سن ۸۷۹۱ءکو بننے والی طلبہ تنظیم
آل پاکستان مہاجراسٹو ڈینٹ آرگنائزیشن نے اپنے سفر کا آغاز کیا اورآل
پاکستان مہاجراسٹو ڈینٹ آرگنائزیشن نے کم وقت میں بے پناہ مقبولیت بھی حاصل
کرلی ۔۔۔یہ واحد جماعت تھی جس نے پاکستان بننے کے بعد ہجرت کرنے والی قوم
یعنی مہاجروں کے حقوق کا عندیہ دیا گو کہ حالات و واقعات کچھ اس طرح سے اُس
وقت تھے کہ ان مہاجروں کی داد رسی کرنی والی کوئی جماعت یا تنظیم نہ تھی
اور یہ قوم مسلسل زیادتی کا شکار ہورہی تھی۔ نہ اس قوم کو روزگار کے مواقع
حاصل ہورہے تھے اور نہ تعلیم و ہنر کی سہولت میسر تھی۔۔۔ آل پاکستان
مہاجراسٹو ڈینٹ آرگنائزیشن کامنشور تھا کہ اس قوم کو دیگر قوموں کے مساوی
حقوق دلائے جائیں اور رائج کوٹہ سسٹم کا مکمل خاتمہ کیاجائے اور میرٹ ہی کو
صرف نافذ عمل کیا جائے تاکہ پاکستان میں ذہین، ذہنوں کو مکمل مواقع میسر
ملیں تاکہ وہ اس ملک و قوم کی بہتری اور تعمیر و ترقی میں اپنی بہترین
خدمات پیش کرسکیں اور ملک پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر نے میں اپنا
اہم کردار ادا کرسکیں گو کہ اے پی ایم ایس او کے اس منشور نے کم وقت میں
بہت مقبولیت حاصل کرلی اور اس دور کے تمام تحریکی ساتھیوں نے اپنی تن من
دھن کی بازی لگا دی۔ ۔۔ لیکن کیا یہ طلبہ تنظیم اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکی
اگر نہیں تو کیوں؟؟آخر کیا محرکات تھے کہ اپنے منشور کے تحت طلبہ تنظیم کے
مقاصد کو اس طرح پورا نہ کرسکے؟؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا اے پی ایم ایس او
نے سامنا کیا ، اے پی ایم ایس او کے مطابق ان کا منشور تو وہی ہے مگر ہمیشہ
کی طرح ان کے مثبت اقدام میں مسلسل دیگر پارٹیوں کی مداخلت شامل حال رہی ،انھیں
تعلیمی میدان آئے روز دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا رہا کہیں لسانی
تنظیموں نے ظلم و ستم ڈھائے تو کہیں اسلامی تنظیموں نے کانٹے بچھائے تو
کہیں دیگر سیاسی تنظیموں نے معصوم طالبہ و طالبات کا خون بہایاپھر بھی اے
پی ایم ایس او کے مطابق انھوں نے ان مشکل حالات کے باوجود ہمت نہ ہاری اور
طلبہ و طالبات کے جائز مطالبات اور مشکلات کو حل کرنے میں مصروف عمل
رہے۔۔۔کوٹہ سسٹم کے سلسلے میں اے پی ایم ایس او کا موقف ہے کہ یہ معاملہ
ایک عرصہ سے حکومت کی فائلوں میں بند ہے نجانے کب عمل پزیز ہوگا جبکہ اے پی
ایم ایس او مسلسل اس سلسلے میں یاد داشت پیش کرتی چلی آرہی ہے لیکن حکومتوں
نے ہمیشہ ایسے حالات پیدا کیئے رکھے ہیں کہ اس نقطہ پر سنجیدگی اختیار کرتے
ہی نہیں۔۔۔۔بنیادی تحریکی ساتھیوں کے خلوص کے سبب اے پی ایم ایس او بڑی
کامیابیوں سے ہمکنار ہوئی اس طرح یہ تنظیم سندھ کے تمام تعلیمی اداروں میں
طلبہ و طالبات کی بڑی جماعت بن کر ابھری ۔۔۔۔ پھر وقت نے دیکھا کہ اے پی
ایم ایس او سے ایک ذیلی جماعت نے جنم لیا یہ ذیلی جماعت خالصتاً سیاسی
جماعت تھی اس جماعت کے ذریعے یہ تنظیم حکومتی مشنری میں رہتے ہوئے اس قوم
کی بہتری کیلئے کوشاں رہنا چاہتی تھی اس لیئے وقت کی ضرورت کو محسوس کرتے
ہوئے سیاسی میدان میں قدم بڑھایا اس سیاسی تنظیم کا نام مہاجر قومی موومنٹ
رکھا مزید یہ کہ سیاست کے میدان میں آکر مہاجروں کے جائز حقوق دلائے جائیں
جن میں بہتر تعلیم، بہتر ہنر، بہتر معاشرہ، بہتر روزگار، بہتر کاروبار اور
سب سے بڑھ کر بہتر امن و امان اور اس طرح تعلیمی میدان میں اے پی ایم ایس
او اور سیاسی میدان میں مہاجر قومی موومنٹ نے اپنا مقام بنانا شروع کردیا
گو کہ اس کیلئے اس تحریک کو بڑی کاوشوں، مصیبتوں، تکلیفوں سے بھی گزرنا پڑا
لیکن ان کے مسمم ارادوں نے مہاجر قومی موومنٹ کو الیکشن سن ۸۸۹۱ءمیں صوبائی
نشتیں پر بھاری مقدار میں کامیابیاں حاصل ہوئیں ، اس کامیابی کے سبب اس
تحریک نے لوکل گورنمنٹ کے الیکشن میں بھی سبقت حاصل کرلی۔۔۔مسلسل سیاسی
کامیابیوں کے بعد عوام میں ایک ایسا گروہ بھی بازگشت کرنے لگا کہ جب عوام
الناس کے ذریعے انہیں مسلسل کامیابیوں سے ہمکنار کیا تو انھوں نے مہاجروں
کیلئے ایسا کچھ نہیں کیا جو وعدے کیئے تھے۔۔جبکہ دوسری طرف ایم کیو ایم نے
اس سلسلے میں وضاحت کرتے ہوئے واضع کیا کہ مہاجر قومی موومنٹ جب سے بنی ہے
مسلسل حکومتی مشنری جس میں سیاستدان، بیوروکریٹس اور ایجنسیوں نے اس سیاسی
تنظیم کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ہر گوشے سے حملے
کیلئے اوراس تحریک کے ساتھیوں کے درمیان نفاق ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی
لیکن قائد تحریک الطاف حسین کی مدبرانہ حکمت عملی کی بناءپریہ ایم کیو ایم
کے کارکنوں کے درمیان فاصلے پیدا نہیں کرسکے، لیکن اس سے ایم کیو ایم کو
فائدہ یہ ہوا کہ جو اس تنظیم سے مخلص نہیں تھے وہ ازخود چھوڑ کر چلے گئے
اور اس طرح مہاجر قومی موومنٹ میں پلنے والے سازشی عناصر کا پردہ فاش ہوگیا
جنھوں نے بعد میں ایجنسیوں ، مخالف سیاسی پارٹیو ں کے سائے میں رہ کر اپنی
تنظیمیں بنائی جس کو عوام الناس نے مکمل رد کردیا ۔۔۔۔۔۔عوام کے بھرپور
تعاون کے سبب ایم کیو ایم تنظیم اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہونے لگی ،کئی
قوموں کے مظلوموں نے بار ہا بار قائد تحریک کو گزارشات پیش کیں کہ ہماری
قوم کے لیڈر ہمارا ہی خون چوس رہے ہیں اور ہم مسلمان، پاکستانی ہونے کے
ناتے آپ سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں بھی اپنے اس مشن میں شامل کرلیں تاکہ آپ
کے پلیٹ فارم سے ہمیں بھی حق حاصل ہو ۔۔۔۔ اس بات کو قائد تحریک نے اپنے
رفقائے کار ساتھیوں اور عوام الناس سے مشورہ کیا تو سب نے انہیں شامل کرنے
کی حامی بھرلی پھر یہ تحریک متحدہ قومی موومنٹ کی شکل میں تبدیل ہوگئی ، اب
اس تنظیم کا مقصد صرف مہاجروں کے حقوق ہی نہیں بلکہ پاکستان میں ہر جگہ
بسنے والے غریب، مستحق ، ضرورت مند، نادار اور مظلوم کے حق کی ترجمان بن
چکی ہے۔ ۔۔۔یہی وجہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ سندھ میں مسلسل کامیابیوں کے
بعداب اس تحریک نے آزاد کشمیر، گلگت و بلتستان میں اپنی تحریکی سرگرمیاں
شروع کیں تو جوق در جوق آزاد کشمیر، گلگت و بلتستان کے لوگ شامل ہونا شروع
ہوگئے پھر اس تنظیم نے باقائدہ کام کیلئے یونٹ ترتیب دیئے اور وہاں الیکشن
میںبھرپور کامیابیاں بھی حاصل کیں ۔۔۔۔۔۔ یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا ہے اس
سفر کا اگلا قدم پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی طرف بڑھا ہے۔یاد رہے
اس تنظیم کو مخالفت اور رکاوٹ میں سب سے پہلے صوبہ پنجاب کے وہ سیاستدان و
حکمران تھے جو کسی طور پر بھی نہیں چاہتے کہ پنجاب میں چوہدری کا راج ختم
ہو ایک کسان، ہاری و مزدور عزت کے ساتھ جیئے۔موجودہ سیاسی حالات کے تحت
مسلم لیگ نون کو خدشہ ہے کہ اگر متحدہ قومی موومنٹ کو پنجاب میں داخل ہونے
دیا گیاتو یہ سیاسی میدان میں بازی لے جائیں گے ، یہاں یہ بات واضع کرنا
چاہتا ہوں کہ پاکستان میں کہیں بھی کسی بھی پاکستانی شہری کو یا سیاسی
جماعت کو آئین کے تحت حق حاصل ہے کہ وہ تجارت، سیاست، رہائش، تعلیم ، شادی
و بیاہ حاصل کرسکتا ہے۔تو متحدہ قومی موومنٹ کو پنجاب میں داخلے میں بندش
کیوں؟ یہ خوف نہیں تو کیا ہے کیا سندھ اور کراچی میں مسلم لیگ نون اپنی
سیاسی امور پر کام نہیں کر رہی۔۔۔۔۔۔۔ سندھ اور بالخصوص کراچی میں پاکستان
کی ہر سیاسی جماعت اپنے اپنے جھنڈے تلے سیاسی امور پر گامزن ہے تو متحدہ
قومی موومنٹ پر بندیشیں کیوں؟؟ یہ بندش کسی کا نہیں بلکہ انہی کے سیاسی
کیئریر کو تباہ کردیں گی ووٹر کب تک چوہدریوں کے ظلم و ستم کو سہتے رہیں گے
اب ملک میں سیاسی تبدیلی کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے اس تبدیلی طوفان کو کوئی
نہیں روک سکتا۔ خیبر پختون خوا، گلگت بلتستان کے ڈوبے بنے کے بعد اب ہزارہ
اور سرائیکیستان صوبوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہیں ، انہیں آنے والا وقت
بھی نہیں روک سکتا۔ ۔۔۔۔۔اتوار، ۰۱ اپریل ۱۱۰۲ءپنجاب کی سیاست میں ایک
بھونچال پیدا کردے گا کیونکہ کئی سالو سے مجبور غریب لوگ امیر چوہدریوں کے
ظلم و ستم سے تنگ ہیں انہیں متحدہ قومی موومنٹ میں اپنے حقوق اور من و سکون
کی آس دکھائی دیتی ہے ،اور اٹھانوے فیصد غریب پنجاب کے ووٹرز متحدہ قومی
موومنٹ کے جسلے میں نہ صرف شرکت کریں گے بلکہ حکومت پنجاب اور سیاست ِ
پنجاب کو آگاہ کردیں گے کہ اگلا قدم ان غریب عوام کا ہے اور الیکشن ۳۱۰۲ءمیں
پنجاب کے ایوانوں میں یہی غریب منتخب ہوکر اپنے غریب پنجابی بھائیوں کی
ترجمانی کررہے ہونگے۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ متحدہ قومی موومنٹ اپنی ان
کامیابیوں کو کس طرح سنبھالتی ہے آیا کراچی سے پشاور تک کامیابیوں کے اس
سفر میں پچھلے راستوں کو بھول تو نہیں جائے گی میرا اشارہ کراچی کے مسائل
اور ان کا حل کی طرف ہے ، آج بھی کراچی کئی مسلوں سے دوچار ہے جن میں بجلی
کا فراہمی، گیس کی فراہمی، لینڈ مافیا کا قبضہ، رشوت، ٹارگٹ کنگ، بھتہ خوری،
دہشت گردی۔۔۔۔۔۔۔ کراچی کو ان مسائل سے کب چھٹکارہ حاصل ہوگا یہاں کی صنعت
و تجارت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور شہری مہنگائی کے پہاڑ تلے دبتے
جارہے ہیں کوئی شہری نظام عمل پزیز دکھائی نہیں دیتا ،نہ حکومت سندھ کی
دلچسپی ہے اور نہ انتظامیہ کا نظام یوں لگتا ہے کراچی کو بھیانک جنگل بنا
دیا گیا ہو ہر شخص ذہنی بیماری میں مبتلا دکھائی دیتا ہے ، کراچی کے شہری
بھاری ٹیکس ادا کرنے کے باوجود بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ اگر اس سفر
میں کوہتائیں وارد ہوئی تو شائد ان کی کامیابی کو نطر لگ سکتی ہے ، اس
تنطیم کو چاہئے کہ اپنے ذمہ داران کو پابند کریں کہ عوام الناس کی خدمات کو
انتہائی سنجیدہ لیتے ہوئے فی الفور عملی جامہ پہنانے کا سبک ترین طریقہ
اپنائیں دیکھیں آنے والا وقت کیا دکھاتا ہے ، اللہ پاکستان کو قائم و دائم
، شاد و آباد رکھے آمین۔ |