منگورہ سوات کی وادی کا ایک حسین شہر جہاں قدیم اور جدید تہذیبوں کا امتزاج ہوتا ہے

سوات کی وادی کا ایک حسین شہر
جہاں قدیم اور جدید تہذیبوں کا امتزاج ہوتا ہے

سوات کی وادی دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے پرکشش مقام ہے۔ قدرت نے اس دل فریب خطے کوحسین رنگوں سے سجایا ہے، جہاں ہر طرف فطری مناظر بکھرے ہوئے ہیں ۔ اس وادی میں داخل ہوتے ہی پھولوں سے معطر فضائیں سیاحوں کا استقبال کرتی ہیں۔سوات کی حدود میں داخل ہوتے ہی ہر طرف خوش رنگ اور مہکتے پھولوں کے باغات نظر آتے ہیں۔ یہاںتفریح کی غرض سے آنے والے لوگ اس وادی کی حسن و دل کشی میں گم ہوجاتے ہیں۔ تاریخ میںسوات کا ذکر مختلف ناموں سے آیا ہے۔ان میں سے سواستوس، سواد، اساکینی اور اُودیانہ جیسے نام زیادہ معروف ہیں۔ہزاروں سال قبل اس علاقے میں بدھ مت کے ماننے والے آباد تھے جنہوں نے اسے اُودیانہ(Udyana) کانام دیا۔ یہ سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی گلستان یا باغ کے ہیں۔ وادئ سوات کی میں ہر طرف باغات، سر سبز میدان، مرغزار، برف پوش پہاڑ، سحر انگیز جھیلوں اور قدرتی آب شاروںاورپہاڑی جھرنوں کی وجہ سے اس علاقے کا نام اودیانہ زیادہ موزوںلگتا ہے۔ یونانی شہنشاہ سکندر اعظم جب اس علاقے میں آیا تو اس نے اس کا نام سواستو (Swastu) رکھاجو بعدمیں سواداوربگڑ کر سوات کے نام سے معروف ہوگیا۔ سوات کاعلاقہ جسے ایشیاء کے سوئٹزرلینڈ کا خطاب دیا گیا ہے ،متعددجنت نظیر وادیوں پر محیط ہے۔ان میں سے ایک منگورہ بھی ہے، جو سوات کامرکزی علاقہ ہے۔ اسلام آباد سے شمال مشرق کی جانب اگر سفر کریں تو 254 کلومیٹر کے فاصلے پر سوات کا ضلع آتا ہے، جب کہ صوبائی دارالحکومت پشاور سے اس کا فاصلہ 170کلومیٹر ہے۔ دریائے سوات کے دائیں کنارے پر قدیم اور جدیدخصوصیات کا حامل منگورہ کا شہر صرف 25کلومیٹر رقبے پر محیط ہے جس کی آبادی تقریباً تین لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔یہ سطح سمندر سے 3200 فٹ بلند مقام ہے ، جس کی وجہ سے یہاں کی آب و ہوا انتہائی فرحت بخش ہے۔یہ چاروں طرف سے بلند و بالا پہاڑوں میں گھرا ہواجن پر کسی دور میں گھنے جنگلات اگے ہوئےتھے، لیکن اب نصف سے زیادہ آبادی نے جنگلات صاف کرکے ان پر سیڑھیوں کی کی طرح مکانات بنا کر ان میں رہائش اختیار کرلی ہے۔ یہ شہر سوات کے علاقے کا ایک بڑا کاروباری مرکز بھی ہےاور یہاں کے کئی بازار سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کیے رہتے ہیں۔ ان بازاروں میں بینک اسکوائرپر واقع مرکزی بازار، نیو روڈ ، تاج چوک، سہراب چوک اور مکان باغ بازار شامل ہیں۔ مرکزی بازار کراچی کےقدیم علاقوں کے بازاروں کی طرح کا انتہائی تنگ کاروباری مرکز ہے۔

منگورہ شہر کاپرانانام’’ منگ چلی‘‘ ہے۔اس نام کاتذکرہ چینی سیاح فاہیان نے اپنے سفر نامے میں کیا ہے۔ فاہیان جوبدھ مت کا پیروکار تھا403ء میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں بدھسٹ آثار کی زیارتوں کے سلسلے میں سوات کے علاقے میں آیا تھا اور اس نے منگورہ کے علاقے کا بھی مشاہدہ کیا تھا،اپنے مشاہدات اس نے سفرنامے کی صورت میں قلم بند کئے ۔ قدیم زمانے میں سوات بدھ مذہب کا مقدس مرکز رہا ہے۔ یہاں سے یہ مذہب چین، تبت اور بھوٹان کے علاقوں میں پھیل گیا تھا۔مشہورتاریخ داں میجر راورٹی نے اسے’’منگوڑا‘‘یا’’ منگراوڑہ‘‘ کا نام دیا ہے۔ یہی نام بعد میں ’ منگورہ‘‘ کی شکل میںتبدیل ہوگیا۔یہاں ہر گلی اور محلےمیں مساجد موجود ہیں، اس لیے اسےاگر مسجدوں کا شہر کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔منگورہ کا شمار بھی تاریخی مقامات میں ہوتا ہے اور اس کی تاریخ 2 ہزار سال سے زیادہ قدیم ہے۔یہاں جگہ جگہ بدھ اور ہندو مت کےآثار بکھرے ہوئے ہیں۔تاریخی حوالوں کے مطابق مغل شہنشاہ ظہیر الدین محمد بابر کی بیوی ، بی بی مبارک کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا جو یوسف زئی قبیلے کے ملک احمد کی صاحب زادی تھیں۔

پشاور سے سیاح منگورہ پہنچ کر سہراب چوک کے بس اڈے پر اترتے ہیں، وہاں سے نشاط چوک تک جانے والی سڑک جی ٹی روڈ کہلاتی ہے۔ اس چوک کے ساتھ ہی مین بازار اور تاریخی مسجد امان اللہ واقع ہیں۔نشاط چوک سے دائیں طرف سیدو شریف روڈ شروع ہوتا ہے۔ سوات کی حسین مناظر والی وادیوں کی سیر کے لیے آنے والے سیاحوں کا پہلا پڑاؤ منگورہ کا علاقہ ہی ہوتا ہے ۔وادئ سوات میں سیاح جہاں بھی جانا چاہیں، ان کی سہولت کے لیےپرائیویٹ گاڑیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ باآسانی دستیاب ہے اورسیر و سیاحت کے شائقین یہاں سے سوات کی جنت نظیروادیوں میں پہنچ سکتے ہیں۔ منگورہ میںسب سے بڑالاری اڈہ جنرل بس اسٹینڈ ہے ، جہاں سے میاں دم، مدین، بحرین،کالام، شانگلہ،بشام اور بونیر کی طرف جانے کے لیے بسیں، جیپیں،ڈاٹسن پک اپ،کوسٹر اورپرائیوٹ کاریں ملتی ہیں۔دوسراٹرمینس ائیر پورٹ روڈ پر گرین چوک کے قریب واقع ہے۔ جہاں سے کانجو، ائیرپورٹ، ڈھیرئی، بانڈئی، مٹہ، بیدرہ، باغ ڈھیرئی، کبل، دیولئی، چائنا کلے، شاہ ڈھیرئی کی طرف جانے کے لیے گاڑیاں ملتی ہیں۔نشاط چوک اور گلشن چوک کے قریب سیدو شریف جانے کے لئے رکشہ اور سوزوکی ا سٹینڈ بنے ہوئےہیں۔اسی چوک کے قریب ملا بابا سڑک پر ایک اورلاری اڈہ ہے جہاں سے لوگ ڈاٹسن پک اپ کے ذریعے سیدو شریف اور مرغزار کی حسین وادیوں کی سیر کے لیےجاتے ہیں۔ گاڑیوں کا ایک اوراسٹینڈ شاہدرہ بس اڈے کے نام سے مشہورہے جہاں سے منگلور، جہاںآباد، سیر، تلے گرام، مالم جبہ، چارباغ، شانگلہ اور یخ تنگی کے لئے بس، ڈاٹسن اور فلائنگ کوچ چلتی ہیں۔نشاط چوک سے دائیں ہاتھ پر سیدو شریف کی طرف جانے والی سڑک شروع ہوتی ہےجہاں پرمنگورہ خوڑ کا برساتی نالے پر پل بنا ہوا ہے جووالی سوات کے دور حکومت میں 1946 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ منگورہ پولیس اسٹیشن کی عمارت اوربلدیہ کے دفاتر ہیں جو ایک سر سبز و شاداب علاقے میں واقع ہیں۔اسی سبزہ زار میں عوام کے لیے ایک کتب خانہ بھی بنا ہوا ہے جس کے ساتھ ہی مکان باغ چوک اور مکان باغ کا جدید بازار ہے۔ اس کے ساتھ بینکوں کی عمارتوں کا سلسلہ ہے جواس سبزئہ زارکے بالمقابل واقع ہے۔ گھاس کا یہ میدان ایک اسپورٹس گراؤنڈ ہے جہاں فٹ بال اور ہاکی کے میدان اورایک جدیدکرکٹ اسٹیڈیم بھی بنایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسکواش کورٹ، ٹینس کورٹ ،والی بال کورٹ واقع ہیں۔ یہ ساری تعمیرات بھی سابقہ ریاستی دور کی یادگار ہیں، اسی کے ساتھ ایک جہار دیواری میں ضلع کچہری اور عدالتیں ہیں ، اس کے بعد سرکاری گیسٹ ہائوس آتا ہے۔ اسی سڑک پرسفر کریں توتقریبا آدھ کلومیٹر کی دوری پر بت کڑہ یا بت کدہ کے تاریخی آثار ہیں جو کافی دور تک پھیلے ہوئےیہاںبدھ مت کے دور میں ایک یونیورسٹی اورہوسٹل کی عمارت تھی جو اب کھنڈرات کی صورت میں موجود ہے۔ اس کے ساتھ رہائشی مکانات بنے ہوئے ہیں، جن کے بعد بت کدہ کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے جس سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تیسرے حصےکے آثار ہیں۔ مقامی لوگ اسے گل کدہ کے نام سے پکارتے ہیں۔ سوات کے قدیم باشندوں کے مطابق کسی زمانے میں منگورہ کی آبادی بت کدہ کے گردو نواح میںپھیلی ہوئی تھی، لیکن اس علاقے میںبڑے بڑے چوہے گھس آئے تھے ، جنہوں نے گھروں میں کافی تباہی مچائی تھی۔یہاں کے لوگوں نے چوہوں کی تباہ کاریوں سے تنگ آکر اپنے گھر بار چھوڑ دیئے اور بت کدہ سے متصل ’’مکان باغ‘‘کے علاقے میں ہجرت کرگئے ۔ اس کے بعد انہوں نے منگورہ کے مزید شہری و نواحی علاقوں میں رہائش اختیار کی جس کی وجہ سے شہر کی حدود رحیم آباد، فیض آباد، پانڑ، فضاگھٹ، نواں کلے اور اینگرو ڈھیرئی تک وسیع ہوگئی۔منگورہ میں اگرچہ جدید طرز زندگی کی روانی ہےلیکن بعض قدیم آبادیوں کے دروازوں اور چوبی ستونوں پر گندھارا تہذیب کے خوب صورت نقش و نگار سوات کے ہزاروں سال قدیم بودوباش اور رہن سہن کی یاد دلاتے ہیں۔

سیدو شریف روڈ پر بت کدہ کے قریب ایک خوب صورت، دلچسپ اور تاریخی عجائب گھر ’’سوات میوزیم‘‘ کے نام سے موجود ہے ۔ مذکورہ عجائب گھر قیمتی نوادرات اور گندھارا تہذیب و بدھ مت کے آثار اپنے جلو میں سمیٹے ہوئے ہے۔اس میں نووسیع و عریض گیلریاں ہیں ،جن میں سےچار گیلریاں بدھ و ہندو تہذیب سے تعلق رکھنے والی اشیاءسے سجی ہوئی ہیں، پانچویں گیلری میں گندھارا، یونانی اور قبل از بدھ ثقافت سے مزین اشیاء رکھی ہوئی ہیں، چھٹی گیلری میں آثار قدیمہ کے مختصر سے آثار ہیں جب کہ باقی تین گیلریاں سوات کی مقامی تہذیب اور ثقافتی اشیاء کے لئے مخصوص کی گئی ہیں۔ ان کو تین الگ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس کے تحت ایک میں سوات، کوہستان کی روایتی اشیاء، دوسری میں صرف سوات کی وادی سے متعلق اور تیسری میں ضلع بونیر سےکی تہذیب و ثقافت کو اجاگر کرنے والے ملبوسات، برتن اور دیگر نوادرات ہیں۔ سوات کی سیر کے لیے آنے والے سیاحوں کو گندھارا تہذیب سے متعلق معلوماتی پروگرام دکھانے کے لئے ایک وسیع و عریض سماعت گاہ بھی بنائی گئی ہےجس میں سینما اسکرین کے ساتھ پروجیکٹر کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔ میوزیم کے ساتھ ہی ایک خوب صورت قیام گاہ بھی ہے، جس میںٹھہرنے کے لیے عجائب گھر کے منتظمین کی اجازت درکار ہوتی ہے۔سوات میوزیم کے اندر ہی سوات کی قدیم طرز رہائش کا حامل ایک چھوٹا سا روایتی گھر بھی تعمیر کیا گیاہے جس سوات کے ہزاروں سال پرانے بودوباش اور رہن سہن کی عکاسی کی گئی ہے۔اس عجائب گھر میں ہر طرف گھاس کی دبیز چادر بچھی ہوئی ہے جس کے اطراف خوش ر نگاور مہکتے ہوئےپھولوں کے گل دستے کھلے ہوئے ہیں۔
منگورہ سےمشرق کی طرف مدین، بحرین روڈ پرسفر کرتے ہوئے ’’فضا گٹ‘‘ کے مقام پر ایک خوب صورت پارک واقع ہے، جسے 1984ء میںبلدیہ منگورہ کے سابق چیئرمین ملک بیرم خان نے بنوایا تھا ۔ مذکورہ پارک دریائے سوات کے کنارے پرہے، اس کے دونوں جانب دریائے سوات سے نکلی ہوئی شفاف ندیاں رواں دواں ہیں جن کے درمیان میںمذکورہ پارک ایک دل فریب منظر پیش کرتا ہے۔ یہاں ہر طرف سبز سبزاور حسین مناظر پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ پارک جس علاقے میں واقع ہے، ماضی میں اسے ’’قضا گھٹ‘‘کہتے تھے ۔ پشتو زبان میں ’’قضا‘‘ موت اور’’گٹ‘‘ چٹان کو کہتے ہیں یعنی موت کی چٹان۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ چند صدی قبل تک دریائے سوات کے کنارے کوئی سڑک موجودنہیں تھی اور لوگ دریا کے ساتھ بلند و بالا پہاڑی راستوں پر سفر کرتے ہوئے بالائی سوات سے منگورہ جایا کرتے تھے۔ مذکورہ راستہ بل کھاتی ہوئی پہاڑی پگڈنڈیوں اور گہری کھائیوںپر مشتمل تھا اورپیروں کی ذرا سی بھی ڈگمگاہٹ مسافر کی ہلاکت کا سبب بن جاتی تھی اور وہ ہزاروں فٹ کی بلندی سے تنگ گھاٹیوں سے ٹکراتا ہوا دریائے سوات کی تند و تیز موجوں کی نذر ہوجاتا تھا، اس لئے لوگوں نے اُسے قضا گٹ کا نام دیا ہوا تھا۔ اس کا قدیم نام ’’کومبڑ‘اور ’’فرنجل‘‘ بھی ہے۔مِنگورہ سے فضا گھٹ جاتے ہوئے پارک سے پہلے سڑک کی دوسری جانب زمرد کی کانیں ہیں۔فضا گھٹ پارک میں ایک قدرتی چٹان بھی ہے جس کے اُوپر کھلی اور ہموار جگہ ہے۔اس پرکھڑے ہو کر سیاح دریائے سوات اور ارد گرد کےحسین ماحول کا نظارہ کرتے ہیں۔ یہاں ہر عمر کے افراد کے لیے تفریح طبع کے سامان موجود ہیں جس کے باعث اس پارک میں ہر وقت ملکی و غیر ملکی سیاحوں اور مقامی لوگوںکی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پارک میں ہی، دریائے سوات کے کنارے ایک گھاٹ بنا ہوا ہے ، جہاں سے چھوٹی کشتیاں، جنہیں ان کی بناوٹ کی وجہ سے پشتو میں ’’جالہ‘‘ کہتے ہیں، سیاحوں کو دریا کی سیر کراتی ہیں ۔ دریائے سوات کے اُوپر ایک سے دوسرے کنارے کی طرف جانے کے لیے ،دو مختلف مقامات پر چیئر لفٹ کی طرز پر موٹے موٹے رسوں پر چلنے والی ڈولیاں لگی ہوئی ہیں۔ انہیں مقامی زبان میں’’زانگوٹی‘‘ اور انگریزی میں ’’ریور لفٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ان پر بہ یک وقت چھ مسافر سوار ہوتے ہیں اور چند منٹوں میں یہ دریا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر پہنچ جاتے ہیں۔ چیئر لفٹس کےرسوں کوگاڑیوں کے انجن سےچلایا جاتا ہے۔مذکورہ چیئر لفٹس سیاحوں کےعلاوہ دریا کے اطراف واقع دیہات کے مکینوں کے دریا کے ایک کنارے سے دوسری طرف جانے کا آسان ذریعہ بھی ہیں، لیکن موسم گرما میں ان پر زیادہ تر سیاح حضرات سوار ہوکر سوات کی سیر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔مذکورہ پارک پانچ مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے ۔ یہاں کئی رہائشی ہوٹل اورریسٹ ہاؤسز ہیں ۔

منگورہ سےحاجی بابا روڈ پر جنوبی سمت میں ایک شاہ راہ لہلہاتے کھیتوں کے درمیان سے گزرتی ہوئی دنگرام، جامبیل،پانڑ اور کوکارئی تک چلی گئی ہے۔ پانڑ سے کوکارئی تک چاروں طرف فلک بوس پہاڑ اور حدِ نگاہ تک سبزہ اور گھنے درخت انتہائی خوب صورت نظر آتے ہیں۔پانڑ سے آگے تنگ وادیاں شروع ہوتی ہیں۔ان میں دنگرام اور اس سے آگے ’’جامبیل‘‘ کی وادیاںکے قصبات بلند و بالاپہاڑوں کے درمیان واقع ہیں۔ جامبیل تک حاجی بابا روڈ پختہ حالت میں ہے لیکناس سے چند کلومیٹر بعد کچا راستہ شروع ہوجاتا ہے۔ جامبیل کی جنوبی سمت میں پہاڑوں کی دوسری جانب بونیر کا علاقہ ہے ۔جامبیل اور کوکارئی کے پہاڑ ٹریکنگ اور کیمپنگ کے لئے نہایت موزوں اور ٹریکنگ کے شائقین پہاڑی راستے پر پیدل سفر کرتے ہوئےکوکارئی کے چنار نامی علاقے سے قادر نگر تک جاتے ہیں ۔

 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 222930 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.