تقسیم ہند سے ایک طرف ہندوئوں کو آزادی ملی تو دوسری
جانب مسلمانوں نے ایک قطعۂ ارض حاصل کرلیا، ہندوئوں کے نزدیک تصور آزادی
محض یہ تھا کہ بدیشی راج باقی نہ رہے اور کاروبار حکومت دیسیوں، ملکیوں (ہندوئوں)
کے ہاتھ آجائے، یہ اس کی منزل مقصود تھی، اب جب وہ یہاں تک پہنچ گئے تو وہ
مطمئن ہیں کہ وہ آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، لیکن مسلمانوں کی حالت
مختلف تھی، یہ ایسی آزادی کو منزل نہیں متصور کرتے، ان کے نزدیک آزادی
نشانِ منزل ہے، لیکن اب وہ کشمکش میں مبتلا ہیں کہ:
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
آج ہماری یہی کیفیت ہے کہ ہم بادیٔ النظر سیاسی آزادی سے تو ہمکنار ہوچکے،
لیکن فکر سے محروم اور تہی ہیں۔ آزادی، غیر کی غلامی (سیاسی استیلا) کی
عدم موجودگی کی سلبی کیفیت کا نام نہیں، آزادی مثبت شے ہے، یہ لاالٰہ کی
وادی میں صرف حاصل نہیں ہوتی بلکہ گلستان الا اللہ کی دائمی بہار ہے،
آزادی ظلمت نہیں کہ عدم نور کا نام ہو بلکہ یہ نور کی مثبت موجودگی ہے کہ
جس سے زندگی کا ہر گوشہ صد خاو بداماں ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آزادی
خارج سے مسلط نہیں کی جاسکتی لیکن اس کا فوارہ اعماق قلوب سے پھوٹتا ہے۔ یہ
اُس وقت تک مثبت کیفیت نہیں بنتی جب تک ’’مابا تفہیم‘‘ کے تغیر و تبدل کی
آئینہ دار نہ ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے آبا و اجداد نے جس خطۂ زمین کے
لئے قربانیاں دیں اس کا ہم صرف اندازہ کرسکتے ہیں، محسوس نہیں کرسکتے،
بہرحال دنیا نے ہر قوم کی عظمت کو آزادی کے پیمانوں سے ماپا اور اسی کے
معیاروں سے جانچا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آزادی بالآخر کیا شے ہے،
جو انسان کے لئے اس درجہ مرغوب و مقصود بن چکی کہ اگر آزادی وہی ہے جس کا
غلغلہ ہم سات دہائیوں سے سن رہے ہیں تو ہمیں حیرت ہے کہ انسان کو کیا ہوگیا
کہ اس نے اس کی خاطر زمین اور انسان کو ایک کر رکھا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ
سوائے اس ظاہری شوروغوغا اور سطحی دھوم دھام کے ہماری حیاتِ اجتماعیہ میں
کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ ہم وہیں ہیں، جہا ں
تاریخ آزادی کے وقت تھے، بلکہ ایک لحاظ سے اس سے بھی کچھ پیچھے۔
ہم بظاہر آزاد ہیں، قانونی اور بادیٔ النظر آئینی معنوں میں پوری طرح
آزاد، لیکن کیا واقعتاََ ہم جس آزادی کو آزادی سمجھتے ہیں اس کے نتائج
سے ہم دوچار ہیں؟ کیا یہی وہ آزادی ہے جس کے نغمے فطرتِ انسانی کے ساز سے
ہمیشہ ابھرتے، ابلتے رہتے ہیں؟ کیا ہم خود اس قسم کی آزادی کا مطالبے کیا
کرتے تھے؟ اگر آزادی اسی کیفیت (بلکہ عدم کیفیت) کا نام ہے تو ہمیں اعتراف
کرلینا چاہیے کہ تاریخ کی رصدگاہوں کے تمام نقوش باطل ہیں یا ہم نے
کہیں’’دھوکا‘‘ کھایا ہے۔ کہنے کو ہم آزاد ہیں، ہر معنی میں آزاد، لیکن اب
نہ جانے آزادی کا احساس کیوں نہیں ہوتا کہ آزادی کے جب بھی تجارب ہوئے تو
ہم نے کون سی تبدیلی پیدا کی کہ جس کے باعث اس آزاد نما زندگی کو سابقہ
غلامی کی زندگی پر ترجیح دیں، تو ظاہر ہوا کہ اس بظاہر آزادی میں کسی ایسی
شے کی کمی ہے جس سے آزادی اور غلامی میں چنداں امتیاز نظر نہیں آتا۔
آئیے دیکھیں کہ ’’سب باقی ہیں تُو باقی نہیں ہے‘‘ کے مصداق کون ’’تُو‘‘ہم
میں نہیں، آئیے دیکھیں کہ اس ہیلمٹ کی داستان میں وہ کون شہزادہ گم ہے، جس
سے یہ داستان اس درجہ بے کیف ہوکر رہ گئی ہے۔
تاریخ کے ادوار میں آپ کو خدا کے منکرین مل جائیں گے، لیکن کسی دور میں
ایسا کوئی گروہ نہیں ملے گا جس نے آزادی کی عظمت سے انکار کیا ہو، انسانی
تاریخ کیا ہے؟ اپنی اپنی آزادی کے تحفظ کی جدوجہد کی مسلسل داستان، مختلف
ادوار میں نمار ید و فراعنہ زماں اور اکاسر و قیاصر دہر، ہمیشہ اس کوشش میں
رہے کہ کمزور انسانوں کے سینے سے آزادی کی تمنا کو مٹادیا جائے، لیکن
کمزور و ناتواں انسانوں نے اپنا سب کچھ لٹنا اور مٹنا گوارا کرلیا مگر
آزادی کی حسین آرزوؤں کو اپنے دل کے کاشانوں سے کبھی مٹنے نہیں دیا، اس
نے قرباں گاہ پر اپنی عزیز ترین متاع حیات کی بھینٹ چڑھادی، لیکن اس کی آن
پر کبھی حرف نہیں آنے دیا، تاریخ کے ریگ ِساحل پر ان گنت موجیں آئیں اور
مختلف نقوش کو بہاکر ساتھ لے گئیں، لیکن کوئی نقش ایسا تھا جو اس کی مسلسل
تگ و تاز کے باوجود کبھی مٹ نہ سکا، عوام کا تقاضا اور ان کی کیفیت جداگانہ
رہی۔
عوام غیر مطمئن ہیں کیونکہ ان کی جس خلش کو برسوں ابھارا گیا، اب انہیں
محسوس ہونے لگاہے کہ اس کے ثمرات سے وہ مستفید نہیں ہورہے بلکہ لگتا ہے کہ
صرف وہی طبقات و افراد مطمئن ہیں جن کے قلب میں کوئی خلش نہیں، کیونکہ ان
کے پیش نظر ذاتی مناصب و شخصی منافع تھے وہ ان کے حصول میں مصروف ہیں، جہاں
تک اربابِ اختیار کا جو تصور سیاست ہے، موجودہ بے یقینی حالات بھی ان کے
لئے اطمینان بخش ہیں، وہ تو خود تو مطمئن ہیں لیکن جو مطمئن نہیں انہیں وہ
شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے کہ شاید یہ دیوانے باغی اور مخالف
ہیں، عوام کی تسکین کا اب بھی کوئی سامان نہیں، حتیٰ کہ روٹی کا مسئلہ جو
غریب کے سامنے سب سے پہلے آتا ہے، اس کا بھی کوئی اطمینان بخش حل نہیں۔ جو
اہل دانش اس ضمن جو حل پیش کرتے ہیں تو انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تھیوکریسی کا مقصد رجعت پسندانہ اور خود غرضانہ ہیں، ارباب ِاختیار کی روش
منافقانہ ہے، عوام کے تحت الشعور کا کوئی علاج نہیں، وہ غیر مطمئن ہیں،
جنوں زدہ طبقے میں بغاوت کے آثار ہویدا ہیں، ایسے میں کیا ہوگا؟، اس عدم
اطمینان اور منافقت کی طبقاتی گرداب سے قوم بچ سکتی ہے تو کسی صاحبِ فکر
اور قانون کے درست سمت اختیار کرنے کے صدقے سے۔ کیونکہ مستقبل اس کے ہاتھ
میں ہوگا جس کا سینہ کشمکش کی آماج گاہ بھی بن سکے۔
بیدار ہوں دل جس کی فغانِ سَحری سے
اس قوم میں مُدّت سے وہ درویش ہے نایاب
|