بی بی سی کا پاکستان کے خلاف ایک اور پروپیگنڈا

ادریس خٹک کو صوابی سے نومبر سنہ 2019 میں حراست میں لیا گیا اورادریس خٹک کے وکیل طارق افغان ایڈووکیٹ کے مطابق ان کے موکل کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ۔اور پی ٹی ایم کےمشرانوں نے اس بات کا پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ ادریس خٹک اغوا ہو گئے ہیں اور لاپتہ ہیں۔ پی ٹی ایم ایسی جھوٹی تنظیم جو اپنے مفاد کے لیے اداروں پر کسی بھی وقت الزام لگا دیتی ہے۔ جبکہ غیر ملکی ایجنسیوں کے لیے جاسوسی کرنے کے جرم میں جن تین فوجی افسران اور ایک سولین کا کورٹ مارشل کیا گیا۔ سزا پانے والوں میں ۔ لیفٹننٹ کرنل فیض رسول کو 14 سال کی سزا کے بعد اڈیالہ جیل اور ادریس خٹک نامی سولین کو 14 سال کی سزا کے بعد جہلم جیل میں ہیں ۔انکے علاوہ لیفٹننٹ کرنل اکمل کو 10 سال اور میجر سیف اللہ بابر کو 12 سال کی سزا سنائی گئی۔ان غداروں کو سزائیں سنانے کے بعد مختلف جیلوں میں بھیجا گیا ہے۔ ادریس خٹک پاکستان کی خفیہ معلومات برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کے ایک ایجنٹ مائیکل سیمپل کے کو معلومات دیتا تھا۔ ملزم ادریس خٹک نے 29 جولائی سنہ 2009 کو برطانیہ کی خفیہ ایجنسی کے نمائندے مائیکل سیمپل کو سوات میں پاکستانی فوج کے جاری آپریشن کے بارے میں معلومات دیں۔ادریس خٹک کے حق میں پی ٹی ایم (وزیرستانی سرخے) سمیت تمام خونی لبرلز کافی عرصہ سے سوشل میڈیا مہم چلاتے رہے ہیں۔ وہ اس کی گرفتاری کو اغواء اور زیر حراست رکھنے کو 'مسنگ پرسن' کا نام دے کر عوام کو گمراہ کرتے رہے ہیں۔ کچھ سیاست دان، صحافی ٹولہ اور خاص طور سے پی ٹی ایم ادریس خٹک نامی شخص کو لے کر بھر پور پراپیگنڈہ اور جھوٹی کہانیاں پھیلا رہے ہیں جنکی حقیقت ملاحظہ فرمائیں۔ادریس خٹک کے تین جرائم ثابت ہوئے ہیں۔ جنکا مختصر ذکر یہ ہے کہ پہلا جرم ۔اس نے غیر ملکی ایجنسیوں کو پاکستان میں ڈرون حملے کرنے کے لیے انفارمیشن دی۔ بھاری رقوم کے عوض اس نے وزیرستان سمیت کئی علاقوں میں ڈرون حملوں کے ذریعے معصوم قبائیلیوں کو مروایا ۔اسکی حمایت وہی لوگ کر رہے ہیں جو پشتون قبائیلیوں کی لاشوں پر سیاست کرتے آ رہے ہیں۔اور بظاہر وہ خودکو قبائیلیوں کے حقوق کا چیمپئن کہتے ہیں۔ دوسرا جرم ۔ اس نے غیر ملکی ایجنسی کی ایما پر 'مسنگ پرسنز' کی فیک مہم چلائی۔ جس میں قومی سلامتی کے اداروں اور ریاست کے خلاف لوگوں کو اکسایا۔ بغیر کسی ثبوت کے الزامات لگائے۔تیسرا جرم ۔ ملک دشمن ایجنسیوں کے لیے قبائیلی اضلاع سے پڑھے لکھے نواجوانوں کی بھرتیاں کیں۔ ان نوجوانوں کو پاکستان کے خلاف کام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس کے عوض بھی اس نے بڑی رقم وصول کی۔

یہ محض آرمی عدالتوں سے سنائی گئی سزائیں نہیں ہیں اورنہ یہ محض ایجنسیوں کی رپورٹس ہیں۔ یہ موصوف پیشاور ہائی کورٹ بھی گئے تھے جہاں ان دنوں خونی لبرلز کے چہیتے چیف جسٹس وقار سیٹھ براجمان تھے۔ ادریس خٹک کے خلاف ثبوت اتنے ٹھوس اور واضح تھے کہ پشاور ہائی کورٹ نے بھی ہاتھ کھڑے کر دئیے اور فیصلہ سنایا کہ بےشک ادریس خٹک کو 'آفیشل سیکرٹ ایکٹ' کے تحت پکڑا گیا ہے اور ان ثبوتوں کی روشنی میں بہتر یہی ہے کہ آرمی ہی اس پر مقدمہ چلائے۔اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ پاک فوج لیفٹنٹ جنرل جاوید اقبال سے لے کر میجر تک غداری یا جرم ثابت ہونے پر سب کو سزائیں دیتی ہے اور سولین یا فوجی میں کوئی فرق نہیں کرتی۔ پھر چاہے وہ برگیڈئیر رضوان ہو چاہے وہ ادریس خٹک ہو۔اسکے علاوہ اس سےیہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی ایجنسیاں ہر قسم کے خطرات سے آگاہ اور چوکناہیں اور ایسے غداروں کو نہ صرف پکڑا جاتا ہے بلکہ انجام تک بھی پہنچایا جاتا ہے۔فوج کے پاس احتساب کا سخت عمل ہے۔کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ادریس خٹک نے ریاست پاکستان کے ساتھ غداری کی ہے۔اس غدار نے حساس معلومات ملک دشمنوں کو دیں جس کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں فوج و ریاست کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے میں دشمن کو آسانی ہوئی ہےجہاں تک ادریس خٹک کی بات ہے تو میری رائے میں اس کو بہت کم سزا سنائی گئی ہے۔ جس سفاک انسان کے ہاتھوں سے سینکڑوں بےگناہ قبائیلیوں کا خون ٹپک رہا ہو اس کو کم از کم موت کی سزا دینی چاہئے۔اور براہ کرم چند لوگوں کی طرف سے پھیلائے جانے والی کہانیوں پر کان نا دھریں کیونکہ انکا کام ہی آپ لوگوں میں انتشار پھیلانا ہے۔ بی بی سی کے اس مضمون کے پیچھے کیا مقصد ہے اوراس بدتر، کسی مقصد اور منطق سے عاری، یہ غیر ذمہ دارانہ، نامکمل اور ناقص تحریر کردہ اردو مضمون پاکستان کی قومی سلامتی کے اہم مفادات کے لیے خطرناک نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ بدقسمتی سے، یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بی بی سی نے اس قسم کے پروپیگنڈے کا ساتھ نہ دیا ہو۔ اس سے پہلے بھی بی بی سی کی مسلح افواج کے بارے میں تنازعہ پیدا کرنے کی پہلے کئی واضح کوششیں موجود ہیں۔پاکستانی میڈیا کا منظر نامہ شہزاد ملک جیسے "کرائے کے صحافیوں" سے بھرا ہوا ہے جو دوسروں کے کہنے پر حملے کرنے کے لیے سب سے آگے ہیں۔ ان جیسے مصنفین اپنے اسپانسرز کے لیے سپاہ سالار یا پاکستان کی مسلح افواج کو ٹیگ کرتے ہیں، بدلے میں اسپانسرز، ان کی کہانیوں کو آگے بڑھانے اور اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ان پر بھاری احسان کرتے ہیں۔ ایسے مصنفین کا طریقہ کار وسیع تر سامعین تک پہنچنے کے لیے کہانیوں کو ایک لذیذ موڑ دے کر ان کو ختم کرنا ہے۔ اگر بی بی سی کی جانب سے ایسے صحافیوں کو ان کی بے ہودہ باتوں پر قلم اٹھانے کے لیے جگہ دی جاتی رہی تو یہ نہ صرف صحافتی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان موجود نیک نیتی کو بھی ختم کردے گی۔ ایک واضح حقیقت ہے کہ پاکستان نے کبھی بھی برطانیہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ بی بی سی کے یہ مضامین پاکستان اور اس کی مسلح افواج کو بدنام کرنے کے واضح مقصد کے ساتھ شائع کیے جا رہے ہیں۔ یہ ایک خطرناک رجحان جسے پاکستان ہلکے سے نہ لے۔
 

Raja Muneeb
About the Author: Raja Muneeb Read More Articles by Raja Muneeb: 22 Articles with 31604 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.