آمد رمضان اور نرخوں کا سیلاب

دنیا بھر میں چھوٹا ملک ہو یا بڑا، ترقی یافتہ ہو یا ترقی پزیرکہیں کسی بھی جگہ نہ دیکھا گیا اور نہ سنا گیا ہے۔ جہاں جہاں انسان آباد ہیں انھوں نے اپنی مذہبی تہوار کے موقع پر حکومتی ،معاشرتی و اخلاقی بنیادوں کے تحت اپنی قوم کی خوشیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے چند ہفتے یا پھر چند دنوں تک لازماً انتہائی کم نرخ پر اشیاءضرورت کے ساتھ ساتھ سامانِ تعیش پر بھی فروخت کا عمل کئی سالوں سے جاری و ساری رکھاہوا ہے ۔ہندوستان میں ہندو مذہبی تہوار ہو یا اسلامی تہوار ہر ایک کے تہوار میں اشیائے ضرورت کے نرخوں میں رعایت کے ساتھ ساتھ تحفوں کا عمل بھی جاری و ساری رہتا ہے ، بنگلہ دیش، بھوٹان، مالدیپ، سری لنکا یہ وہ ممالک ہیں جو سارک میں شامل ہیں ان تمام ممالک میں مذہبی تہوار میں حکومتی احکامات کے بغیر تاجروں میں اس قدر اخلاقی بلندی ہے کہ وہ از خود عوام الناس کی خوشی کیلئے نرخوں میں سوچ سے زیادہ کمی کردیتے ہیں جس سے ان کی فروخت میں نہ صرف اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ کسی طور پر بھی گھاٹے میں نہیں رہتے ، بزنس کا اصول ہے کہ جتنی پروڈکٹس فروخت ہونگی اتنی ہی منافع میں بہتری آئیگی چاہے نرخ کم ہی کیوں نہ ہوں ، جب نرخ مناسب ہونگے تو لازماً اس پروڈکٹس کی فروخت میں اضافہ بڑھے گا اور اگر نرخوں میں صارف کی پہنچ سے دور کردیا جائے تو اس اشیاءکی فروخت میں کمی واقع ہوگی جس سے اشیاء کا ضیاع ہونا ممکن ہوجاتا ہے اور اس طرح منافع کے بجائے گھاٹے میں کاروبار پڑ جاتا ہے اسلامی معاشیات و اقتصادیات کا درس بھی یہی ہے کہ جو پاکستان سے انتہائی ۔۔۔جبکہ پاکستان جو اسلامی ملک کا قلعہ کہلاتا ہے اور موجودہ دنیائے اسلام میں اسلام کا پرچار میں پیش پیش رہتا ہے جب وقت رمضان شروع ہوا چاہتا ہے تو بڑی بڑی مقامی و بیرونی تمام کمپنیاں اپنے نرخوں میں کئی سو گنا کا اضافہ کر بیٹھتے ہیں،چھوٹی کمپنیاں بھی بڑی کمپنیوں سے پیچھے نہیں رہتے حتیٰ کہ ٹھیلے اور ریڑھی والے بھی اس مکروہ گروہ کے ساتھ چند قدم آگے ہی رہتے ہیں ۔۔۔۔۔ ہر دور کی حکومت اعلانات اور احکامات کرتی تو نظر آتی ہے مگر ان کی نیت میں فتور ہونے کی سبب یہ سب ڈرامہ عیاں ہوجاتا ہے اور حکومتی مشنریاں اپنے کمیشن اور لوٹ و کھسوٹ میں لگ جاتے ہیں ، غریب ہو یا ایماندار وہ ہمیشہ نمک و پانی سے افطار و سحری کرتا ہے اور ذخیرہ اندوز، آرتھی ، تھوک فروش، پولیس و فوڈ انسپکٹر رشوت و حرام سے کمائی گئی دولت کے عوض عالیشان افطاری و سحری کرتے نظر آتے ہیں اور کچھ سال بھر دھوکہ، فراڈ، بے ایمانی کے عمل سے کمائی گئی دولت کو رمضان المبارک میں دکھاوے کی خیرات دیتے نظر آتے ہیں لیکن ان سے جب کہا جاتا ہے کہ صرف اللہ کی رضا کیلئے کم از کم ماہ تک اشیاءضرورت کو مناسب نرخ پر فروخت کردیں تاکہ غریب مسلمان ایک ما ہ میں خوشی و مسرت کے ساتھ گزار سکے انہیں یہ گوارہ نہیں کہتے ہیں ہم نے خیرات نکال دی ہے اور کاروبار میں رعایت کی تو کیا کمایا ہماری بھی تو عید ہے۔ ۔افسوس ہے کہ آج کا مسلمان اور پاکستانی عید کے مقصد کو نہیں پہنچانتا ،عید کا اصل نام و مقصد یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی رضا کیلئے بغیر کسی غرض کے مستحق کی مدد کی جائے تاکہ دائمی خوشی کی دولت حاصل ہوسکے۔ زمانہ حال میں زمانہ ماضی کی غلط پالیسیوں پر اور زیادہ غلطیوں کے ساتھ اقدامات کیلئے جارہے ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی اور جینا محال کردیا ہے ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں غربت و افلاس سے شرح اموات پاکستان میں سب سے زیادہ ہے ۔۔۔۔۔ اس کی وجہ عوام میں پائے جانے والے مذہب اسلام سے شدید لگاﺅ ہے جس کی وجہ سے اکثریت عوام گناہ کے بجائے خود کشی کو فوقیت دے رہی ہے جبکہ دین نے اس کی سختی سے مذمت کی ہے ، مہنگائی نے پاکستانی قوم کوذہنی مفلوج بنا کر رکھ دیا ہے ، ان میں ذہنی امراض لاحق ہوچکے ہیں اگر یہی سلسلہ مزید چلتا رہا تو یہ قوم اپنے اعصاب پر قابو نہ کرپائیں گے ممکن ہے ایک بڑا طوفان کھڑا ہوجائے جس میں خون خرابہ کا لامتناہی سلسلہ چل پڑے، ابھی بھی وقت ہے پاکستان اور پاکستانی قوم کی سالمیت کو بچانے کا ورنہ ہمیشہ کیلئے پچھتاتے رہ جاﺅ گے۔۔۔۔۔۔
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 273926 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.