ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی اسکول اور براؤن یونیورسٹی کے
کاسٹ آف وار پروجیکٹ کے مطابق افغانستان کی بیس سالہ جنگ میں 2448امریکی
فوجی، 3846کنٹریکٹر جبکہ دیگر اتحادی ممالک کے 1144 فوجی ہلاک ہوئے۔اسی طرح
افغان آرمی اور پولیس کے 66ہزار، تقریباً 47245 سویلین، 51191 طالبان،
444امدادی کارکن اور 72 صحافی لقمہ اجل بنے، یعنی امریکہ اور اس کے
اتحادیوں کے مجموعی طور پر 7438افراد مارے گئے جبکہ مجموعی طور پر
16942افغان زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے۔یعنی اس 20سالہ مشق میں تقریباً 172390
جان کی بازی ہار گئے، دوسری طرف امریکہ نے 2 اعشاریہ 26 ٹریلین ڈالر یعنی
2ہزار ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ کی۔(بلاگ سلیم صافی - ۱ /دسمبر/2021)
غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق پیر کو اقوام متحدہ کے خوراک کے ادارے نے
افغانستان کو انسانی بحران سے نکالنے کے لیے منجمد فنڈز کو بحال کرنے کا
مطالبہ کیا ہے۔عالمی ادارہ خوراک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے بتایا
کہ افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا
ہے،ان کے مطابق بچے مر جائیں گے، لوگ فاقوں سے مر جائیں گے، صورتحال مزید
خراب ہونے جا رہی ہے۔افغانستان پر طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اگست
میں افغانستان بحران میں چلا گیا تھا اور غیرملکی امداد کا سلسلہ بھی بند
ہو گیا تھا۔ڈیوڈ بیسلے نے کہا کہ ’ہم جس چیز کی پیش گوئی کر رہے تھے وہ
ہماری توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے سچ ثابت ہو رہی ہے۔کابل کا سقوط بھی توقع
کے برخلاف ہوا اور معیشت اس سے زیادہ تیزی سے گر رہی ہے،آپ کو فنڈز کو
بحال کرنا پڑے گا تاکہ لوگ زندہ رہ سکیں۔اقوام متحدہ کے خوارک کے ادارے کو
23ملین افغانوں کو جزوی طور پر کھلانے کے لیے تقریباً 220 ملین ڈالرز کی ہر
مہینے ضرورت ہے۔(26 اکتوبر 2021 – روزنامہ جنگ)
قارئین! باطل کاطریقہ واردات اقوام عالم پر اوّل دن سے عیاں ہے۔ طاقت کا
استعمال اسکا وطیرہ ہے۔ دنیا بھر میں انسانی حقوقکا علمبردارامریکاصدی کے
آغاز میں دنیا سے شدت پسندی کےخاتمے کا ارادہ کر کے نکلا اور افغانستان
جیسے پسماندہ علاقے پر چڑھ دوڑا۔ ۲۰ سال کی طویل جنگ کے بعد اپنی ہار کو
تسلیم کرنے کے بجائے کمال ڈھٹائ سے اپنے حواریوں کو افغانستان میں چھوڑ کر
فرار ہوگیا۔ چونکہ یہ واردات تازہ ہے اسلئے عموم کے ذہن میں اسکا عکس موجود
ہے۔ یہ موقع ہے کہ عموم کو امریکا اور اسکے حواریوں کہ کارناموں کے بارے
میں آگاہ کیا جائے۔
مغربی استعما ر کے جرائم کی فہرست کافی طویل ہے۔ ان جرائم پر ایک ضخیم کتاب
تحریر کی جاسکتی ہے۔ چاہے برطانیہ ہو یا امریکا دونوں سپر پاورز کا دشمن 70
کی دہائ تک کمیونزم تھا ۔بعد ازاں کمیونزم کے انہدام کے سبب اسکی جنگ اب
دین اسلام اور مسلم تہذیب سے ہے۔ چونکہ دین اسلام کی وسعت اور کامل ہونے کا
یقین اسکو اوّل دن سے ہے یہی وہ سبب ہے کہ اپنے دشمن کی کسی بھی قسم کی
ترقی اسکو حواس باختہ کر دیتی ہے اور وہ طاقت کا استعمال کرنے سے دریغ نہیں
کرتا۔معروف امریکی نقاد نوم چومسکی امریکا کو اپنے مضامین میں بدمعاش ریاست
قرار دے چکے ہیں۔
مندرجہ بالااعداد و شمار اسکے جنگی مزاج کی کارستانیوں کا تازہ ثبوت ہیں۔
یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شدت پسندی کے جن الزامات کو لگا کر اس نے
افغانستان کو اپنے ظلم کا مرکز بنایا وہ اپنی حقیقت میں کسی جھوٹ سے کم
نہیں ہیں۔ سابقہ سپر پاور کے انسانی حقوق کے معیارات کا اندازہ اس بات سے
لگایا جاسکتا ہے کہ اپنی ہار کا غصہ وہ افغان عوام کو انسانی بحران سے
ہمکنار کر کے نکال رہا ہے۔ کہاں ہیں وہ مغرب کا درد دل رکھنے والے کہ جو اس
سے پوچھے کہ افغان عوام کے معاشی اثاثہ جات کو منجمدکر کے وہ کونسی انسانیت
کی خدمت کررہے ہیں ؟
مگر۔۔
مغربی تہذیب کے زیرِاثر رہنے والے یہ سوال کیونکر کریں گے ؟
کیا کبھی غلاموں نے بھی آقاوں کے فیصلوں پر سوال کیا ہے ؟
مغربی تہذیب آج اپنی ہولناک روایات کے سبب اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔
اسکےزوال کا جو اندیشہ عرصہ دراز قبل اسکے مفکرین نے ظاہر کیا تھا وہ آج
سچ ہونے کو ہے۔اپنی جنگی اقدار اور اپنا سفاک و مکروہ ماضی آج اسکو اپنے
اختتام کی جانب لے کر جارہا ہے۔ کورونا زدہ معیشت اسکے لئے کسی چیلینج سے
کم نہیں۔
وقت کے مجدد ا ابوالاعلی مودودی نے اس بات کی نشاندہی کی تھی:
ایک وقت آئے گا جب کمیونزم کو ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی اورسرمایہ دارانہ
نظام واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے بچائو کے لیے پریشان ہوگا ۔(30دسمبر
1946بمقام سیالکوٹ)
|