پوروانچل کی سڑک پر پیدل وزیر اعلیٰ

اترپردیش کے اندر وزیر اعظم نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز بلا اعلان پوروانچل ایکسپریس نامی سڑک کے افتتاح سے کیا۔ اس موقع پر ایک ائیر شو بھی رکھا گیا جس کی ضرورت کسی کی سمجھ میں نہیں آئی ۔ ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے چونکہ لوگ اب مودی جی کو سننے کی خاطر ازخود نہیں آتے اس لیےتوقع کی گئی ہوگی کہ کم ازکم ائیر شو دیکھنے کے لیے بھیڑ جمع ہوجائے گی لیکن وہ اندازہ بھی غلط ثابت ہوا۔ بھیڑ کو اکٹھا کرنے کے لیے 2000؍ سرکاری بسوں کے استعمال کی خبر ذرائع ابلاغ میں آچکی ہے۔ ان بسوں کے ایک جلسے کی نذر ہوجانے سے عوام کو جو زحمت ہوئی ہوگی وہ اپنی جگہ لیکن مجمع تو لگ گیا۔ اب کیا وہ لاکھوں لوگ جنھوں نے پریشانی جھیلی ہے بی جے پی کو اپنے ووٹ سے نوازیں گے یہ اہم سوال ہے؟لوگ ایک آدھ مرتبہ تو اس طرح کی مصیبت برداشت کرلیں گے لیکن اگر اسے ا گلے تین ماہ میں 50؍ مرتبہ دوہرایا جائے تب بھی کیا ان کے صبر کا پیمانہ لبریز نہیں ہوگا ؟ یہ دوسرا سوال ہے۔
پہلے یہ ہوتا تھا کہ اگر لوگوں کو سفر کی سہولت فراہم کردی جائے تو وہ سیر و تفریح اور کچھ معاشی فائدے کے لیے چلے آتے تھے لیکن اب مقبول ترین وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ اس میں بھی ناکام ہوگئے تو یہ خبر آئی کہ بیروزگاروں کے لیے چلائی جانے والی سرکاری اسکیم منریگا کے تحت کام کرنے والے مزدوروں کو لانا پڑا۔ وہ بیچارے نہ آتے تو ان کی مزدوری کٹ جاتی۔ ویسے ان کو فرق بھی کیا پڑتا ہے؟ اپنے گاوں یا شہر میں سرکار ی کام کریں یا وزیر اعظم کے جلسے میں شرکت فرمائیں ۔ ان کے لیے تو کام کا کام اور آرام کا آرام ہوگیا۔ ڈبل انجن سرکار نے سرکاری خرچ پر اپنا جلسہ توکامیاب کروا لیا لیکن کیا یہ لوگ ووٹ بھی دیں گے؟ اپنی مرضی کے خلاف جمع ہونے والی بھیڑ کی عدم دلچسپی کا مظاہرہ وزیر اعظم کی تقریر کے دوران جوش و خروش کے مکمل فقدان سے ہوا۔ ’مودی ۰۰۰مودی‘ کے نعرے بالکل غائب تھے کیونکہ سامعین تو اپنی ڈیوٹی بجا رہے تھے اور تالیاں بجا بجا کر نعرے لگانا ان کی ذمہ داری میں شامل نہیں تھا ۔ اس تناظر میں غور کریں کہ اگر 2022میں اترپردیش کے اندر غیر بی جے پی سرکار اقتدار میں آجائے تو وزیر اعظم کی 2024والی انتخابی مہم کا کیا حشر ہوگا؟ مودی کو کامیاب کرنے کی خاطر یوگی کودوبارہ جتانے کی بات امیت شاہ نے یوں ہی نہیں کہی۔

وزیر اعظم نےپوروانچل ایکسپریس نامی سڑک کا افتتاح کرنے کی خاطر فوجی جہاز سے پہنچ کر ائیر شو کرایا ۔ایسے میں ان کے ساتھ دووزراء کی موجودگی ضروری تھی۔ مواصلات کے وزیر نتن گڈکری کا محکمہ چونکہ سڑک اور پُل بناتا ہے ۔ اس کام کے لیے ان کی بہت تعریف بھی ہوتی ہے اس لیے ان کو بلایا جانا چاہیے تھا ۔ ان کے علاوہ راج ناتھ سنگھ کا بھی حق تھا کیونکہ ائیر فورس ان کے محکمہ وزارت دفاع سے منسلک ہے۔ راجناتھ سنگھ اسی علاقہ کے رہنے والے سابق وزیر اعلیٰ ہیں اس لیے ان کی غیر حاضری حیرت انگیز تھی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ دونوں وزیر اعظم سے اچھی تقریر کرسکتے ہیں ۔ اب اگر ان کے خطاب پر وزیر اعظم کی تقریر سے زیادہ تالیاں بج جائیں تب تو میڈیا میں اسے چھپانا مشکل ہوجائے۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن پر دیگر لوگوں کے جملے چھپ جائیں تو وزیر اعظم کو کون پوچھے؟ اس خوف سے مودی جی اپنے فریم میں کسی آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ان کا محافظ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ کو کیمرے کے سامنے سے ہاتھ پکڑ کر ہٹا دیتا ہے اور امیت شاہ بھی اپنے آقا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پارٹی کے صدر جے پی نڈا کو بزورِ بازو پیچھے کردیتے ہیں۔ وزیر اعظم کے احساسِ کمتری اور خودپسندی کی بہت بڑی قیمت اس بار یوگی ادیتیہ ناتھ کو چکانی پڑی۔
بی جے پی اپنے سارے نعرے بھول چکی ہے مگر ان میں سےایک اب بھی چل رہا ہے’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس ‘۔ اب سوال یہ ہے کہ جو وزیر اعظم اپنی کابینہ کے سینئر ترین وزراء کو ساتھ نہیں لیتا۔جو پارٹی کے سابق صدور کو نظر انداز کردیتا ہےوہ بھلا غیروں کو اپنے ساتھ کیسے لے سکے گا؟ اور جن کا ساتھ چھوٹ جائے گا ان کا وکاس کیسے ہوگا؟ اگر ان کا وکاس نہیں ہوگا تو وشواس کیسے پراپت (اعتماد کیسے حاصل) ہوگا؟ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ 15؍ لاکھ سے بڑا انتخابی جملہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ بی جے پی کے اندر پائے جانے والے عدم اعتماد کا یہ عالم ہے کہ اس نے مذکورہ افتتاح کے دن مرزا پور میں اکھلیش یادو کی طے شدہ ریلی منسوخ کروادی کہ کہیں لوگ دونوں کا موازنہ نہ کرنے لگیں ۔ وزیر اعظم جب کسی ریاست کا دورہ کرتاہے تو سرکاری پروٹوکول کے مطابق چاہے نہ چاہے وزیر اعلیٰ کو ان کا خیر مقدم کرنا ہی پڑتا ہے۔ اس لیے وزیر اعلیٰ ادیتیہ ناتھ دہلی دربار سے لاکھ ناراضی کے باوجود استقبال کے لیے پہنچنا پڑا۔

فوجی ہوائی جہاز سے اترنے کے بعد اسٹیج تک جانے کا مرحلہ تھا ۔ اب بھلا وزیر اعظم چند قدم پیدل کیسے جاسکتے ہیں اس لیے وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گاڑی کے اطراف ان کا حفاظتی دستہ چل رہا تھا مگرپیچھے صوبے کا وزیر اعلیٰ اور گورکھ ناتھ پیٹھ کا مہنت بھی گیروا لباس پہن کر پیدل گامزن تھا ۔
اس واقعہ کی ویڈیو دیکھتے دیکھتے ذرائع ابلاغ پر چھا گئی۔ اس خبرکو نہ صرف سوشیل میڈیا بلکہ گودی میڈیا بھی نظر انداز نہیں کرسکا۔ حزب اختلاف میں اکھلیش یادو اور سنجئے سنگھ نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ اس کا چرچا اس قدر ہوا کہ لوگ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کی تقریر کو بھول کراس بحث میں پڑ گئے کہ مودی نے کیوں یوگی کو نئی سڑک پر پیدل کردیا ہے؟ یہ تو بس اک ٹریلر تھا پوری پکچر باقی ہےکیونکہ انتخابی نتائج کے بعد ہر دو صورت میں یوگی کو پیدل ہونا ہے۔ ایک زمانے تک بہار میں بی جے پی کے سب سے بڑے رہنما سشیل مودی ہوا کرتے تھے ۔ وہ نائب وزیر اعلیٰ بھی رہے لیکن فی الحال گمنامی کے اندھیرے میں ڈھکیل دیئے گئے ۔ ان کو مودی جی نے موقع دیکھ کر محض اس لیے بے یارومددگار کردیا کیونکہ انہوں نے کئی سال قبل ایک بار بھول سے نتیش کمار کو وزیر اعظم بننے کی صلاحیت کا حامل قرار دے دیا تھا ۔

یوگی ادیتیہ ناتھ نے اپنی کرسی بچانے کی خاطر وزیر اعظم کے منظورنظر اے کے شرما کے ساتھ جو اہانت آمیز سلوک کیا ہے اس کی قیمت جلد یا بہ دیر ان کو چکانی پڑے گی ۔ اس ادائیگی کی پہلی قسط موصول ہوچکی ہے۔ گودی میڈیا نے اس معاملے کی یہ صفائی پیش کی کہ سرکاری پروٹو کول کے مطابق وزیر اعظم کی گاڑی میں وزیر اعلیٰ سمیت کوئی اور نہیں بیٹھ سکتا۔ اس بات کو اگر درست مان بھی لیا جائے تب بھی یہ کون نہیں جانتا کہ وزیر اعظم مودی اپنی روایت شکنی کے لیے مشہور ہیں۔ کئی غیر ملکی مہمانوں کا استقبال کرنے کی خاطر وہ ہوائی اڈے پر پہنچ جاتے ہیں جو پروٹوکول کے خلاف ہے اس لیے کہ خود ان سے ملنے کی خاطر ائیرپورٹ پر کوئی سربراہِ مملکت نہیں آتا۔ دوسری بات یہ ہےکہ اپنے چہیتے وزیر اعلیٰ کو ساتھ بیٹھا لینے سے بھلا وزیر اعظم کو کون ساخطرہ لاحق ہوجاتا؟ وہ بیچارہ پیچھے کی سیٹ پر دبک کر بیٹھارہتا اور حسب ضرورت حفاظت ہی کرتا لیکن اصل مسئلہ وہی فوٹوفریم کا تھا جس میں کوئی اپنا پرایا داخل نہیں ہوسکتا۔ وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ اپنے پانچ سال پورے کرنے والے ہیں ابھی تک انہیں اس کا اندازہ ہوجانا چاہیے تھا ۔

یوگی جی اس توہین سے بچنے کے لیے بہت کچھ کرسکتے تھے۔ مثلاً وہ اپنے لیے بھی ایک گاڑی کا بندوبست کروا لیتے اور اس میں سوار ہوکر اسٹیج تک پہنچتے لیکن انہوں نے سوچا ہوگا کہ وزیر اعظم کی سواری بہت کشادہ ہے۔ اس میں تو ان کے دونوں نائب وزرائے اعلیٰ بھی بڑے آرام سے سفر کرسکتے ہیں لیکن مہنت جی بھول گئے کہ گاڑی میں جگہ دینے کے لیے دل کی کشادگی ضروری ہے۔ وہ اگر موجود ہوتو چھوٹی سی گاڑی میں بہت سارے لوگ سواری کرتے ہیں اور ناپید ہوتو بڑی بڑی گاڑیاں خالی چلتی ہیں ۔ یوگی سے دوسری بڑی غلطی یہ ہوئی کہ وہ گاڑی کے پیچھے پیچھے اتنے قریب چل پڑے کہ فوٹو فریم میں آگئے۔ وہ اگر کچھ دیر وہیں بیٹھے رہتے اور گاڑی کو آگے نکل جانے دیتے تو ویڈیو کے اندر دکھائی نہیں دیتے ۔ اس صورت میں کسی پتہ ہی نہیں چلتا کہ یوگی پیدل آئے یا مودی نے انہیں گاڑی میں اپنے ساتھ نہیں سوار کیا لیکن سنسکرت کی مشہور کہاوت ہے ’وناش کالے ویپریت بدھی‘ یعنی تباہی کے دور میں دماغ الٹ جاتا ہے۔ ان کی سمجھ میں بات نہیں آئی اور کیمرے نے اپنا کام کردیا۔
 
وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں شکایت کی کہ پہلے یعنی یوگی کے اقتدارسنبھالنے سے قبل جب وہ اتر پردیش آتے تھے تو ان کا استقبال کرنے کے بعد ریاستی وزراء غائب ہوجاتے تھے کیونکہ انہیں اپنے رائے دہندگان کی ناراضی کا خوف ہوتا تھا ۔ اس طرح بلاواسطہ مودی جی ہندو مسلم کارڈ کھیلنے کی کوشش کی کہ اکھلیش اپنے مسلم ووٹرس کے ڈر سے فاصلہ بناتے تھے لیکن انہوں نے تو خود اپنی پارٹی کے وزیر اعلیٰ کو دور کردیا۔ مودی کے پیچھے چلنا یوگی کی مجبوری ہے اس لیے وہ لاکھ بے عزتی کے باوجود اسے برداشت کرناپڑے گا لیکن دوسروں کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ اس لیے مودی جی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مسئلہ ووٹرس کی ناراضی سے بچنے کا نہیں بلکہ اپنی عزت کو بچانے کا تھا ۔ مودی جی یہ سمجھتے ہیں کہ سڑک بناکر وہ انتخاب جیت جائیں گے مگر انہیں معلوم ہونا چاہیےکہ پہلے مایا وتی نے دہلی آگرہ سڑک بنائی اور الیکشن ہار گئیں۔ اکھلیش یادو نے آگرہ سے لکھنو کی سڑک بنائی وہ بھی ہارگئے ۔ اس سڑک کا منصوبہ بھی اکھلیش کا ہی تھا مگر سرکار بدل گئی تو بی جے پی نے اپنے لوگوں کو ٹھیکہ دینے کی خاطرپرانا ٹینڈر منسوخ کرنے کے بعد کام توپورا کیا مگر اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اترپردیش کے لوگ سڑک بنانے والے وزیر اعلیٰ کو انتخاب کے بعد پیدل کردیتے ہیں اور مودی جی نے تو پہلے ہی کردیا۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2069 Articles with 1259961 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.