پاکستان کے ’’آٹھ‘‘گاؤں

گاؤںاور، دیہات کسی بھی ملک کا حسن ہوتے ہیں ۔ یہاں زندگی حقیقی روح کے ساتھ نظر آتی

پاکستان کے ’’آٹھ‘‘گاؤں گاؤں اور، دیہات کسی بھی ملک کا حسن ہوتے ہیں ۔ یہاں زندگی حقیقی روح کے ساتھ نظر آتی

گاؤں اور، دیہات کسی بھی ملک کا حسن ہوتے ہیں ۔ یہاں قدرتی مناظرچہار سو بکھرے ہوتے ہیں، زندگی اپنے اصل رنگ اور حقیقی روح کے ساتھ نظر آتی ہے۔ کھیت، باغات، ندی، نالے، گھاس کے میدان،جھرنےاور آب شار، پھولوں سے سجےہوئے گل دستے کی صورت میں پودے اور پھلوں سے لدے درخت ماحول کو پر فضا بناتے ہیں۔ سیر و تفریح کے علاوہ ان کا شمار سونا اگلنے والے مقامات میں ہوتا ہے، اسی وجہ سے حکومتوں کی جانب سے یہاں رہنے والے باسیوں کودنیا کی تمام سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ پاکستان بھی وسیع و عریض زرعی رقبے کا ملک ہے۔ اس کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔ ملک کی 65فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، جو رات دن محنت کر کےنہ صرف ہماری غذائی ضرورت پوری کررہی ہے بلکہ صنعتوں کو خام مال فراہم کرکے شہری علاقوں میں روزگار کی سہولت اور معاشی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کررہی ہے۔ ان علاقوں میں قائم گائے بھینسوں کے باڑے ملک کو ڈیری کی مصنوعات مہیاکرتے ہیں، لیکن انہیں ناگفتہ بہ صورت حال کا سامنا ہے۔ گاؤں کے باسی زندگی کی تمام بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ زمین کا سینہ چیر کر اناج اگانے، پھلوں کی کاشت کرنے والے اور ملک کو کپاس کی صورت میں نقد آور فصل مہیا کرنے والے ’’زرعی محنت کش‘‘ وڈیروں اور جاگیر داروں کے ذاتی محکوموں کی حیثیت سے زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے گھروں میں غربت نے ڈیرے ڈالے ہوتے ہیں جب کہ ان کے نونہال زیور تعلیم سے محروم رہتے ہیںلیکن یہ حکومت کی عدم توجہی کا شکار رہتے ہیں۔اس کےباوجود ، ان میں سےچند دیہات کے مکینوں نے ایسے نامساعد حالات میں بھی بعض خصوصیات کی وجہ سے نہ صرف اپنے ملک بلکہ بیرونی ممالک میں بھی خود کو منوایا ہے۔ ذیل میںپاکستان کے ان سات گاؤں کے بارے میں بتا رہے ہیں جن اپنی کسی نہ کسی انفرادیت کی وجہ سے معروف ہیں۔
رسول پور گاؤں
یہاںتعلیم یافتہ کہلانے کے لیے کم از کم میٹرک پاس ہونا ضروری ہے
82سال کے دوران یہاں کوئی جرم سر زد نہیں ہوا
جنوبی پنجاب میں ضلع راجن پور کی تحصیل ڈنگہ کا نواحی گاؤں ہے جو سرائیکی بیلٹ پر واقع ہے۔ کراچی سے اسلام آباد جانے والی قومی شاہرا ہ پر 890کلو میٹر کا سنگ میل عبور کرنے کے بعددائیں جانب شاہ راہ کے ساتھ ہی یہ گاؤں ہے، جس کی آبادی بلوچوں کے احمدانی قبیلے کے دو ہزار نفوس پر مشتمل ہیں ۔اس علاقے کی سب سے بڑی انفرادیت یہاں کے ہر فرد کاتعلیم یافتہ ہونا ہے جب کہ یہاں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دو سو برس کے دوران اس علاقے کے باشندوں نے سیلابوں کے باعث ہونے والی تباہیوں سے پریشان ہوکر یہاں سے پانچ مرتبہ ہجرت کی ۔ 1933ءمیں یہ لوگ دوبارہ اس مقام پر آباد ہوگئے ،جب سے یہ مستقل طور سے اسی علاقے میںمقیم ہیں۔ انہوں نےاپنی مدد آپ کے اصول اپناتے ہوئے اسے ایک منفرد گاؤں بنادیا ہے۔سیر و تفریح کے شائقین اگر اس گاؤں کو سرسری طور سے دیکھتے ہوئے گزرنے کی بجائے یہاں کی تفصیلی سیر کریں تو اسے ایک عام دیہات سے ہٹ کر پائیں گے۔ اس کے گھروں اور گلیوں کی تعمیر میں انتہائی نفاست سے کام لیا گیا ہے۔ ہرمکان صاف ستھرا ، جگمگاتا ہوا، جب کہ کوئی گلی تیڑھی ترچھی نہیں ہے۔ ہر گلی اور کوچہ کسی نہ کسی کے نام سے موسوم ہے جب کہ صفائی ستھرائی کا جو معیار بہاںہے، وہ پورے ملک کے بڑے سے بڑے شہر میںبھی نہیں ہے۔حتی کہ بھینسوں کے باڑوں میں بھی صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ یہاں کے تمام بچے انتہائی شوق سے اسکول جاتے ہیں۔ چھوٹی کلاس کے کم عمر بچوں کو انگریز میں پرچہ حل کرنے کے لیے دیا جاتاہے جس کی ہدایات بھی اسی زبان میں تحریر ہوتی ہیں۔یہاں کے باشندوں نے تعلیم سے متعلق اقوام متحدہ کےذیلی ادارے یونیسکو کے اس نظرئیے کو مسترد کردیا ہے کہ پڑھے لکھے افرادکے لیے صرف اپنے دستخط کرنا ہی کافی ہیں۔ گاؤں کے لوگوں کااس بارے میں کہنا ہے کہ عالمی سطح پر تعلیم کا معیار خواہ کچھ بھی ہو ، لیکن ہمارے گاؤں میں تعلیم یافتہ کہلانے کے لیے کم از کم میٹرک ضروری ہے جب کہ اس علاقے میں مڈل پاس افراد بھی تعلیم یافتہ کہلانے کے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتے۔ تقریباً دوسو سال قبل اس علاقے کے بیشتر لوگ جو کاشت کاری کے پیشے سے وابستہ تھے، لکھنے پڑھنے سے بالکل نابلد تھے۔ اس وقت یہاں کے ایک بزرگ شخص دہلی گئے اور وہاں پر مذہبی تعلیم حاصل کی، واپس آنے کے بعد انہوں نے مقامی لوگوں کو دینی تعلیم کی طرف راغب کیا۔اس کے بعد یہاںعلم کے حصول کا سلسلہ چل نکلا جو ابتدا میں مذہبی تعلیم تک محدود رہا۔اس دوران یہاں کے لوگ سیلاب کی وجہ سے پریشان ہوکر ہجرت کرتے رہے۔ 1933 میں اس گاؤں کے مستقل آباد ہونے کے بعد یہاں کے بزرگوں نے تعلیم پر بھی توجہ مرکوز کی اور 1935ءمیں اپنی مدد آپ کے تحت ، لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے دو علیحدہ علیحدہ پرائمری اسکول قائم کیے گئے ۔ اس گاؤں کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے یہ ابتدائی پروگرام تھا۔ پہلے پہل لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی رہی لیکن ایک خاتون نے کسی طرح سے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کر لی۔ اس کے بعد انہوں نے لڑکیوں کو پڑھانا شروع کیا۔ جب بچیوں کا رجحان، تعلیم کی جانب ہوا تو ان کے والدین نے بھی اس کام میں دل چسپی لینا شروع کردی ۔اس کے بعدیہاں مزید اسکول قائم ہوتے گئے، پھر ایک وقت وہ آیا جب رسول پورگاؤں میں طالبات کی تعداد طلبہ سے زیادہ ہو گئی ۔خواتین کے تعلیمی میدان میں قدم رکھنے کے بعد یہاں کے باشندوں کی سماجی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ پہلےیہاں مردوں کی مطلق العنانیت قائم تھی، تمام فیصلے ان کی مرضی سے ہی ہوتے تھے، عورتوں کے تعلیم یافتہ ہونے کے بعد ، ان میں نسوانی مشاورت بھی شامل ہوگئی۔ اب نہ صرف گھروںکے معمولات کے بارے میں عورتوں سے رائے لی جاتی ہے بلکہ کاروباری معملات میں بھی یہ دخیل ہوتی ہیں۔ پہلے اس گاؤں کی خواتین صرف درس و تدریس کا پیشہ اختیار کرتی تھیں لیکن اب وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر، انجینئر اور کمپیوٹر کی ماہر بھی ہیں ،اورشہری علاقوں میں خدمات انجام دیتی ہیں۔یہ پاکستان کی دیہی زندگی میں سب سے بڑی تبدیلی تصور کی جاتی ہے ۔اس گاؤں کی دیگر خصوصیات میں سے ایک خصوصیت اس کا منشیات سے پاک ہونا ہے۔ یہاں کی سرکردہ شخصیات نے گاؤں کے اپنے اصول و ضوابط اور قوانین مرتب کیے ہیں جن کے تحت پورے رسول پور گاؤں میں نہ صرف منشیات پر پابندی ہے بلکہ پورا علاقہ No smoking zone ہے ۔ آج جب پاکستان بھر میں اسنوکر اور ویڈیو گیمز کی وبا عام ہے، رسول پور گاؤں میں چائے کا کھوکھا تک نہیں ہے ۔کوئی اجنبی شخص یہاں زمین یا جائیداد نہیں خرید سکتا۔ لوگ کسی اجنبی شخص کو گاؤں میں منعقد ہونے والی شادی بیاہ ودیگر تقریبات میں شرکت کی اجازت نہیں دیتے۔یہاں پر تمام کاروبار مقامی لوگوں کے ہاتھ میں، کسی اجنبی آدمی کو دکان کھولنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ کیوں کہ اس گاؤں کی آبادی پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہے اس لیے یہاں حجام اور ڈرائی کلین کی دکانیں نہیں ہیں، لوگوں کو اپنی یہ دونوں ضرورتیں پوری کرنے کے لیے گاؤں سے باہر کی دکانوں پر جانا پڑتا ہے۔ چند برس قبل تک اس علاقے میںاسلحے کا رواج نہیں تھا لیکن اب زیادہ تر لوگوں کے پاس ہتھیار ہیں، مگر وہ سر عام ان کی نمائش نہیں کرتے۔ یہ واحد علاقہ ہے جہاں جرائم کی شرح صفر ہے۔ 1933ءسے اب تک اس گاؤںکے کسی فرد کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ہے، ان تمام خصوصیات کی وجہ سے اس کا شمار پاکستان کے ایک مثالی گاؤں میںہوتا ہے۔
عالم پور گوندلاں گاؤں
گاؤں کا ہر مکین دوہری شہریت کا حامل ہے
پاکستان کا ایسا گاؤں ہے جس کا ہر مکین دوہری شہریت کا حامل ہے ۔ اس گاؤں میں دو سو گھر ہیں اور ہر گھر کا کوئی نہ کوئی شخص پاکستان کے علاوہ غیر ملک کی شہریت بھی رکھتا ہے ۔ جی ٹی روڈ پر اسلام آباد سے 140کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ، اس گاؤں کو ایک سماجی و سیاسی شخصیت چوہدری عالم نے بسایا تھا۔ہندوستان کی پونا یونیورسٹی سے زرعی سائنس میں گریجویشن کی ڈگری لینے کے بعد پنجاب کے محکمہ زراعت میںڈپٹی ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے چوہدری نائک عالم نےمشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے، آنے والے، غریب اور بے گھر کسانوں و مزدوروں کے لیے کچے گھر بنا کر انہیں یہاں آباد کیا اور اس کے ساتھ انہیں اس علاقے کی زمینوں پر روزگار کے مواقع فراہم کیے۔ ان کے دل میں غریبوں کے لیے بے انتہا ہمدردی تھی اور وہ ان کی غربت کے خاتمے کے لیے مشنری جذبے کے تحت کام کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے لوگوں کی معاشی حالت بہتر بنانے اور مفلوک الحال لوگوں کی زندگی سنوارنے کے لیے کئی مثالی کام کیے۔70ءکی دہائی میں انہوں نے کوشش کر کے گاؤں کے لوگوں کو یورپین ممالک خصوصاً ناروے بھیجنا شروع کیا۔ آج اس گاؤں میں 200گھر موجود ہیں اور ہر گھر کا کوئی نہ کوئی باسی دہری شہریت رکھتا ہے۔ 1960میں انہوں نے اپنے بیٹے کو ملازمت کے سلسلے میں برطانیہ بھیجا، جس نے انہیں خط کے ذریعہ مطلع کیا کہ یہاں روزگار کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ چوہدی نائک عالم نےگاؤں کے لوگوں کو برطانیہ جانے کی ترغیب دی اور انہیں سفر کے لیے ہر قسم کی معاونت فراہم کی۔ چند سال بعد، ناروے میں مقیم ان کے دوستوں نے انہیں بتایا کہ ناروے میں ملازمت کے مواقع برطانیہ سے بھی زیادہ ہیں، چنانچہ انہوں نے گاؤں کے لوگوں کو ناروے بھیجنا شروع کردیا۔
اس زمانے میںلوگ یورپ کا سفربحری جہاز یابسوں کے ذریعے کرتے تھےاوربسوں اور ریل کے ذریعے، کابل، ایران اور ترکی ہوتے ہوئے یورپ جاتے تھے۔ برطانیہ اور ناروے تک کے سفری اخراجات کے لیے دو ہزار روپے درکار ہوتے تھےاور غریب کسانوں کے لیے اتنی بڑی رقم کا انتظام بھی ایک مسئلہ تھا۔چوہدری عالم نے ان کے سفری اخراجات کےلیے اپنی ذاتی اور مالی ضمانتوں پر کوآپریٹو بنک سے قرضے دلوانے کا بندوبست کیا۔اس وقت 35 ہزار پاکستانی، ناروے کی شہریت رکھتے ہیں ، جن کی بڑی تعداد کا تعلق مذکورہ گاؤں سے ہے۔ ان میں سے دس ہزار افراد کو انہوں نے بھجوایا تھا۔کچھ عریصہ گزرنے کے بعد، ناروے کی شہریت لینے والے بیشتر نوجوانوں نے اپنے بوڑھے والدین کو بھی اپنے پاس بلالیا ہے، تاکہ انہیں سوشل سیکورٹی، صحت اور پنشن کی سہولت مل سکے۔ یہاں کے باقی باشندے اسپین، یونان، کینیڈا، اٹلی، فرانس اور خلیجی ممالک میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ضلع گجرات کے قصبے کھاریاں سے ایک تنگ سڑک پر سفر کرتے ہوئے ایک مصروف بازار سے گزر نے کے بعد کئی ایکڑرقبے پر پھیلا ہواجنگل راستے میں پڑتا ہے،یہاں سے یہ سڑک ایک دیہی علاقےقصبے میں جاتی ہےلیکن جب لوگ عالم پور گوندلاں کی شہرت سن کر اس گاؤں کی تلاش میں مذکورہ علاقے میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں پنجاب یا سندھ کے روایتی گاؤں کے ٹوٹے پھوٹے گھروں اور دھواں اگلتی چمنیوں کی بجائے محل نما بنگلوں کی قطاریںدکھائی دیتی ہیں جن میںلگے ائیر کنڈیشن اور بنگلوں کے آگے کھڑی کاریں دیہی علاقے کے مکینوں کی امارت کی کہانیاں سنا رہی ہیں۔ یورپ اور دیگر ممالک میں سکونت اختیار کرنے والوں نے اس چھوٹے سے قصبے کی ہئیت بدل دی ہے۔ اس وقت وہاں صرف چار سو افرادر ہائش پذیر ہیں، جن کی اکثریت امیر طبقے پر مشتمل ہے۔انہوں نے اس گاؤں میںبڑے بڑے محلات تعمیر کیے ہیں، لیکن زیادہ ترلوگ غیر ممالک میں رہتے ہیں جب کہ اپنے گھروں کی دیکھ بھال کے لیے انہوں نےملازم رکھے ہوئے ہیں، جو ان گھروں کی نگرانی کرتے ہیں۔ ناروے اور یورپی ممالک منتقل ہونےوالوں نےاس گاؤں میں سماجی بہبود کے منصوبوں اور ترقیاتی کاموں میں اپنے فنڈز کے ذریعے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔اب اس گاؤں میں کوئی غریب نہیں رہتا، اس لیے کہ ہرشخص ناروے سمیت دیگر ممالک میں دولت کما رہا ہےاور دوہری شہریت کا مالک ہے۔ دنیا بھر میں اس کی پہچان’’ چھوٹے ناروے‘‘ کے طور پر ہے اور اس کی شہرت سن کر ناروے کے سفارت کار بھی اکثر یہاں آتے ہیں۔
ماموں کانجن گاؤں
مساجد کئی لیکن اذان مرکزی مسجد میں دی جاتی ہے
ماموں کانجن فیصل آباد کا ایک نواحی قصبہ ہے جس کی کل آبادی تقریباً 10ہزار نفوس کے لگ بھگ ہے۔ یہ گاؤں بھی سگریٹ نوشی کرنے والوں کے لیے ممنوعہ ہے۔ یہاںنماز کے اوقات میں سارے قصبے میں ایک ہی مسجد سے دی جانے والی اذان کی آواز سارے شہر میں گونجتی ہے۔ مذکورہ مسجد گاؤں کے وسط میں ایک پرشکوہ عمارت کی صورت میں قائم ہے جس کے اسپیکر کو علاقے میں موجود تمام مساجد سے منسلک کیا گیا ہے۔ اس طرح اس مسجد میں دی جانے والی اذان باقی مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز سے بھی سنائی دیتی ہے۔ یہ مذہبی یکجہتی کا ایک عملی مظاہرہ اور منفردصوتی نظام ہے، جس کی نظیر سوائے اس گاؤں کے کہیں اور نہیں ملتی۔
گلمت گاؤں
انٹرنیٹ کے ذریعے مال دار بننے والے لوگ
گلگت کی وادی گوجال کا گاؤں گلمت، چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ یہاں کی آبادی کی گزراوقات کا زیادہ تر انحصار آلو کی کاشت اور اس کی فروخت پر ہے لیکن لینڈ سلائیڈنگ کے باعث اس کی فروخت نہ ہونے کے باعث آمدنی کا یہ ذریعہ بھی مسدود ہوجاتا ہے۔ اس علاقے کا زمینی راستہ تو دشوار گزار ہے ہی لیکن مواصلاتی رابطہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے کیوں کہ یہاں موبائل فون تک کے سگنل نہیں آتے۔ اس گاؤں کے باشندے جو کچھ عرصے قبل تک گزر اوقات کے لیے پریشان رہتے تھے، اب انٹرنیٹ کے ذریعے ہزاروں روپے ماہانہ کما رہے ہیں اور یہ سب علاقے کے ایک تعلیم یافتہ نوجوان کریم اسلم کی وجہ سے ممکن ہواجس نے ایک این جی او کی مدد سے گاؤں میں سٹیلائٹ انٹرنیٹ لگوالیا اور کراچی کی ایک کمپنی کے توسط سے آن لائن جاب شروع کردی۔ اسلم مذکورہ کمپنی کی وساطت سے امریکی فرموں سے انگریزی زبان میں آڈیوز وصول کرتا اور انہیں کمپوز کرکے واپس بھیج دیتا، جس کا اسے معاوضہ ملتا تھا۔ اس این جی او کے اشتراک سے اس نے گلمت میںایک ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کھول لیا ہے جس میں وہ علاقے کے نوجوانوں کو انٹرنیٹ اور آئن لائن جابز کی ٹریننگ دے رہا ہے۔ آج اس گاؤں کے بیشتر نوجوان انٹرنیٹ کے ذریعے ہزاروں روپے ماہانہ کما رہے ہیں۔ اب انہیں اور ان کے اہل خانہ کو لینڈ سلائیڈنگ اور استے منقطع ہونے کی وجہ سے فاقے نہیں کرنا پڑیں گے ، جب کہ آلو کی فروخت بھی آن لائن ہوسکے گی۔۔
احسان پورگاؤں
اس کے باسی سولر انرجی کاپلانٹ لگوا کربرقی توانائی میںخودکفیل ہوگئے ہیں
پاکستان، جہاںہر شہربجلی کے بحران میں مبتلا ہے، کراچی سمیت دیگر علاقوں کے شہری اپنا کاروبارزندگی لوڈشیڈنگ کے اوقات کار کو مدنظر رکھتے ہوئے متعین کرتے ہیں، وہیں پنجاب میں ایک ایسا گاؤں بھی ہے جس کے باشندوں نے اپنے علاقے میں توانائی کا مسئلہ اپنی مدد آپ کے اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حل کرلیا ہے۔ مظفر گڑھ کے قریب واقع احسان پور کا گاؤں، جو 166گھروں پر مشتمل ہے ، اس کےباشندے سولر انرجی کاپلانٹ لگوا کربرقی توانائی میںخودکفیل ہوگئے ہیںکچھ عرصے قبل تک، اس گاؤں میں بجلی نہ ہونے کی کی وجہ سے مکمل طور سے اندھیرا رہتا تھا، اور حکومت نے بھی یہاں بجلی کے تار بچھانے پر کبھی توجہ نہیں دی تھی۔ مذکورہ دبہات کے باشندوں نے اس مسئلے سے نبردآزما ہونے کے لیے شمسی توانائی کا ایک پلانٹ لگوا لیا،جس کے بعد یہاں توانائی کا بحران ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ آج جب ملک کے بڑے بڑے شہر پاور بریک ڈاؤن، شٹ ڈاؤن اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے تاریک ہوتے ہیں، مذکورہ علاقہ روشنی سے جگمگا رہا ہوتا ہے۔
تبوگاؤں
یہاںکے باسیوں نے علاقے کے گندے پانی کی نکاسی کا منفرد نظام بنایا ہے جو زیر زمین ہے
ایک چھوٹے سے گاؤں تبو کا شمار صادق آباد کے خوش حال ترین علاقے میں ہوتا ہے۔ اس گاؤں کے دیہاتی گاؤں کو درپیش تمام مسائل اپنی مدد آپ کے تحت حل کرتے ہیں اوراس کے لیے حکومت سے کسی تعاون کے طلب گار نہیں ہوتے۔ یہاںکے باسیوں نے علاقے کے گندے پانی کی نکاسی کا منفرد نظام بنایا ہے جو زیر زمین ہے۔ گھروں میں استعمال ہونے والے پانی کو ضائع کرنے کی بجائے ،زمین کے اندر بچھائی گئی گٹر لائن کے ذریعےکھیتوں اور باغات تک پہنچایا جاتا ہے، جس سے ایک طرف تو کھیت سیراب ہوتے ہیں جب کہ دوسری جانب انہیں اعلیٰ قسم کی قدرتی کھاد بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس عمل سے یہاں زراعت پروان چڑھ رہی ہے۔ اس گاؤں میں 16سے 49سال کی عمر کے افراد کے لیے ماحولیات اورڈیری فارمنگ کے حوالے سے خصوصی تعلیم دی جاتی ہے۔
فتو دیدوگاؤں
ایک مثالی گاؤں جس کا نظام گاؤں مکینوں کی کمٹی چلاتی ہے
گاؤں فتو دیدو سندھ کے شہر بدین میں واقع ہے ، جہاں کے کلی اختیارات وڈیروں اور بااثرسیاسی شخصیات کے ہاتھ میں ہیں۔ حکومت کی چشم پوشی کی وجہ سے سندھ کے دیہی علاقوں میں بنیادی سہولتوں کی صورت حال انتہائی ابتر ہے لیکن بدین کے اس نواحی علاقے کے باسیوں نے علاقے کی قسمت بدلنے کا بیڑا اٹھایا اور باہمی تعاون کی بنیادوں پر یہاں پر شہری مسائل کے حل کے لیے اقدامات کیے گئے۔گھروں سے چندہ کرکے رقوم اکٹھا کی گئیں، پختہ فرش ڈلوائے گئے، نکاسی آب کی نظام بہتر کرنے کے لیے، لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت زیر زمین سیوریج سسٹم بھی بنا لیا ۔ یہ سارا نظام گاؤں کی سرکردہ شخصیات پر مشتمل ایک کمیٹی چلاتی ہے۔ علاقے سے متعلق تمام معاملات اس کمیٹی میں اٹھائے جاتے ہیں، گھروں سے کچرا اٹھانے کا انتظام کیا گیا ہے اور اگر کوئی شخص گلی یا سڑک پر کوڑا کرکٹ پھینکتا پایا جاتا ہے تواسے کمیٹی کے حوالے کردیا جاتا ہے جو اس پر جرمانہ عائد کرتی ہے۔ یہاں کے لوگ اسے ایک مثالی گاؤں بنانے کے لیے آپس میں تعاون کرتے ہیں اور صفائی، ستھرائی، اور دیگر امور کے لیے ہر گھر سے ماہانہ بنیاد پر فنڈ اکٹھا کیا جاتا ہے۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 222921 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.