پاکستان صحافتی تاریخ میں2021ء کو ہمیشہ یا درکھا جائے گا
قبل ازوقت یہ کہنا مشکل ہے ’’ اچھا یا برا‘‘ ۔بتایا جاتا ہے کہ تحریک انصاف
کی حکومت نے انگریزی زبان میں مشترکہ پارلیمنٹ اجلا س میں ایک بل پاس
کروایا ہے ۔ بل کی منظوری کے بعدمیں چیف ایڈیٹر،ایڈیٹر ، سب ایڈیٹر اور
کیمرہ مین ’’ فوٹو گرافر ‘‘ صحافی نہیں رہے ۔ابھی اس ترمیمی بل کے بارے میں
بہت سے معاملہ جلد سامنے آئیں گے ۔ جو ابھی زیر بحث ہیں ۔افسوس اس بات کا
نہیں کہ یہ ترمیمی بل کیوں پا س ہوا ۔افسوس اس بات کا ہے کہ یہ انگریزی
زبان پاس ہو ا۔آئین پاکستان کے آرٹیکل 251 کی خلاف وزری ہے ۔ انگریزی زبان
کی وجہ سے80فیصد پاکستانی قوم ترمیمی بل پڑھنے اور سمجھنے سے محروم ہے ۔ اس
حقیقت سے نکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے،
پاکستانیوں کی صرف 7.57فیصدآبادی ہی مادری زبان اردو رکھتی ہے۔ لیکن تعلیمی
سطح پر، ذرائع ابلاغ میں اور تجارتی لین دین میں اردو کا ہی استعمال کیا
جاتا ہے اس طرح اردو بولنے والوں اور سمجھنے والوں کی اکثریت ہے۔ یہ اپنے
آپ میں ملک کے ثقافتی اور سماجی ورثے کے ایک وسیع ذخیرے کی حامل ہے۔بانی
پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا پیغام۔’’میں آپ کو واضح طور پر بتا
دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو، اور
اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں ہو گی۔ دیگر اقوام کی تاریخ اس امر پر گواہ
ہے کہ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور
نہ کوئی اور کام کر سکتی ہے،پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے
وہ صرف اور صرف اردو ہی ہو گی۔ (21 مارچ 1948 ڈھاکہ)
آئین پاکستان کے آرٹیکل 251 کے مطابق۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور
یوم آغاز سے 15 برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال
کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔ شق۔ 1 کے تابع، انگریزی زبان اس وقت تک
سرکاری اغراض کے لیے استعمال کی جاسکے گی، جب تک کہ اس کے اردو سے تبدیل
کرنے کے انتظامات نہ ہوجائیں۔ قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیر، کوئی
صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعہ قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی
تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کرسکے گی۔
تاریخ گواہ ہے کہ چین کی ترقی کازار صر ف اور ضرف ان کی اپنی زبان کا
استعمال ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ میں چینی صدر سے کسی انگریز
صحافی نے سوال کیا ۔ تو چینی صدر انگریزی زبان کو جاننے کے باوجوداپنے
مترجم سے کہا ۔ اس انگریز صحافی کو جواب دو، چین گوگانہیں جو بھی بات ہو گی
۔ چینی زبان میں ہوگی ۔
تاریخ گواہ ہے ۔صحافت کے ابتدائی دور میں اخبار کا مالک ہی ایڈیٹر، پرنٹر
اور پبلشر ہوا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ اخبار کے آفس کی صفائی ستھرائی کا کام
بھی اسی کے ذمہ ہوتا تھا کیونکہ ان دنوں صحافت صرف خدمت کے دائیرے میں تھی
ابھی صنعت میں تبدیل نہیں ہو پائی تھی مگر آج صحافت ایک دلکش صنعت میں
تبدیل ہو گئی ہے۔ اس لئے اخبار کی ترتیب و اشاعت کیلئے کئی ایک تربیت یافتہ
افراد وابستہ ہوتے ہیں جو اپنے اپنے شعبہ میں مہارت رکھتے ہیں۔
اخبار کے مختلف شعبوں میں شعبہ ادارت کو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس کے
بغیر اخبار کا وجود ہی ختم ہو جائے گا۔ صحافتی مواد جیسے خبریں، اطلاعات،
مضامین، ادارے، فیچر، کالم اور دیگر موادکی ترتیب و تہذیب کا کام شعبہ
ادارت کے ذمہ ہوتا ہے عموماً اس کا سربراہ ایڈیٹر یا چیف ایڈیٹر ہوتا ہے۔
عموماً اردو اخبارات میں ایڈیٹر ہی اخبار کے مالک، پرنٹر اور پبلشر ہوتے
ہیں جبکہ انگریزی اور دوسری بڑی زبانوں کے بڑے اخبارات میں ایڈیٹر خود
ملازم ہوتے ہیں۔
اخبار کے دفتر میں اشاعت کیلئے بہت سا مواد حاصل ہوتا ہے جن میں خبریں،
اطلاعات، رائیں، مضامین اور خطوط وغیرہ حاصل ہوتے ہی فوری چھپنے کیلئے نہیں
بھیجا جاتا ہے بلک منتخب مواد کو جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔ پھر اس کے متن
کی نوک پلک سنواری جاتی ہے۔ سرخی تیار کی جاتی ہے۔ ابتدائیہ لکھا جاتا ہے۔
صفحہ اور کالم کا تعین ہوتا ہے۔ تب کہیں وہ خبر کتابت یا کمپوزنگ شعبے کو
روانہ کی جاتی ہے۔ مواد کے حصول اور اشاعت سے قبل کے تمام مراحل کو ادارت
کا نام دیا گیا ہے جسے Subbing بھی کہتے ہیں Subbing کی ذمہ داری سب ایڈیٹر
کے سپرد کی جاتی ہے۔ عام طور پر Sub Editor کو Sub کے نام سے پکارا جاتا
ہے۔ Subbing کے عمل کو Copy reading بھی کہا جاتا ہے۔ اردو میں سب ایڈیٹر
کو نائب مدیر کہتے ہیں۔
سب ایڈیٹر صحافتی دنیا کا ایک گمنام اور مظلوم کارکن ہوتا ہے جو دن رات
اخباری صفحات پر بہتر سے بہتر مواد کو بکھیرتا ہے۔ صفحہ کی ترتیب و تزئین
کا ہمیشہ خیال رکھتا ہے مگر اس کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ سب ایڈیٹر اس گمنام
مزدور جیسا ہے جس نے نہایت کمال اور فن سے اپنے ہاتھوں سے تاج محل کی تعمیر
توکرتا ہے مگر اس کا نام تاریخ کے صفحات میں کہیں نہیں ملتا بلکہ تاج محل
بنوانے والے کا نام ہی زندہ جاوید ہو گیا۔
نائب مدیروں کی یہ بدقسمتی ہے کہ نہ تو ان کے نام اخبار کے صفحات پر شائع
ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں قارئین سے ذاتی طور پر تبادلہ خیال کا موقع ملتا
ہے۔ یہ گمنام ستاروں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں حالانکہ کسی بھی اخبار کی
ترتیب اور اشاعت میں نائب مدیروں کی محنت کا بڑا دخل رہتا ہے مگر علانیہ
طور پر نہ تو ان کی عزت افزائی ہوتی ہے اور نہ ان کی کارکر دگی پر انعامات
یا اعزازات کی بارش ہوتی ہے کبھی کبھی اچھی اور اہم خبروں کی خصوصی رپورٹوں
کے ساتھ نامہ نگار کے نام بھی دیئے جاتے ہیں مگر کبھی یہ شائع نہیں کیا
جاتا کہ فلاں مواد کی ادارت فلاں سب ایڈیٹر کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔ نائب
مدیر وہ سورماہیں جن کی صلاحیت کے گن گائے نہیں جاتے اور جن کی کوی تہنیتی
تقریب منائی جاتی ہے اس معاندانہ رویہ کے باوجود نائب مدیر پوری ایمانداری
اور سنجیدگی سے اپنی ادارتی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں اور عملی صحافت کا پرچم
بلند رکھتے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ آج پنی شناحتی کو بچانے کیلئے چیف
ایڈیٹر،ایڈیٹر ، سب ایڈیٹر اور کیمرہ مین ’’ فوٹو گرافر ‘‘ کو جاگ پڑے گا
۔ورنہ تاریخی ہمیں معاف نہیں کرے گی ۔
|