نظروں سے اوجھل جھیلیں

قدرتی حسن اور دل کش ماحول کی وجہ سے وہ معروف جھیلوں سے کسی طور کم نہیں

قدرتی حسن اور دل کش ماحول کی وجہ سے وہ معروف جھیلوں سے کسی طور کم نہیں

دنیا بھر میں تیس لاکھ سے زیادہ جھیلیں ہیں جو ایک طرف آبی ضرورت پوری کرنے کا ذریعہ ہیں تو دوسری طرف فطرت کے حسین مناظر کی وجہ سےاچھی تفریح گاہیں بھی شمار ہوتی ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقے حسن و دل کشی کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں،وادی سوات، گلگت و ہنزہ اور چترال کے علاوہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں لاتعداد جھیلیں ہیں جو نہ صرف مسحور کن ماحول بلکہ لوک کہانیوں اور افسانوی داستانوں کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے باعث کشش ہیں۔ کئی جھیلیں ایسی ہیں جو آج بھی سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہیں لیکن حسین نظاروں کی وجہ سے وہ مشہور و معروف جھیلوں کے ہم پلہ ہیں۔اس لیے ہم ان جھیلوں کا تذکرہ کریں گے جونگاہوں سے اوجھل ہیں۔
سیدگئی جھیل
وادی سوات کی سیدگئی جھیل بھی ہمارے ملک کے ان حسین مقامات میں سے ایک ہے جو انسانی نگاہوں سے اوجھل ہیں لیکن اب مذکورہ جھیل بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتی جارہی ہے اور مہم جو افراد،دشوار گزار پہاڑی راستوں پرکئی گھنٹے کا پیدل سفر کرکے یہاں تک پہنچتے ہیں اور قدرت کی صناّعی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ سیر و تفریح کے زیادہ تر شائقین، اس جادو نگری کی جانب جانے کے لیے منگورہ سے بہ ذریعہ جیپ مٹہ پہنچتے ہیں،وہاں سےپہلے ’’مانڈل ڈاگ‘‘ نامی مقام تک پہنچنا پڑتا ہے، پھر وہاں سے ’’گام سیر‘‘ اور ’’چاڑما‘‘ کے خوب صورت مقامات سے ہوتے ہوئے ’’سُلاتنڑ‘‘ تک پورا سفر پیدل طے کرنا پڑتا ہے۔ مٹہ سے سلاتنڑ تک سڑک کی حالت بعض جگہوں پر بے انتہا اچھی ہے لیکن بیشتر مقامات پر کچے پہاڑی راستے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سلانتڑ تک جیپ کے ذریعے ہی پہنچنا ممکن ہے۔ سلاتنڑکے قصبے سے جھیل سیدگئی تک کا تقریباً آٹھ گھنٹے کا پیدل سفر ہے جو انتہائی پرصعوبت اور دشوار گزار ہے۔
اس جھیل تک پہنچنے کے لیے ایک دوسرا راستہ بھی ہے جو ’’باغ ڈھیری‘‘ قصبے کے نزدیک واقع ’’لالکو‘‘ کے گاؤں سے نکلتا ہے۔ یہ راستہ سلانٹروالی راہ گزر کی بہ نسبت آسان اور مختصر ہے۔ لیکن مہم جو اور فطری حسن کے دل دادہ افراد بلند و بالا پہاڑوں سے گھرے ہوئے سلانٹر کی وادی والے راستے پر ٹریکنگ کرتے ہوئے سفر کرتے ہیں۔ راہ میں گھنے جنگلات کا طویل سلسلہ بھی پڑتا ہے۔ سلاتنڑ میں پہاڑی ندی کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے ایسے دل کش اور حسین مقامات مقامات آتے ہیں جہاں سانسیں تھم جاتی ہیں۔ رنگ برنگے جنگلی پھول اور اطراف میں بکھرے دل فریب مناظر دل و دماغ پر فرحت بخش اثرات مرتب کرتے ہیں۔ پہاڑی گزرگاہ پر سفر کرتے ہوئے راستے میں کئی بلند و بالا چوٹیاں آتی ہیں جن پر سے گزر کرسبز مرغزاروں اور گھنے جنگلات سے ہوتے ہوئے سیدگئی جھیل پہنچتے ہیں، جس پر پہلی نظر پڑتے ہی ہے آنکھیں اس کے حسن و دل کشی سے خیرہ ہو جاتی ہیں۔ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ پہاڑوں کے اوپر قادر مطلق نے کس حسن و رعنائیاں تخلیق کی ہیں ۔ سیدگئی جھیل کے پہاڑی سلسلہ کو ’’اسپین سر‘‘ یعنی سفید پہاڑبھی کہا جاتا ہے۔سیدگئی جھیل کی طرف تک جانے والے راستے کا بیشتر حصہ اسی قسم کی برفانی چوٹیوں اور برف پوش پہاڑوں سے ڈھکا ہوا ہے اور بعض مقامات پر تو برف کی چادر اس قدر دبیز ہے کہ پیدل چلتے ہوئے قدم جمانے میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔ راہ میں چند چھوٹی جھیلیں بھی آتی ہیں جن میں ’’کنگروجھیل‘‘ قابل ذکر ہے۔ یہ چھوٹی سی جھیل بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان ایک کٹورے کی صورت میں موجود ہے جس کے کناروں سے ٹکراتا ہوا نیلگوں پانی خوب صورت منظر پیش کرتا ہے۔ سیدگئی جھیل فلک بوس پہاڑوں سے گھرے ہوئے ایک وسیع و عریض میدان میں واقع ہے جو تقریباً پانچ مربع کلومیٹر کے علاقے میں اپنے فطری حسن کے ساتھ موجود ہے۔ اس کا شفاف پانی بے انتہا میٹھا اور یخ ہے۔ جھیل کے اطراف میں ایستادہ پہاڑوں پر ہر طرف برف کی سپیدی پھیلی ہوئی نظر آتی ہے اور سورج کی کرنیں جب اس پر پڑتی ہیں تو قوس و قزح کا منظر پیش کرتی ہیں۔یہ جھیل ضلع سوات اور ضلع دیر کے پہاڑی سلسلے میںواقع ہے ۔ اور اس کا پانی ’’درئہ عشیری‘‘ کے راستے دیرمیں بہنے والے دریائے پنج کوڑہ میں گرتا ہے۔ اس جھیل سے ایک راستہ درال جھیل اور گبینہ جبہ تککے لیے نکلتا ہے۔ یہ علاقے بھی سوات کی جنت نظیر خوب صورتی سے مالا مال ہیں۔ اس جھیل کی سیر کے لیے جاتے ہوئے زاد راہ اور قیام و طعام کا وفار انتظام کرنا چاہیے۔اشیائے خورنوش اور گرم کپڑے ضرور ساتھ رکھنا چاہئیں کیوں کہ اس مقام تک پہنچتے ہوئے سفری تکان اتنی ہوجاتی ہے کہیہاں شب بسری لازمی ہوتی ہے۔ اس سفر میں اپنے ساتھ مقامی گائیڈ کا ساتھ ہونا ضروری ہےورنہ پہاڑی بھول بھلیوں میں بھٹکنے کاخدشہ ہوتا ہے۔ اس جھیل کی سیاحت کے لیے جولائی سے لے کر ستمبر تک کے مہینے موزوں ہیں۔
مہو ڈنڈ جھیل
مہو ڈنڈ جھیل وادی سوات کےحسین ترین علاقے کالام سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر وادیٔ اسو میں واقع ہے۔ اس جھیل میں آبی حیات کی بہتات ہے اس لیے اسے مہو ڈنڈ جھیل یعنی ’’مچھلیوں کی جھیل‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔یہاں آنے والے سیاحوں کی زیادہ تر تعداد ماہی گیری کے شوق میں یہاں آتی ہے ۔ وہ یہاں جھیل کے کنارے پھیلے ہوئےسبزے پر واقع کیمپنگ سائٹس میں اپنے خیمے نصب کرتے ہیں اور کئی کئی دن قیام کرکے اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔ یہاں ٹراؤٹ نسل کی مچھلیوں کی افزائش ہوتی ہے۔وادی کالام سے مہوڈنڈ جھیل کی جانب جاتے ہوئے راستے میں بے شمار دل فریب مقامات آتے ہیں، برفانی گلیشیئر اور آب شاریں راہ میں پڑتی ہیں ، جو خالق کائنات کی حمد و ثنا کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ ایک آب شار کی مناسبت سے ایک گاؤں کا نام ہی آب شار‘‘پڑ گیا ہے جو حسین مناظر سے بھرا پڑا ہے اور یہاں سے گزرنے والے سیاح چند گھنٹے یہاں ٹھہر کر قدرت کی تخلیق کاری سے اپنی آنکھوں کو تراوٹ بخشتے ہیں۔ وہ1500 فٹ کی بلندی سے گرنے والے آب شار کے کنارے بھی کچھ دیر قیام کرتے ہیں اور اس کی گنگناہٹ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
کلر کہار جھیل
پنجاب کے علاقے کا خوبصورت سیاحتی مقام بھی ہے، جو کلر کہار کی وادی میں واقع ہے، سیاح یہاں مچھلی کے شکار اور کشتی رانی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جھیل کے کنارے مختلف جھولے بھی لگے ہوئے ہیں۔ یہاں سیاحوں کے قیام کے لیے محکمہ سیاحت پنجاب کی قیام گاہ موجود ہے۔اس جھیل کا راولپنڈی سےفاصلہ 135 کلومیٹرہے جب کہ اگر موٹر وے پر اسلام آباد سے چکوال کے راستے سفر کیا جائے تو 100 کلومیٹر سفر کرنا پڑتا ہے ۔ کلر کہار کی وادی پھلوں کے باغات ، موروں کی بہتات ، نمکین پانی کی مذکورہ جھیل اور تخت بابری کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے۔کلر کہار جھیل پوٹھوہار کے جنوب میں واقع پہاڑی سلسلے کے درمیان واقع مذکورہ وادی میں سطح سمندر سے تقریباً پندرہ فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔یہ سالٹ رینج میں ایک قدرتی جھیل ہے جو صاف و شفاف اوریخپانی سے لبریز ،پہاڑوں کے درمیان قدرت کے ایک حسین نظارے کی صورت میں موجود ہے۔پہاڑی چشموںسے بہہ کر آنے والا شفاف پانی اس جھیل میں جمع ہوتا ہے، پھر جھیل سے بہہ کر ایک ندی کی شکل اختیار کر لیتا ہے،اس جھیل کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 54 فٹ ہے اور اس کے کنارے حد نگاہ تک قدرتی نظارے بکھرے ہوئے ہیں۔اس جھیل کے کنارے ہر طرف خوش رنگ پرندے اور مور اڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان موروں سے متعلق مختلف روایات مشہور ہیں جن میں سے ایک روایت یہ ہے کہ اگر انہیں یہاں سے کسی اور علاقے میں لے جانے کی کوشش کی جائے تو یہ پرنے اپنی بینائی کھو بیٹھتے ہیں۔اس جھیل سے کچھ فاصلے پر ہی کوہ سلیمان کے سلسلے کے جنوب میں کھبکی جھیل واقع ہے، جو سالٹ رینج میں حیرت انگیز طور پر میٹھے پانی کی جھیل ہے۔ اس میں چینی نسل کی مچھلی کی فارمنگ کی جاتی ہے۔ اس جھیل کی لمبائی دو کلومیٹر جب کہ چوڑائی ایک کلومیٹر ہے۔ اس کا نام قریب میں واقع کھبکی نام کے گاؤں پر رکھا گیا ہےسالٹ رینج کی تیسری قدرتی جھیل ،اوچھالی اس سےتھوڑے ہی فاصلے پر ہے۔
کرمبر جھیل
کرمبر جھیل خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے صوبوں کےدرمیان واقع ہے اور اس کا شمار پاکستان کی دوسری جب کہدنیا کی 31 ویں بلند ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔ 14121 فٹ کی بلندی پر واقع یہ جھیل آبی حیات کی افزائش کا مرکز بھی ہے۔ اس جھیل کی گہرائی تقریباً 55 میٹر، لمبائی تقریباً 4 کلو میٹر اور چوڑائی 2 کلو میٹر ہے۔بروغل کی وادی میں واقع یہ خوبصورت جھیل چترال شہر سے ڈھائی سو کلو میٹر سے زائد فاصلے پر واقع ہے۔ بروغل کی وادی اپنے خوبصورت قدرتی مناظر، برف پوش چوٹیوں،عظیم الشان پہاڑی سلسلے اور سرسبز وادیوں کے درمیان پوری آب و تاب سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔
چیتا کھتا جھیل
مذکورہ جھیل آزاد کشمیر کی خوب صورت وادی، نیلم کے قصبے شونتر میں واقع ہے۔ یہاں تک پہچنے کے لیے سیاح وادی کیل کا سفر کرتے کرتے ہیں ۔ کیل کے علاقے سے شونتر کے قصبے تک ایک پختہ سڑک ہے، لیکن زیادہ تر سیاح اپنے سفر کے درمیان اوتلی ڈومل گاؤں کے حسن و جمال کو دیکھ کر یہاں ایک رات قیام کرتے ہیں۔ صبح یہاں سے پہاڑی پگڈنڈیوں پرپانچ سے چھ گھنٹے ٹریکنگ کرتے ہوئے چیتا کھتا جھیل پر پہنچتے ہیں۔3200فٹ کی بلندی پر واقع شفاف پانی کی جھیل گردو نواح کے سر سبز ماحول کی وجہ سے قدرت کا حسین شاہ کار لگتی ہے۔ اس کی سیاحت کے لیے جولائی اور اگست میں موسم سازگار ہوتا ہے۔
باغ سر جھیل
یہ جھیل بھی آزاد کشمیر کے ضلع بھمبرکی دل کش وادی بنڈالا میں واقع ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 2925 فٹ جب کہ طوالت نصف کلومیٹر ہے۔ یہ جھیل بھی کچھ عرصے قبل تک دنیا کی نظروں سے اوجھل تھی۔ اس جھیل کے اردگرد کا ماحول انتہائی سحر انگیز ہے۔ بلند وبالا درخت، سبز مرغزار ، بلند و بالا پہاڑوں پرچیڑ اور صنوبر کا اگا ہوا جنگل انتہائی مسحور کن منظر پیش کرتے ہیں۔ اس جھیل کے نیلے پانی پر غیرممالک سے ہجرت کرکے آنے والے آبی پرندے بہ کثرت پائے جاتے ہیں جن میں راج ہنس ، مرغابیاں اور بطخیں قابل ذکر ہیں۔ جھیل کے اطراف پہاڑی چوٹیوں میں سے ایک پر مغلیہ دور کا تعمیر کردہ ایک قلعہ بھی واقع ہے جہاں سےنشیب میں واقع جھیل کا نظارہ بہت دل کش لگتا ہے۔ اس قلعے کو تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ مغل بادشاہ جہانگیر کے بارے میں مشہور ہے کہ کشمیر کی سیر کے دوران وہ واپسی پر اس قلعہ میں ٹھہرا تھا جہاں وہ شدید بیمار پڑ گیا اور یہیں اس نے وفات پائی۔
عطا آباد جھیل
حادثاتی طور سے وجود میں آنے والی یہ جھیل وادی ہنزہ میں شاہ راہ قراقرم پر واقع ہے۔ مذکرہ جھیل جنوری 2010 میں لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ اس حادثے میں عطا آباد بالا کے دائیں جانب ایستادہ بلند و بالا پہاڑ کا وسیع و عریض حصہ ٹوٹ کر دریائے ہنزہ میں گر گیا تھا اور پانی کی راہ مسدود ہوگئی تھی ۔ اس کا بڑا حصہ قریب میں واقع گاؤں عطا آباد کے مکینوں پر قیامت بن کر گرا جس کےنتیجے میں دو درجن افراد ہلاک ہوگئے تھے جب کہ مذکورہ گاؤں کا بڑا رقبہ اور شاہ راہ قراقرم کا وسیع و عریض حصہ زیر آب آکر ایک بڑی جھیل میں تبدیل ہوگیا۔ جون 2010ء میں جب مذکورہ جھیل کی پیمائش کی گئی تو اس کی لمبائی 21 کلومیٹر اور گہرا ئی 100میٹر یعنی 300فٹ ہے۔ بلند و بالا چٹیل پہاڑوں کے درمیان اس حادثاتی طور سے بننے والی جھیل کا نام ’’عطا آباد جھیل‘‘ رکھا گیا۔ یہ ایک شفاف اور یخ پانی والی خوب صورت جھیل ہے لیکن سیاح دور سے ہی اس کا نظارہ کرتے ہوئے گزرتے ہیں۔
حمل جھیل
صوبہ سندھ کے ضلع قمبر میں شہداد کوٹ کے مقام پر یہ غیر معروف جھیل ہے۔ لاڑکانہ سے اس کا فاصلہ 58کلومیٹر جب کہ قمبر شہر سے 40کلومیٹر ہے۔ مذکورہ جھیل 25کلومیٹر لمبی جب کہ اس کی چوڑائی 10کلومیٹر ہے۔ یہ سائبریا اور دیگر سرد خطوں سے نقل مکانی کرکے آنے والے آبی پرندوں کا مسکن ہے۔ اطراف کےپر فضا ماحول اور قدرت کے حسین نظاروں کی وجہ سے یہ ایک دل فریب سیاحتی مقام ہے، لیکن سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہونے کی وجہ سے بہت کم افراد ہی یہاں پہنچتے ہیں۔
شنگریلا جھیل
یہ جھیل گلگت ، بلتستان کی خوب صورت وادی، اسکردو میں شنگریلا کے مقام پر واقع ہے۔ یہاں تک پہنچنے کے لیے گلگت شہر سے اسکردو کا سفر کرنا پڑتا ہے، جہاں سے صرف بیس منٹ کا پہاڑی سفر طے کرکے اس خوب صورت سیاحتی مقام تک پہنچتے ہیں۔ جھیل کے اطراف ،قدرت کے حسین نظاروں کی وجہ سے یہاں کا ماحول انتہائی مسحور کن معلوم ہوتا ہے لیکن اس جھیل کی خاصیت ، اس کے کنارے بنا ہوا ایک ریسٹورنٹ ہے جو ایک تباہ شدہ طیارے میں تعمیر کیا گیا ہے۔ مذکورہ طیارہ اس وادی کے قریب گر کر تباہ ہوگیا تھا، جس کے ڈھانچے میں کھانے پینے کا ہوٹل بنایا گیا ہے۔
پائی جھیل
مذکورہ جھیل بھی وادی کاغان کے خواب ناک ماحول میں واقع ہے لیکن جھیل سیف الملوک کے آگے اس کا حسن ماند پڑ گیا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ ایک غیر معروف مقام ہے۔ مذکورہ جھیل شوگران کےنزدیک واقع ہے۔ اس کے اطراف میں مکڑا پہاڑ ، موسیٰ کا مصلہ اور ملکہ پربت کی چوٹی واقع ہے۔ اس کا اطراف بھی بہت حسین مناظر لیے ہوئے ہے، لیکن یہاں تک پہنچنے کے کیوائی کے درے سے جیپ کے ذریعے شوگران کی وادی پہنچتے ہیں جہاں سے پہاڑی بلندیوں اور گھاٹیوں پر دشوار گزار سفر کرتے ہوئے مذکورہ جھیل آتی ہے۔ یہ ایک خوب صورت تفریحی مقام ہے لیکن پرخطر راستوں کی وجہ سے سیاحوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے۔
کرمبر جھیل
گلگت بلتستان کی وادی غذر کے قصبے اشکومن سے اگر چترال کی جانب سفر کیا جائے توچترال کی سرحد کے ساتھ مذکورہ جھیل نظر آتی ہے۔ اس کا ایک حصہ چترال کی وادی بروغل میں واقع ہے۔ مذکورہ جھیل کا گلگت کے مر کزی شہر سے 205 کلومیٹر کا فاصلہ ہے، اس لیے زیادہ تر سیاح یہاں آنے سے کتراتے ہیں۔ صرفوادی غذر سے چترال کی جانب سفر کرنے والے ہی اس مقام سے گزرتے ہیں اور قدرت کے اس حسین شاہ کار کا نظارہ کرتے ہیں۔
نمل جھیل

مذکورہ جھیل پنجاب کے شہر میاں والی میں وادی نمل کے گاؤں ’’رکھی‘‘ میں واقع ہے، جس کا فاصلہ میاں والی شہر سے تقریباً 25 کلومیٹردور ہے۔ اس کی لمبائی چوڑائی تقریباً 6 مربع کلومیٹر ہے۔ اس جھیل کے شمالی اور جنوب سمت میں فلک بوس سلسلہ کوہ ہے جب کہ شرقی اور غربی جانب لہلہاتے کھیت اور پھلوں سے لدے باغات ہیں۔ اس کا شمارصوبہ پنجاب کی تاریخی جھیلوں میں ہوتا ہے لیکن اپنے حسن و جمال اور دل فریب مناظر کے باوجود یہ سیر و سیاحت کے دل دادہ افراد کے لیے غیر معروف ہے۔ جھیل کے کنارے ایک صدیوں پرانا ریسٹ ہاؤس ہے جو برطانوی دور حکومت میں تعمیر کیاگیا تھا ۔ مذکورہ جھیل کی سیر کے لیے سیاح کا آنا تو کم ہی ہوتا ہے لیکن سرد ممالک سے اہجرت کرنے والے پرندوں کا یہ پسندیدہ ٹھکانہ ہے اور یہاں سیکڑوں کی تعداد میںروسی بطخیں اور سائبریا کی کونج اس جھیل کے پانی پر تیرتی ہوئی نظر آتی ہیں جس سے یہاں کا ماحول انتہائی دل کش لگتا ہے۔



 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 222936 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.