نفرت ہی تو کر سکتے ہو
اور تم میرا کر بھی کیا سکتے ہو۔۔
آج سے پانچ دہائیاں قبل ١٦ دسمبر ١٩٧١ سقوطِ ڈھاکہ کا سیاہ ترین دن، جب
مغربی پاکستان کے اخباروں میں یہ خبر چھپتی ہے کہ
"دو مقامی کمانڈروں کے درمیان سمجھوتہ طے پانے کے بعد جنگ بند ہوگئی" اس
خبر کا جواب پاکستانی کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان ان الفاظ میں دیتا ہے "
وقتی طور پر ایک محاذ سے پیچھے ہٹنے کے باوجود باقی محاذوں پر دشمن کا ڈٹ
کر مقابلہ کیا جائے گا" اور پھر اگلے ہی روز اس پاکستانی جنرل محمد شاہ ر
نگیلے کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان دنیا بھر کے اخبارات کی زینت بنتا ہے۔
١٧ دسمبر کو میرے ملک کے اس بہادر سپوت کا بیان مشرق اخبار کے سرورق پر آج
بھی چمکتا ہوا نظر آتا ہے کہ " پاکستان کی بقا کی جنگ اب کھیتوں، گھروں اور
کارخانوں میں لڑی جائے گی" یہ بیانات اکثریت پاکستانیوں کی سمجھ سے بالا تر
اور ناقابلِ فہم ہیں، ایک ایسے وقت میں جب ایک نا اہل جنرل نیازی اور
رنگیلے کمانڈر انچیف کی بدولت پاکستان اپنے جسم کا ایک ٹکڑا اپنے ہاتھوں سے
کاٹ کر الگ کر چکا تھا ایسے وقت میں قوم کی جزباتی مرہم پٹی کے بجائے یہ
رنگیلا جنرل قوم کے ساتھ ایسے بھونڈے مزاق کر نے میں مشغول تھا۔ بجائے اس
کے کہ ہم بحیثیت قوم اس نا مراد سے پاکستانی فوج کی جرات اور ہمیت کو دشمن
کے سامنے ننگا کرنے کا حساب مانگتے، اس شاطر رنگیلے نے ساری ہار کا الزام
اس شخص کے سر دھر دیا جو بعد میں ہزاروں فوجیوں کو دشمن سے واگزار کرواکر
لایا وہی فوجی جسے یہ رنگیلا اور اس کا نا اہل اور بزدل جنرل نیازی دشمن کی
جھولی میں پھینک آیا تھا۔
دسمبر ١٩٧٠ کے انتخابات تو محض ایک بہانہ تھے، شیخ مجیب کے اس منصوبے کا
آغاز تو ١٩٦٦ میں چھ نکات تیار کرنے کے ساتھ ہی ہوچکا تھا۔ یہ چھ نکات مجیب
کے شدت پسندانہ اور مغربی پاکستان دشمنی کے عین عکاس تھے، ان نکات کی رو سے
مشرقی پاکستان کی اپنی فوج اور فورسز ہونی چاہئے، مشرقی پاکستان کی اپنی
کرنسی ہونی چاہئے اور پاکستان کا دارالخلافہ مشرقی پاکستان میں واقع ہونا
چاہئے، اس کے انہی خیالات کے باعث محمد علی بوگرہ اور ابوالاعلیٰ مودودی نے
١٩٦٦ میں ہی اسے ہٹ دھرم اور پاکستان دشمن شخص قرار دے دیا تھا۔ سقوط ڈھاکہ
کے اسباب کا جائزہ پیش نظر ہے۔
١۔ مجیب کی ہٹ دھرمی، انڈیا نوازی، علیحدگی اور شدت پسندانہ رجحانات اور
مغربی پاکستان سے عداوت بشمول تضحیک محسن پاکستان قائد اعظم اور پاکستانی
پرچم کو نزر آتش کرنا۔
٢۔ امریکہ کی پاکستانی چین دوستی پر نا پسندیدگی
٣۔ مشرقی پاکستان میں بھارتی اثرورسوخ اور بھارتی لوک سبھا کی شدت پسند
گروہوں کی سر پرستی۔
۴۔ مشرقی پاکستان میں مارشل لاء کا نفاذ اور فوجی شدت پسندی۔
۵۔ ١٩٧١ میں مجیب کی کنفیڈریشن کی تجویز ماننے سے یحییٰ خان کا انکار۔
٦۔ پاکستانی فوج کی اعلیٰ قیادت کی نا اہلی اور ناقص حکمتِ عملی۔
ان تمام نکات کے بر عکس آج بھی کچھ سیاسی اور عسکری چمونے سقوطِ ڈھاکہ کا
موردِ الزام بھٹو کے اس سیاسی بیان کو ٹھہراتے ہیں " ادھر ہم ادھر تم" میرے
نا سمجھ دوستو ملک سیاسی نعروں پر نہ بنتے ہیں اور نہ ٹوٹتے ہیں۔ کسی بھی
ملک کو توڑنے کے لئے اور بھی بہت سے عوامل درکار ہوتے ہیں، اگر صرف نعرے
ملکوں کی تقدیروں کا فیصلہ کرتے تو شاید آج ہر ملک میں درجنوں اور ملک بن
چکے ہوتے۔ کچھ معلوم نا معلوم پر اسرار قو توں نے بھٹو کے ایک سیاسی بیان
کو اس سارے مسئلے کی بنیاد بنا کر، ایک قربانی کا تگڑا بکرا بنانے کی صرف
کوشش کی تھی ورنہ بھٹو کو پھانسی ایک معاونتِ قتل کے جھوٹے مقدمے میں دینے
کی بجائے ١٩٧١ میں پاکستان توڑنے کے جرم میں دی جاتی۔ بغض بھٹو میں یہ
نادان چاہے جو مرضی کہانیاں گھڑ لیں مگر یاد رکھیں، غدار کبھی آپ کے ہزاروں
محبِ وطن فوجی دشمن کے منہ سے نکال کر نہیں لاتے، نہ ہی ملک کو ایٹمی طاقت
بنا کر ناقابلِ تسخیر بنادیتے ہیں، نا ہی اسلامی بلاک بنا کر دنیا بھر کے
اسلام دشمنوں کو واضح پیغام دیتے ہیں، آج جس آئین کے سر پر یہ ملک چل رہا
ہے وہ بھی اسی غدار کا دیا ہوا ہے۔ اگر ان سیاسی نا بالغوں کا کوئی ایک
دعویٰ بھی درست مان لیں تو پھر ، آپ کے بقول مردِ مومن مردِ حق اور اس کے
جانشین یہ کیوں نہ ثابت کر سکے ، اس کو بھی چھوڑو آج تک حمود الرحمن کمیشن
رپورٹ کیوں نہیں شائع ہوسکی اور نہ کبھی ہوگی کیونکہ جھوٹ کے پاءوں نہیں
ہوتے، بھٹو اپنے نظریات اور عوام دوستی کی وجہ سے کل بھی اس قوم کے دل پر
راج کرتا تھا اور آنے والے کل میں بھی راج کرتا رہے گا۔ وہ کل بھی زندہ تھا
، آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا، بغضِ بھٹو میں تم کل بھی شرمندہ
تھے آج بھی شرمندہ ہو اور ہمیشہ شرمندہ رہو گے۔۔۔۔۔۔جئے بھٹو |