سورہ اعراف میں قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ اور اس
کے پس ِپشت کارفرما عوامل کوامثال کے ساتھ نہایت دلنشین انداز میں بتایا جا
چکا ہے۔رب کائنات نے انسانوں کے دُنیا میں بسائے جانے کاذکر اس طور فرمایا
کہ ”ہم نے تمھیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمہارے لیے یہاں
سامان زیست فراہم کیا“(اعراف10)۔
کائنات ہستی میں عروج و زوال کے طلسم ہوشربا کا مرکزی نکتہ یہی فکر و عمل
کی آزادی ہے۔ جو مخلوقات اس صفت عالیہ سے محروم ہیں ان کے لیے نہ عروج ہے
اور نہ زوال ہے۔
چرند‘پرند‘شجر‘ہجر‘چاند‘تارے‘ستارے‘سیارے یہاں تک کہ فرشتوں کو بھی اس نعمت
عظمیٰ سے سرفراز نہیں کیا گیا اس لیے وہ تغیر و ارتقاء سے بے بہرہ جیسے تھے
ویسے ہی ہیں۔ تصرف و اقتدارکی خداداد صفت کے ساتھ عروج و زوال کا رخ متعین
کرنیوالے انسانی رویہ کی بھی نشاندہی کی گئی ہے”مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار
ہوتے ہو“ (اعراف10)یعنی سپاس و احسا ن مندی کے بجائے کفر و انکار کی راہوں
پر چلنے والے بلندی سے پستی کی جانب گامزن ہوتے ہیں۔ شکر و کفر کی میزان ہی
عروج و زوال کی داستان رقم کرتی ہے۔
آفاقی و ابدی اصول کو بیان کردینے کے بعد تخلیق آدم کا واقعہ بیان ہوا ہے
جس کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ ”ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کی‘پھر تمہاری
صورت بنائی‘پھر فرشتوں سے کہا آدمؑ کو سجدہ کریں اس حکم پر سب نے سجدہ کیا
مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا“ (اعراف۱۱)۔ خالق کائنات نے
حضرت آدم ؑ کو متعارف کرنے کے لیے فرشتوں کی مجلس سجائی۔ اس میں ایک جن کی
موجودگی اس کے عروج کی علامت تھی۔ علم و دانش نے اسے مہتمم بالشان محفل میں
شرکت کا اہل بنایا مگر کبر و سرکشی اس کی بلندی کو نگل گئی اور وہ پستی کی
انتہا پر پہنچ کر راندہ درگاہ ہوگیا۔ارشاد ربانی ہے ”اچھا تو یہاں سے نیچے
اتر تجھے حق نہیں ہے کہ یہاں بڑائی کا گھمنڈ کرے نکل جا کہ در حقیقت تو ان
لوگوں میں سے ہے جو خود اپنی ذلت چاہتے ہیں“ (اعراف13)۔
قرآن کریم کا ہر لفظ سچ و حق ہے‘ جو اسباب زوال سے خبردار کیا گیا‘ اب
ماہرین بھی اس پر متفق ہیں کہ ان اسباب کے باعث دُنیا میں نسل ِ انسانی کے
زوال ہو سکتا ہے:انسانی معاشرے کے عروج و زوال کا سفر اس معاشرے کے انسانوں
کی انفرادی سوچ سے شروع ہوتا ہے۔انسانوں کی انفرادی سوچ ان کے قول و فعل کی
بنیاد رکھتی ہے‘پھر وہ سوچ‘قول و فعل اس معاشرے کے عروج و زوال کا رخ متعین
کرتی ہے۔
انسانی تاریخ میں جب بھی کوئی معاشرہ عروج پر پہنچا ہے‘ ان کا وہ سفر اپنی
فکر و سوچ سے شورع ہوا ہے‘ان انسانوں کی سوچ آزاد ہوتی ہے‘ان کی سوچ
لامحددو اور لا متناہی ہوتی ہے‘ان کی فکر و سوچ خودی اور ذات کی زنجیروں کو
توڑ دیتی ہے اور اس سوچ کا محور و مرکز اجتماعی بن جاتا ہے‘آزاد‘ لا متناہی
سوچ پر مثبت قول و فعل کی تعمیر ہوتی ہے اور وہ معاشرہ عروج کو پہنچ جاتا
ہے۔جبکہ جس معاشرے میں انفرادی سوچ قید و بند میں جھکڑی ہوتی ہیں‘ وہ پرواز
کے قابل نہیں رہتی وہ خودی اور اپنے ذات کی گرفت سے باہر نہیں نکل
سکتی۔زنجیروں میں جھکڑی سوچیں اجتماعی نہیں ہوا کرتی بلکہ انفرادی ہوا کرتی
ہیں وہ سوچ ایسے قول و فعل کو جنم دیتی ہے جو انفرادیت کو پروان چڑھاتی
ہے۔ذاتی عروج کا حصول تو ممکن ہو جاتا ہے مگر معاشرہ زوال پذیر ہوتا ہے۔
”سائنٹیفک امریکن“ کے مطابق امریکاکی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہر حیاتیات
پال ایرلچ کی1968میں ”دی پاپولیشن بم“ نامی کتاب شائع ہوئی تھی‘اس سال
دُنیا کی آبادی میں اضافے کی شرح 2 فیصد سے زیادہ تھی جو کہ تاریخ میں سب
سے زیادہ تھی۔اس کے نصف صدی بعد‘جوہری تباہی کا خطرہ اہمیت کھو
چکا۔اکیلیفورنیا ماہرین نے کہا ہے کہ نسل انسانی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔
جلد ہی اب اسکا زوال ہوسکتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ قد‘عمر میں زیادتی اور
جسمانی نشوونما کے حساب سے دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ موجودہ نسل اپنے
عروج کو پہنچی ہوئی ہے۔ انہوں نے پچھلے 120سال کی معلومات کا جائزہ لیکر یہ
بات کہی۔ سائنسدانوں کا کہناہے کہ ماحولیات کے بھی اثرات پڑ رہے ہیں۔
ماحولیات کے نتیجے میں بھی اب انسانی زندگی مختصر ہونا شروع ہوسکتی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اب انسان کو جو عروج حاصل ہے وہ شاید پھر کبھی نہ
آئے۔ نفسیاتی جریدے میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ
میڈیکل سائنس اور دیگر شعبوں میں ترقی کے نتیجے میں انسان پچھلے دور کی
نسبت اچھی زندگی گزار رہا ہے لیکن اب اسکی صحت خاصی متاثر ہوسکتی ہے۔
جہاں تک زیادہ آبادی کا تعلق ہے‘ 1968 کے مقابلے میں اس وقت کرہ ارض پردگنا
لوگ زیادہ آرام اور خوشحالی کے ساتھ بستے ہیں‘آبادی اب بھی بڑھ رہی ہے‘
لیکن اضافے کی شرح 1968 سے نصف رہ گئی ہے۔ موجودہ آبادی کی پیشین گوئیاں
مختلف ہیں۔ یہ وسط صدی میں سب سے اوپر جائے گی اور پھر تیزی سے کم ہوگی۔
2100 میں عالمی آبادی کا حجم اس سے بھی کم ہوسکتا ہے۔ زیادہ تر ممالک میں
شرح پیدائش اب شرح اموات سے کافی نیچے ہے۔ کچھ ممالک میں‘ آبادی جلد ہی
موجودہ شرح سے نصف ہو جائے گی۔موجودہ آبادی بہت چھوٹی چیز سے تیزی سے بڑھی
ہے۔ایک نوع کے طور پر، انسان غیر معمولی طور پر یکساں ہیں۔ جنگلی چمپینزی
کے چند گروہوں میں پوری انسانی آبادی کی نسبت زیادہ جینیاتی تغیر پایا جاتا
ہے۔
جینیاتی تغیرات کا فقدان کسی نوع یانسل کی بقا کے لیے کبھی بھی اچھا نہیں
ہوتا۔ مزید یہ کہ چند عشروں سے انسانی تولیدی خاصیت میں کمی نے شرح پیدائش
کو کم کردیا ہے وجوہات میں آلودگی‘اضطراب اور پریشانی ہے۔ لوگ اب کم آبادی
سے پریشان ہونے لگے ہیں۔ ممالیہ کی نسلیں تیزی سے آتی اور جاتی ہیں‘ دس
لاکھ برسوں میں پھلتی پھولتی اور مٹ جاتی ہیں۔ باقیات کے ریکارڈ اس بات کی
نشاندہی کرتے ہیں کہ انسان تقریباً تین لاکھ پندرہ ہزار برس یااس سے زیادہ
عرصے سے موجود ہے‘ لیکن اس وقت کے زیادہ تر عرصے میں یہ نوع انسان کم تھی‘
اس قدر کم کہ ایک سے زیادہ د مرتبہ وہ معدومیت کے قریب پہنچی‘ اور یوں نسل
انسانی کے مٹ جانے کاخدشہ پیدا ہوا۔
انسانی معاشی ترقی کی کو ششیں کرہ ارض پر موجود لاکھوں دیگر انواع کے لیے
مضر اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔ آج کل لوگوں کو اپنے آباو اجداد کے مقابلے میں
معیار زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے‘گزشتہ 20
سالوں میں عالمی سطح پر معاشی پیداواری صلاحیت رک گئی ہے یا اس میں کمی
ہوئی ہے۔نسل انسانی میں کمی ہو رہی ہے۔ آبادی کی سکڑتی شرح کا ایک اورعنصر
خواتین کی معاشی‘ تولیدی اور سیاسی آزادی ہے۔خواتین کی افرادی قوت دوگنا ہو
چکی ہے جس سے عمومی طور پر انسانوں میں تعلیمی حصول‘ لمبی عمر اور معاشی
صلاحیت بہتر ہوئی ہے۔مانع حمل کے طریقوں اور بہتر صحت کی دیکھ بھال کے
ساتھ‘خواتین زیادہ بچے پیدا کرنے سے گریزاں ہیں لیکن کم بچے پیدا کرنا
کامطلب آبادی کے سکڑنا ہے۔
بنی نوع انسان کے لیے سب سے خطرناک خطرہ ایک ایسی چیز ہے جسے ختم ہونے والا
قرض کہا جاتا ہے یعنی کسی بھی نوع کی ترقی میں ایک وقت ایسا آتا ہے بھلے وہ
پھیل رہی ہو جب ناپید ہونا ناگزیر ہو جائے گا‘چاہے وہ اسے روکنے کے لیے کچھ
بھی کرے۔ معدومیت کی وجہ عام طور پر رمسکن کے نقصان پر تاخیری ردعمل ہے۔اگر
ہم چاہتے ہیں کہ ہم ایک عظیم قوم بن جائیں ہمیں اپنی فکر و سوچ کو آزاد
کرنا ہوگا۔ ہمیں ایک ایسی نسل تیار کرنی ہوگی جو سوچ کے قید و بند سے آزاد
ہو۔یاد رکھنا‘ زنجیروں میں جھکڑے جسم نہیں پھولتے اور ایسے ہی زنجیروں میں
جھکڑی سوچیں پروان نہیں چھڑتی۔یہ کورونا‘دیگر وبائی امراض ہمیں اب بھی
متنبہ کر رہے ہیں کہ شائد دُنیا اختتام کے قریب آچکی ہے‘ موجودہ صدی نسل
انسانی کے لئے خطرناک بھی ہوسکتی۔
|