رٹو کی وادی

سورج کی سنہری کرنیں بلند و بالا برف پوش چوٹیوں سے چھن چھن کر اُترتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں
رفیع عباسی

سورج کی سنہری کرنیں بلند و بالا برف پوش چوٹیوں سے چھن چھن کر اُترتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کے شمال کو بے پناہ حسن عطا کیا ہے۔ پچاس کے قریب دنیا کی بلندترین چوٹیاں، فلک بوس پہاڑ، قدرتی آ ب شاریں، پہاڑی جھرنے، لہلہاتے کھیت، پھلوں سے لدے باغات،رنگ برنگے اور مہکتے پھولوں سے سجے گل دستے، گھاس کے میدان، سبز مرغزار، دنیا کا بلند ترین سطح مرتفع دیوسائی، پریوں کی سیر گاہیں، سحر انگیز جھیلیں، برفانی گلیشئر اور حسین مناظر والی پہاڑی وادیاں اور گھنے جنگلات، سب کچھ اسی خطے میں ہے۔ چترال، سوات اورگلگت و ہنزہ، فطری حسن کے حامل قصبات اور تاریخی مقامات کا مجموعہ ہیں۔ رٹو کا شمار بھی وادی گلگت کے حسین ترین گاؤں میں ہوتا ہے، جو سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔ اس تفریحی مقام تک پہنچنے کے لیے پہلے گلگت جاناپڑتا ہے۔ کراچی سے سیاح بہ ذریعہ ٹرین، 20گھنٹے کا سفر طے کرکے راولپنڈی کے اسٹیشن پر اترتے ہیں۔ وہاں ایک شب بسرنے کرنے کے بعدعلی الصباح پیر ودھائی کے بس اڈے کا رخ کرتے ہیں جہاں گلگت جانے کے لیے کے نیکٹو کی بسیں اور ویگنیں چلتی ہیں۔ جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہوئے یہ بسیں ٹیکسلا سے ہوتی ہوئی سکھوں کے مقدس شہر حسن ابدال پہنچتی ہیں جو اسلام آباد سے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس شہر کا شمار بھی پاکستان کے تاریخی مقامات میں ہوتا ہے، جس کا ذکر مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے اپنی سوانح حیات ، ’’آئین اکبری ‘‘ میں بھی کیا ہے۔ مذکورہ شہر سکھوں کے مقدس مقام گردوارہ پنجہ صاحب کی وجہ سے معروف ہے، جہاں ہر سال بیساکھی کے تہوار کے موقع پردنیا بھر سے سکھ، اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں۔ یہاں مغلیہ دورمیں تعمیر کیا گیا مقبرہ ، لالہ رخ اور باباولی قندھاری المعروف حسن ابدال کا حجرہ بھی یہاں کےقابل دید مقامات میں سے ایک ہے ۔ اس شہر میں غاروں کی بہتات ہےجن میں سے زیادہ تر شہر کے قلب میں واقع ہیں، ان ہی میں سے ایک غار میں ایک خاندان نے اپنی رہائش بنائی ہوئی ہے ۔ حسن ابدال سے جی ٹی روڈ کو چھوڑ کر دائیں طرف ہری پور ہزارہ اور اس کے بعدحویلیاں کا شہر آتا ہے، جہاں سے شاہراہ قراقرم کا آغاز ہوتا ہے۔ پاک، چین دوستی کی یادگار اس عظیم شاہ راہ پر سفر کرتے ہوئے مانسہرہ اور اس کے بعد شنکیاری آتا ہے۔مانسہرہ سے دائیںجانب ایک سڑک بالاکوٹ، وادی ناران، کاغان، جل کھڈکی طرف جاتی ہے اوربابو سرٹاپ کو عبور کرتے ہوئے چلاس کے مقام پر واپس آکر قراقرم ہائی وے سے مل جاتی ہے۔

شنکیاری کے بعد پھگوڑہ نام کی چھوٹی سی بستی ہے جس سے آگے ہائی وے کے ساتھ بٹ گرام کاضلع آتاہے ۔ اس سے اگلی جانب سفر کرتے ہوئے دریائے سندھ کے کنارے بٹ گرام کا قبائلی قصبہ، تھاکوٹ آتاہے۔ یہاں دریائے سندھ سمندر سے 1560فٹ کی بلندی پر بہتا ہے۔ یہاں 1966میںدریائے سندھ پر ایک عظیم الشان معلق پل کی تعمیر شروع ہوئی تھی جسے پاکستانی اور چینی انجینئروں نے 1978 ء میں مکمل کیا۔ طویل عرصے تک اسے تھاکوٹ کے پل کے نام سے پکارا جاتا رہا لیکن 2004میں اس کا نام سرکاری طور سے ، پاک چین دوستی کی یادگار کے طور پر’’یویی‘‘Youyi) ( رکھا گیا، جس کے معنی ’’دوستی کے پل ‘‘ ہیں۔ شاہ راہ قراقرم پر یہ ایک اہم پل ہے۔ پل عبور کرنے کے بعد بشام کا قصبہ آتا ہے جو مذکورہ شاہ راہ پر خیبر پختون خوا میں ضلع شانگلا کا ایک بڑا قصبہ ہے اور تجارتی مرکز ہے۔ یہاں ایک بڑا بازار ہے جس کی دکانیں چینی و دیگرغیر ملکی مصنوعات سے بھری رہتی ہیں۔بشام سے شاہراہ قراقرم کے بائیں جانب ایک سڑک مینگورہ سوات کی طرف جاتی ہے۔ یہاں سے آگے بڑھنے کے بعد داسو کا گاؤں آتا ہے، جس کے بعد ثمر نالہ ہے۔ پہاڑی نالے کے ساتھ کئی موٹل بنے ہوئے ہیں۔شتیال، دیامیربھاشا ڈیم، تتاپانی کے بعد رائے کوٹ کاپل ہے۔ یہ پل بھی انجینئرنگ کا شاہ کار ہےجوسطح سمندر سے تقریباً 3480فٹ کی بلند ی پر تعمیر کیا گیا ہے۔ پل کے جنگلے پرشیر کے مجسمے بنے ہوئے ہیںجن کے منہ ایسےکھلے ہوئے ہیں جیسے وہ مسافروں کو خوش آمدید کہہ رہے ہوں۔ رائے کوٹ پُل کےبعد دریائے سندھ شاہ راہ قراقرم کے دائیں جانب بہتا ہے۔ یہاں سے فیری میڈوز اور نانگا پربت کی طرف جانے کے لیے جیپیں ملتی ہیں۔ گلگت سے تقریباً ساٹھ کلومیٹر پہلے تھلیچی اور چلاس کا علاقہ آتا ہے۔یہ علاقہ شاہ راہ قراقرم پر مختلف پہاڑی مقامات کی طرف جانے کے لیے ایک اہم جنکشن ہے۔ دائیں طرف ایک سڑک استور، دیوسائی اور بلتستان کی وادیوں کی طرف جاتی ہے۔ سنگلاخ پہاڑوں میں دریائے استور کے کنارے سفر کرتے ہوئے ڈویاں اور ہرچو سے ہوتے ہوئے استور پہنچتے ہیں۔ اس قصبے میں دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلوں ، کوہ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کا ملاپ ہوتا ہے۔ سنگ مرمر کی ایک یادگار کی صورت میں اس حسین سنگم کی نشان دہی کی گئی ہے۔ یہاں پر ٹریکنگ اور اسکیننگ کے شائقین بسوںسے اتر کر بلتستان کے علاقے کی طرف جانے والی جیپوں میں سوار ہوجاتے ہیں۔

جگلوٹ سے گلگت کی حدود شروع ہوتی ہیں۔ اس سے قبل قراقرم ہائی وے پر راکا پوشی کی برف پوش چوٹی راستے میں پڑتی ہے، یہاں سے گزرتی ہوئی بسیں گلگت بازار کے بس اڈے پر مسافروں کو اتارتی ہیں۔ گلگت صوبے کا مرکزی شہر بھی گلگت کے نام سے معروف ہے۔ اس کا قدیم نام سرگن تھا۔ گلگت ائیرپورٹ یہاں سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ رٹو کے قصبے کی طرف جانے کے لیے جیپیں گلگت بازار سے ہی ملتی ہیں ، جو وادی استور سے ہوتی ہوئی ایک طویل پہاڑی سفر کے بعد رٹو پہنچتی ہیں۔ راستے میں ڈویاں اور ہرچوسے کے دل موہ لینے والے قصبات آتےہیں، جن سے گزرتے ہوئےسیاح پاکستان کی دوسری اور دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی،نانگا پربت کے دامن میں واقع استور کی وادی میں پہنچتے ہیں۔سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان دریائے استور کے کنارے سفر کرتے ہوئے لکڑی کےکئی معلق پل آتے ہیں۔ وادی استور تقریباً سو چھوٹے بڑے خوب صورت قصبات کا مجموعہ ہے ، جہاںسحر انگیز جھیلیں، سبز مرغزار، آسمان کوچھونے والے بلند و بالا پہاڑ، سر بہ فلک برفانی چوٹیاں، پہاڑی جھرنے، آب شار، سیر و تفریح کے شائقین کی دل چسپی کا محور ہیں۔ استور کے حسین مناظر والے قصبات میں چلم، بوبن، گیریکوٹ ، عیدگاہ، فینا، بولن، چونگرا اور ترشنگ کے علاقے قابل ذکر ہیں۔

گلگت سے رٹو کی وادی تک پہاڑوں سے گرتے ہوئے جھرنوںاور بہتی ندی کا شورسیاح کے ساتھ چلتا ہے۔گلگت سے استور تک کا فاصلہ 115 کلو میٹر ہے۔ جیپ کے راستے میں بار بار گڈریے اور لکڑہارے بوجھ اٹھائے سامنے آجاتے ہیں، موسم کی سختی کے باعث ان کے چہرے کرخت ہوتے ہیں، مگر ان کی دلفریب مسکراہٹ سیاح کی خو ش کردیتی ہے۔ استور کے پاس مختلف ہوٹل بنے ہوئے ہیںاندھیری کوٹھری کی صورت میں بنے ڈھابوں میں سردی سے بچتے ہوئے چارپائی پر بیٹھ کر مقامی خوراک کھانا بھی ایک دل چسپ تجربہ ہوتا ہے۔ استور سے28میل کے فاصلے پر فطری رنگینیوں کو اپنے جلو میں سمیٹے رٹو کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ پہاڑی راستوں پر دشواراور پرُخطر گزارسفر کرتے ہوئے جب رٹو کی جادو نگری میں پہنچتے ہیں تو شام ہوجاتی ہے اور سورج کی سنہری کرنوں میں مذکورہ وادی، دل فریب روپ میں نظروں کے سامنے آتی ہے۔ نو ہزار فٹ بلندی پر واقع سبزہ زاروں، برف پوش پہاڑوں اور پھلوں سے لدے باغات سے گھری ہوئی مذکورہ وادی خوب صورت منظر پیش کرتی ہے۔اونچے نیچےنیچے ٹیلوں اورفرش پربچھی سبزگھاس ، قالین کی صورت میںنظر آتی ہے، جن پر سیاح کا دل بے اختیار برہنہ پا چلنے کو چاہتا ہے۔، برف پوش پہاڑوںسے منعکس ہونے والی سورج کی کرنیں وادی میںایک انوکھااور خواب ناک منظر پیش کرتی ہیں۔ وادی میںہر طرف لگے عجیب و غریب رنگوں کےپھولوں کے گل دستےاس کے قدم روک لیتے ہیں ۔ اس گائوںسے مختلف علاقوں اور ٹریکنگ پوائنٹس کی جانب جانے کے لیے تین مختلف راستےنکلتے ہیں ۔ ایک راستہ تو گلگت اور استور کی طرف جانے کا ہےجب کہ جنوب مشرق میں 13415 ایک پہاڑی سڑک 13415 فٹ بلندی پر واقع درہ شونتر کی طرف جاتی ہے جب کہ تیسرا راستہ جنوب مغرب میںپہاڑی پگڈنڈیوں سے ہوتا ہوتیرہ ہزار فٹ بلند درہ کامری کی جانب جاتا ہے۔ رٹوکی وادی کی سیر کے دوران سلیپنگ بیوٹی نانگا پربت کا دلکش نظارہ سیاح کو اپنے سحر کی گرفت میں لے لیتا ہے۔ ہزاروں ٹن برف سے لدا یہ پہاڑ قدرت کی صناعی کا ایک حسین شاہ کار دکھائی دیتا ہے۔ شب کی سیاہی پھیلتے ہی موسم انتہائی سرد ہوجاتا ہے، تیز خنک ہوائیں سیاحوں کو اپنی قیام گاہوں میں گرم بستروںمیں پناہ لینے پر مجبور کردیتی ہیں۔ صبح کا آغاز ایک حسین رنگ میں ہوتا ہے۔ سورج کی سنہری کرنیں بلندو بالا برف پوش چوٹیوں سے چھن چھن کر وادی میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ سیاح کی آنکھ پرندوں کی چہچاہٹ سے کھلتی ہے اور اپنے ہوٹل کی کھڑکی یاخیمے سے باہر کاماحول اس کا دل موہ لیتا ہے۔ ناشتہ کرتے ہی سیاح وادی کی سیر کے لیے مختلف مقامات کا رخ کرتے ہیں۔جنوب کی طرف سفر کرتے ہوئے درہ شونتر پر بلند و بالا پہاڑی چوٹیوں کا پرشکوہ منظر ذہن پر ان مٹ نقوش ثبت کرتا ہے۔ جب وہ گھنے جنگلات میںداخل ہوتےہیں تو انہیں یہاں مختلف جانوروں اور پرندوں کا شور سنائی دیتا ہے، جو نہایت بھلا معلوم ہوتا ہے۔فضا کی تازگی اور خنک ہوا اسے اپنا دیوانہ بنا لیتی ہے اور اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ انہی پہاڑوں کے دامن میں ، کسی کونے میں ایک جھونپڑی بنا کر یہیں زندگی گزار لے لیکن شہر میں مصروفیات اورگھریلو ذمہ داریاں اس کی راہ میں حائل ہوجاتی ہیں۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 191376 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.