’’خپلو‘‘

سرد ترین علاقہ ہونے کی وجہ سے اسے قطب شمالی و جنوبی کے بعد’’تیسرا قطب‘‘
اور وادی کی خوب صورتی کی وجہ سے اسے جنت کے باغات میں سے ایک باغ کہا جاتا ہے

سرد ترین علاقہ ہونے کی وجہ سے اسے قطب شمالی و جنوبی کے بعد’’تیسرا قطب‘‘
اور وادی کی خوب صورتی کی وجہ سے اسے جنت کے باغات میں سے ایک باغ کہا جاتا ہے


گلگت کےضلع گانچھے کا صدر مقام خپلو اپنے نام کی طرح پروقار اور حسن و جمال سے مالا مال ہے۔ دریائے شیوک کے کنارےآباد یہ وادی ان سادہ لوح انسانوں پر مشتمل ہے جو یارقند اور سالتورو کے راستےبلند و بالا پہاڑوں کو عبور کرکے دریائے شیوک اس خطے میں آباد ہوگئے تھے۔ فلک بوس مخروطی چوٹیوں، ندی، نالوں، برف پوش پہاڑوں کی بلندیوں سے گرتی ہوئی آبشاروں، ابلتے ہوئے چشموں ، سر سبز مرغزاروں، کھیت، کھلیان اور باغات کی وجہ سے ایک دیومالائی علاقہ لگتا ہے۔دل فریب مناظر اور ٹریکنگ پوائنٹس کی وجہ سے سیاحوں کے لیےپرکشش مقام ہے اور ہر سال سیکڑوں سیاح یہاں کی سیاحت کے لیے آتے ہیں۔ بلند و بالا چوٹیوں کی وجہ سے کوہ پیمائی کے لیے بھی وسیع موقع موجود ہیں۔قراقرم کےپہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع اس علاقے میں دنیا کی21 ویں بلند ترین چوٹی مشابرم بھی واقع ہے۔اس وادی کی خوب صورتی کی وجہ سے لوگ اسے جنت کے باغات کا ایک حصہ قرار دیتے تھے۔قدیم بلتستان میں خپلو، یبگو سلطنت کا پایہ تخت ہوا کرتا تھا۔یہاں کے لوگوں کی مادری زبان بلتی ہے جب کہاردو زبان بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔خپلکا علاقہ و قدیم ادوار سے لداخ کو بلتستان و دیگر علاقوں سے سماجی روابط میں مربوط کرتا آیا ہے۔اس وادی سے سیاچین گلیشئر کی جانب راستہ جاتا ہے جس کی وجہ سے اس علاقے کودفاعی اہمیت بھی حاصل ہے۔ خپلو کو لوگ وادی شیوک کے نام سے بھی جانتے ہیں ، جس کی وجہ سے اس کے قلب میں بہنے والا دریا معروف ہےجو اس کی ذیلی وادی ’’چھوربٹ‘‘ سے بہتا ہو اس علاقے کے درمیان سے گزرتا ہوا کھرمنگ کے مقام پر دریائے سندھ میں جاگرتا ہے۔ دریائے شیوک کے لغوی معنی ’’ موت کے دریا ‘‘ کے ہیں۔ فطری مناظر سے بھرپور یہ وادی، بلتستان کے مشرق میں سطح سمندر سے 8500فٹ کی بلندی پر واقع ہے ۔اس خوب صورت وادی کا راستہ اسکردو کی جانب سے آتا ہے جہاں سے خپلو تک کا فاصلہ تقریباً103کلومیٹر ہے جو بل کھاتی ہوئی پہاڑی سڑک پر سفر کرتے ہوئے دو گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔یہاں کے بازارکے ساتھ ویگنوں کے اڈے سے مذکورہ علاقے کی جانب جانے والی ویگنیں ملتی ہیں جو مناسب کرائے میں جنوب کی طرف نانگا پربت کے برف پوش پہاڑ کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے دریائے شیوک کے کنارے پر واقع افسانوی سرزمین خپلو میں اتارتی ہیں۔اسکردو کی وادی سے باہر نکلتے گانچھے کی جانب جانے ولی سڑک کے دونوں اطراف پاپولر کے درختوں کی قطاریں ، مسافروں پرسایہ فگن رہتی ہیں۔ سڑک کی نشیبی جانب بائیں طرف دریائے سند ھ سڑک کے ساتھ ساتھ بہتا ہے۔ اس سے تھوڑے سے فاصلے پر ایک راستہ وادی شگر کی طرف جارہا ہے۔ اس وادی کا شمار بھی گلگت کی پرفریب مناظر والی وادیوں میں ہوتا ہے جہاں دریائے برالڈو اور دریائے سندھ آپس میں ملتے ہیں۔ خپلو کےراستے میں دائیں جانب باغات اور بائیں ہاتھ پر جنگلات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جن کے درمیان سے پہاڑی نالے بہتے ہیں، اس کے بعد مقامی باشندوں کے مٹی اور لکڑی سے بنےہوئے مکانات آتے ہیں۔ پہلے اس وادی میں قیام کے لیے سیاحوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن اب یہاںمتعددجدید ہوٹل اورریسٹ ہاؤسز قائم ہوگئے ہیں۔ ایک چھوٹا سا بازار بھی واقع ہے جہاں تقریباً زندگی کی تمام ضروری شیاء دستیاب ہیں۔ خپلو میں چھ سو سال قدیم ایک قلعہ واقع ہے ، اس کے علاوہ دریائے شیوک کی جنوبی سمت خپلومحل واقع ہے جو تبتی طرز تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔اسے 1840ء میں پیگو حکمراں راجہ دولت علی خان نے تعمیر کرایا تھا۔ اس محل کے عقب سے ایک راستہ پری گاؤں اور اسکردو کی طرف جاتا ہے۔ یہاں ایک تاریخی چیقچن مسجد جسے1370ء میں ایک ایرانی صوفی بزرگ شاہ ہمدان نے تعمیر کرایا تھا ۔ اس کے علاوہ 1712ء میں میر مختار اخیار کی تعمیر کردہ خانقاہ معلی بھی واقع ہے ۔بلتستان کا یہ خطہ دشوار گزار راستوںاور بلند وبالا پہاڑوں کی وجہ سے ، قدیم دورمیںباقی دنیا سے کٹارہا تھا لیکن یہاں مختلف مقامات سےجو تاریخی آثارملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی میں یہاں ایک’’ پوشیدہ ریاست‘‘ واقع تھی جہاں کے لوگ تہذیب و تمدن سے آراستہ تھے اور ان کے بیرونی دنیا کے ساتھ سما جی و اقتصا دی روابط مو جو د تھے ۔خطے کی تاریخ پر ریسرچ کرنے والے بعض محققین کے مطابق اس دور میں خپلو اور اس سے ملحقہ علاقےعلم و ہنرکامر کز ہو اکر تے تھے اور دیگر مقامات سے لو گ اپنی علم کی پیا س بجھا نے یہا ںآیاکر تے تھے ۔ یہا ں پر چھور بٹ سے لیکر ڈ غو نی ،یو گو تک پہا ڑو ں پر سوا ستیکا ز کی تحر یری علا ما ت مو جو د ہیں ۔سلنگ کے پہا ڑو ں پر بنے نقش و نگا ر دیکھنے والے کوفرط حیرت میںڈال دیتے ہیں ۔یہاں پر مختلف مقامات کی طرف جانے والی سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے، خپلوسے اسکردو کی طرف جانے والی سڑک کے علاوہ یہاں سے کشمیر اور لداخ کی طرف جانے والے بھی راستے نکلتے ہیں۔خپلو کا شمار پاکستان کے سرد ترین مقامات میں ہوتا ہے ، جہاں سردیوں میں درجہ حرارت منفی 20سینٹی گریڈسے بھی نیچے گر جاتا ہے، اس کی وجہ سے اسے قطب شمالی و جنوبی کے بعد’’تیسرا قطب‘‘ کہا جاتاہے۔

یہ علاقہ کوہ پیماؤں اور ٹریکنگ کے شائقین کی جنت ہے جہاں دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹیاں موجود ہیں جن میں گندوکورو، خپلو، میشابرم،کے سیون، چوگولیساقابل ذکر ہیں جب کہ وسیع و عریض گلیشیرز ساراکسا، گندوگورو، میشابرم، النگ، مچلو، برامک، تھائی لے لا، جب کہ سیاحوں کی دل بستگی کے لیے شفاف پانی کی جھیلیں، خرفق، ڈھولی، گانچھے اور بارا جھیل موجود ہیں۔ خپلو سے متصل ہوشے کا دل فریب قصبہ ہے جہاں کے سحر انگیز مناظر سیاحوں کا دل موہ لیتے ہیںاس کے علاوہ تھل ویلی میں بھی تفریح کے شائقین کی دل چسپی کے سامان موجود ہیں۔خپلو سے تین کلومیٹر کی دوری پر خرفق گاؤں واقع ہےجہاں پر اسی نام کی جھیل بھی ہے۔ شفاف پانی کی اس جھیل میں ٹراؤٹ مچھلی کی بہتات ہے۔ اس کے کنارے کیمپنگ کے موقع بھی ہیں۔ یہ علاقہ کچے راستوں کے ذریعےدیگر تفریحی مقامات کے ساتھ جڑا ہواہے۔ بارا نامی گاؤں بھی خپلو کے خوب صورت علاقوں میں سے ہے جہاں گانچھے،باراپائین اور بارابالا نامی جھیلیں واقع ہیں۔

خپلوکا خطہ جنگلی حیات کی وجہ سے بھی معروف ہے، جس کے جنگلات میں ہمہ اقسام کے جانور پائے جاتے ہیں۔ یہاں شکار کے وسیع مواقع ہیں لیکن ان سے فائدہ اٹھانے کےلیے حکومت کی طرف سے جاری کردہ شکاری لائسنس کا حامل ہونا ضروری ہے جب کہ بارا جھیل اور خرفق جھیل میں لوگ مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں۔

 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223969 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.