بیرونی آقا دیسی غلام

سر پر تکیہ رکھ کر منہ چھپا لینے یا بیرون ملک چلے جانے سے حقیقت یا سچائی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی شرمندگی و ہزیمت کے احساس سے محروم رہا جاسکتا ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہی دور اندیش قیادت کے فقدان کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران پر آج تک قابو نہیں پایا جاسکا ہے ۔

شروع کے ابتدائی دنوں سے ہی پاکستان کے استحکام کو شدید خطرہ تھا۔ کیونکہ برصغیر کی تقسیم کو بھارت نے کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا تھا ۔ بھارت کے خیال میں پاکستان زیادہ دیر تک اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکے گا اور جلد ہندوستان میں شامل ہوجائے گا ۔ لہٰذا پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا کوئی بھی موقع بھارت نے اپنے سے جانے نہیں دیا ۔ کبھی نہری پانی کا مسئلہ،فوجی جنگی سامان کی غیرمنصفانہ تقسیم ،تنازعہ کشمیر اور معاشی طور پر پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کے نت نئی چالیں چلتا رہا تھا۔

نومولود پاکستان کو اس وقت بھارتی جارحیت سے محفوظ رکھنے کے لیے طاقت ور سہارے کی ضرورت تھی اس لیے اس وقت کے ادھیڑ عمر کے نابالغ فوجی و سیاسی حکمرانوں نے پاکستان کی بقاء و سلامتی کے تحفظ کے لیے تمام تر زمینی حقائق نظر انداز کرتے ہوے سوویت یونین سے دوستی کے بجائے امریکی غلامی کا ہار گلے میں پہنا جو ناسور بن گیا۔

عشر در عشر گزرتے چلے گئے اور پاکستان کے ہر آنے والے حکمران نے اپنی وفاداری کا ثبوت دینے کے لیے امریکہ کے ہر اشارے پر اپنا سر تسلیم خم کرنے سے گریز کیا اور نا ہی اپنی ملک و قوم کی سلامتی اور عزت نفس کا ذرا بھی خیال کیا ۔

گزشتہ ایک عشرے سے زائد عرصے کے دوران پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت کچھ اس طرح ہے جیسے آقا اور غلام کی ہوتی ہے ۔ درحقیقت دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کو مزاکرات کا نام دینا قوم کے ساتھ مذاق کے سواء اور کچھ نہیں کیونکہ مزاکرات برابری کی سطح کی پر گفت وشنید کے بعد طے پائے جاتے ہیں جبکہ امریکہ مزاکرات کے نام پر کچھ احکامات پر عمل کرنے کا حکم صادر کرتا ہے جس پر عمل درآمد کرنا ھم پر لازم ہوتا ہے ۔

ممبئی میں تیرہ جولائی کی شام ہونے والے یکے بعد دیگرے تین بم دھماکوں کے ایک ہفتے بعد ہی امریکی وزیر خارجہ محترمہ ہیلری کلٹن بھارت کے ساتھ دفاعی مزاکرات کے سلسلے میں نئی دلی کے ائیر فورس ٹرمینل پر پہنچتی ہیے جہاں ان کا سواگت آرمی کے چند افسران اور سیکٹری خارجہ نروپمارؤ کرتی ہیں اگر محترمہ کی آمد پاکستان میں ہوتی تو ان کے استقبال کی صور ت بلکل برعکس ہوتی۔

بات ہو رہی تھی شرمندگی و ہزیمت سے محفوظ ہونے کی تو قابل غور پہلویہ ہے کہ جناب صدر مملکت آصف علی زرداری برطانیہ کے گیارہ روزہ سرکاری و نجی دورے بعد لوٹے تھے کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی صاحب برطانیہ روانہ ہوگئے اور صدر مملکت افغانستان سے ملک کی سلامتی و بقاء کے لیے خصوصی دعا مانگنے کے لیے سعودی عرب روانہ ہوگئے ۔ ایسے موقع پر صدر اور وزیر اعظم کا ملک سے باہر ہونا جب امریکی وزیرخارجہ دفاعی مزاکرات کے سلسلے میں بھارت آئی ہو تھی کچھ عجیب سا لگتا ہے۔

راقم کی زاتی رائے میں امریکہ کے ہر اشارے پر چوں وچراں کیے بغیر جائز و ناجائز مطالبات تسلیم کرنے والے پاک امریکہ دوستی کے گیت گانے والوں کے لیے ہیلری کلٹن کی بھار ت آمد اور دفاعی مذاکرات کرنا شرمندگی و ہزیمت کا باعث تھا ۔ اسی احساس ندامت و شرمندگی کا سامنا کرنے کی اخلاقی جرآت ہمارے حکمرانوں میں نہیں اس لیے انہوں نے ملک سے باہر رہنے عافیت سمجھی ۔

چنائی میں نیوز کانفرنس کے دوران محترمہ کا پاکستان کو خبردار کرنا کہ پاکستان اپنی سرزمین بھارت اور افغانستان کے خلاف استعمال ہونے روکے اور بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کا عزم امریکہ کی غلامی سے آزاد ہونے کے لیے کافی ہے ۔
abad ali
About the Author: abad ali Read More Articles by abad ali: 38 Articles with 37445 views I have been working with Electronic Media of Pakistan in different capacities during my professional career and associated with country’s reputed medi.. View More