواکیں، کھجوریں، خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی فریم شدہ تصاویر، تسبیحیں، چپلیں، احرام، خواتین اور بچوں کے ملبوسات، عربی لباس، ٹوپیاں، قہوے کے برتن، تھرماس، ریشمی اور سوتی بڑے رومال وغیرہ بکتے ہیں۔ اکثر دکاندار سعودی خواتین ہیں۔ یہ انتہائی تندخو اور بدمزاج واقع ہوئیں۔ بین الاقوامی شہروں کے برعکس یہاں کسی شے پر اس کی قیمت درج نہیں ہوتی۔ہم نے ایک خاتون دُکاندار سے جائے نماز کی قیمت دریافت کی۔قیمت سُن کر اور شکریہ ادا کر کے جانے لگے تو وہ عورت ہمیں برابھلا کہنے لگی۔ اسے شاید نرخ پوچھنے کے بعد ہمارا کچھ نہ خریدنا برا لگا تھا۔ ہماری شلوار قمیص ہمارے پاکستانی ہونے کا اعلان کر رہی تھی۔ لہٰذا وہ (کُلّ باکستانی خربان) کہہ کر تمام پاکستانیوں کو برابھلا کہہ رہی تھی۔ ہم نے اسے کیا جواب دینا تھا بس مسکرا کر چل دیے۔

حرمین شریفین میں شُرطے بزرگوں، خواتین اور دیگر نمازیوں کو جس طرح دھکے دیتے اور بد سلوکی کرتے ہیں اس کا تجربہ اور مشاہدہ ہر زائر کو ہوتا ہے ۔یہ شُرطے زبان سے کم اور ہاتھ سے زیادہ کام لیتے ہیں ۔ سب سے زیادہ بد سلوکی وہ پاکستانیوں سے ہی کرتے ہیں ۔شاید انہیں بھی علم ہے کہ یہ ہماری دستِ نگر قوم سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارا ہاتھ روکنے کی سکت نہیں رکھتے ۔ اکثر یہ بدسلوکی بلاوجہ اور زیادتی پر مبنی ہوتی ہے۔ لیکن اس کی شکایت کس سے کریں اور کون سُنے گا۔ بین الاقوامی زائرین خاموشی سے یہ زیادتی سہہ لیتے ہیں ۔ کوئی اُن سے نہیں الجھتا۔ لوگ اﷲ اکبر کہہ کر چل دیتے ہیں۔ حجاز مقدس میں جانے والے زائرین کے دل نرم اور خداخوفی سے معمور ہوتے ہیں۔ وہ ایسی باتوں کا نوٹس نہیں لیتے۔ بلکہ ہنس کر ٹال دیتے ہیں۔ایک تو وہ اپنے مقدّس سفر کو عبادت اور نیکی سے مزیّن رکھناچاہتے ہیں اور بدمزگی نہیں چاہتے۔ دوسرا اُنہیں اپنی شنوائی کی اُمید نہیں ہوتی ہے۔ ورنہ کسی ترقی یافتہ ملک میں کسی سیاح کے ساتھ ایسی زیادتی کبھی برداشت نہیں کی جاتی۔

اس بدسلوکی سے سعودیوں کے بارے میں دنیا بھر میں کیا پیغام جاتا ہو گا اس کا اندازہ چنداں مشکل نہیں ۔ سیکڑوں ملکوں کے لاکھوں زائرین ہر سال سعودی عرب آتے ہیں۔ ہفتوں قیام کرتے ہیں اور اپنی خون پسینے کی کمائی یہاں خرچ کرتے ہیں۔ جس سے سعودی عرب کو گھر بیٹھے کثیر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ زائرین کی بدولت تجارت اور خدمات کی مد میں انہیں ان گنت آمدنی ہوتی ہے ۔ ہوٹل، ریستوران، دُکانیں اور پبلک ٹرانسپورٹ سبھی زائرین سے کماتے ہیں۔ یہ سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے۔ سعودی عرب میں عموماً اور مکہ مدینہ میں خصوصاً لوگوں کا روزگار چلتا رہتا ہے۔اس کے بدلے میں وہ زائرین کو کیا لوٹاتے ہیں ۔یہ نہایت اہم سوال ہے۔

زائرین اﷲ کے مہمان ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ سعودی حکومت اور عوام کے بھی مہمان ہیں ۔ سعودی عوام اور حکومت ان مہمانوں کو عزت، سہولت اور حفاظت فراہم کرے۔اس سے سعودی عرب کا مثبت تاثر پوری دنیا میں جائے گا۔جو لوگ موجودہ جو بدانتظامی کی وجہ سے سعودیہ نہیں آتے، وہ بھی آئیں گے۔ جیسے غیر ملکی متحدہ عرب امارات میں جاتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ نے اس سرزمین اور اس کے باشندوں کو حرمین شریفین کی صورت میں اتنا عظیم تحفہ دیا ہے، انھیں اس کی قدر کرنی چاہیے اور خود کو اس کی میزبانی کا اہل ثابت کرنا چاہیے۔

حکومت کی جانب سے بہت سے اقدامات کے باوجود حج کا انتظام مکمل نہیں ہوتا۔ اس لیے بہت سے لوگ وہاں جاکر بھی حج کی ادایگی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ درجنوں بدانتظامی کی وجہ سے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ ۲۰۱۵ء میں رمی کے دوران ۷۰۰سے زیادہ افراد کی ہلاکت کا واقعہ سب کے سامنے ہے۔

سب سے زیادہ افسوس مقامی شہریوں کے روّیے پر ہوتا ہے۔ وہ انتہائی بدمزاج اور بداخلاق واقع ہوئے ہیں۔ اس کا تجربہ آپ کو قدم قدم پر ہو گا۔ وہ اپنے آپ کو ہر قانون اور ضابطے سے مبرّا سمجھتے ہیں۔ دوسروں کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں۔

حالانکہ قرآن اور حدیث عربی زبان میں ہیں۔ ہمارے پیغمبر حضرت محمدؐ انھیں میں مبعوث ہوئے تھے۔ نبی کریمؐ کے اخلاقِ حسنہ کی مثال دُنیا دیتی ہے۔ صحابہ کرامؓ حسن اخلاق کا نمونہ تھے۔ اسی حسنِ اخلاق کی وجہ سے اسلام پھیلا۔ابتدائی دور کے مسلمان جہاں بھی جاتے تھے اپنے اعلیٰ اخلاق اور حسن سلوک سے لوگوں کا دل جیتتے تھے۔ انھوں نے اسلام بزور شمشیر نہیں پھیلایا تھا۔ محمدبن قاسم، طارق بن زیاد، خالد بن ولید اور دوسرے فاتحین اسلام کو مقامی لوگ اپنا دیوتا مانتے تھے۔ہندؤں نے محمد بن قاسم کے بت بنا کر گھروں میں سجا دیے تھے۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قرآن وحدیث حسن ِاخلاق کی تعلیم دیتے ہیں۔
سعودی لوگ نماز روزے کا پورا اہتمام کرتے ہیں۔ قرآن بھی پڑھتے ہیں۔ لیکن ان کی زندگیوں پر اس کے اثرات نظر نہیں آتے۔ ممکن ہے اچانک دولت آنے سے ان کے ذہن ودل میں ایسی رعونت آ گئی ہے یا پھر مقامی اور غیرمقامی میں جو قانوناً فرق رکھا گیا ہے اس کے اثرات ہیں۔متعصبانہ رویّے کے خلاف سخت قانون کی عدم موجودگی بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔

قانون پر عمل درآمد کے معاملے میں سعودی عرب بہت سے ممالک سے بہتر ہے۔ حرمین شریفین کے اندر کے انتظامات کافی بہتر ہیں۔ لیکن پورے حج اور شہر کے حالات کو سامنے رکھا جائے تو بہتری کی بہت زیادہ گنجایش موجودہے۔

رسل ورسائل اور آمدورفت کے جدید وسائل کو بروئے کار لا کر ان انتظامات کو بہت بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ ان کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ تردّد کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ صرف انتظامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں میں تین مثالیں دینا چاہوں گا۔

(الف)مکہ اور مدینہ میں دکاندارکیمسٹ، حجام، ٹیکسی ڈرائیور، دھوبی اور ریستورانوں والے منہ مانگی قیمت اور معاوضہ لیتے ہیں۔ ہر دُکان کا نرخ دوسری دکان سے الگ ہے۔ ہر ٹیکسی ڈرائیور کا اپنا کرایہ ہے۔ ہر شخص اپنی مرضی کی قیمت وصول کر رہا ہے۔اس مسئلے کا حل نہایت آسان ہے۔ صرف ایک حکم نامے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
(ب) دوران حج لوگوں کو جو پانی ملتا ہے وہ چھوٹی چھوٹی بوتلوں میں ہوتا ہے۔ یہ بوتلیں اور کچرا پھینکنے کے لیے مکہ مدینہ، عزیزیہ، منیٰ، عرفات اور جمرات کہیں بھی بن دستیاب نہیں ہیں۔ لہٰذا لوگ یہ بوتلیں سٹرک اور فٹ پاتھ پر پھینکنے پر مجبور ہیں۔ اگر حکومت کچرے کے ڈبے نہیں رکھ سکتی خالی بیگ تو آسانی سے رکھ سکتی ہے۔ اس میں کیا مشکل ہے؟
(ج) مکہ اور مدینہ کی سڑکیں دورانِ حج پارکنگ کا نمونہ پیش کرتی ہیں۔ ٹریفک اتنی زیادہ اور اس قدربے قابو ہوتی ہے کہ ہم نے دس کلومیٹر کا فاصلہ چار گھنٹے میں طے کیا۔ کیا مکہ اور مدینہ میں لندن،پیرس، ٹوکیو اور سنگاپور کی طرح تیز ٹرینیں نہیں چلائی جا سکتیں۔جہاں ٹنوں سونے کے کلاک نصب کیے جا سکتے ہیں۔ دنیا کی بلند ترین عمارتیں بنائی جا سکتی ہیں وہاں ٹرین ٹریک بنانا کیا مشکل ہے؟
یہ صرف تین مثالیں ہیں۔ ایسے کئی اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے جو آسان بھی ہیں اور مفید بھی۔ یہ اقدامات مستقبل میں نہ صرف زائرین بلکہ مقامی لوگوں کے بھی کام آسکتے ہیں۔ سب سے زیادہ ضرورت حکومتی اور عوامی رویّہ تبدیل کرنے کی ہے۔ ملک کے اندر ایسا محفوظ ماحول بنانے کی ضرورت ہے جس میں غیرملکی کارندے اور زائرین خود کو ہر قسم کے تعصب، زیادتی، بد تہذیبی اور لا قانونیت سے محفوظ محسوس کریں۔ جیسا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے۔ اس سے زائرین کا اعتماد بڑھے گا ۔ان کی تعدادبڑھے گی۔ جس کا فائدہ سعودی حکومت او رعوام کو ہو گا ۔ اس سر زمین پر رحمۃالعالمین ﷺ کی رحمتوں اور برکتوں کا سایہ ہے ۔ دُور دراز سے آنے والے نبیؐ کے پروانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ امن و آشتی کے سائے میں رہ کر اپنے دامن میں یہ رحمتیں اور برکتیں سمیٹ سکیں ۔
 

Tariq Mehmood
About the Author: Tariq Mehmood Read More Articles by Tariq Mehmood: 38 Articles with 39357 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.