تحریر: بسمہ ملک
23 مارچ 1940ء میں لاہور کے منٹو پارک (موجودہ گریٹر اقبال پارک) میں آل
انڈیا مسلم لیگ کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا؛ ہندو اور
مسلمان دو الگ مذہبی فلسفوں، سماجی روایات اور ادبیات سے تعلق رکھتے ہیں وہ
نہ تو آپس میں شادیاں کرتے ہیں اور نہ ہی اکٹھے کھانا کھاتے ہیں اور یقیناً
وہ دو مختلف تہذیبوں کے نمائندے ہیں جن کی بنیاد متصادم نظریات اور تصورات
پر ہے۔ انگریزوں اور ہندوؤں کے ایک سوال کے جواب میں قائد اعظم نے فرمایا
کہ پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جس دن پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ یہ
بنیاد ہے دو قومی نظریہ کی۔ ہندو اور مسلمان دونوں الگ قومیں ہیں یہی نظریہ
تھا ہمارے آباؤ اجداد کا تھا جس کی بنیاد پر پاکستان بنا ہے اسی نظریے نے
قوم کو جوڑا اور برصغیر کی مختلف مسلمان اقوام نے ایک جھنڈے ایک نعرے ایک
قائد اور نظریہ پر جمع ہو کر پاکستان بنا لیا
وہ نظریہ تھا دو قومی نظریہ اب وقت ضرورت ہے ایک قومی نظریہ کی۔ ایک قومی
نظریہ کا مطلب قوم پرستی سندھی بلوچی پنجابی سرائیکی پختون کی تکرار چھوڑ
کر ایک قوم بن جائیں قوم پرستوں کے جھوٹے پروپگنڈے کو چھوڑ کر ایک قوم
پاکستانی قوم بنا جائے اس سلسلے میں ہم ایرانی قوم،ترک قوم،اورچاپانی، چینی
اور جرمن قوم سے سیکھ سکتے ہیں آپ چاہے کسی بھی پارٹی میں ہوں۔چاہے کسی بھی
مسلک سے مگر آپکی وفاداری آپ کے وطن سے ہونی چاہیے۔آپ سب ایک قوم ہیں اور
وہ قوم ہے پاکستان۔ دشمن آپکی وحدانیت کو توڑنا چاہتا ہے۔ دشمن کی سازشوں
کو ناکام بنائیں متحد ہو جائیں۔ ہماری تمام تر توانائیاں اورصلاحیتیں وطن
عزیز پاکستان کی ترقی اور اس کی بقا کیلیے صرف ہونی چاہئیں۔ ہماری زندگی
موت ملکِ پاکستان کیلیے ہونی چاہیں اور ہمیں ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلیے
کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ بقول شاعر؛
اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جاں باز چلے آتے ہیں
|